کسے  ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں

مقصود عالم رفعت

کسے  ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں

تمنا اتنی ہے تقدیر اپنی ضوفشاں کر لیں

چلو ہم ملک کو اپنے وہی  ہندوستاں کر لیں

کہا اقبال نے جس کو وہی رشک جناں کر لیں

جو درد دل  نہاں ہیں آج  ہم ان کو عیاں کر لیں

اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں

امیر شہر کے یہ ضابطے دیکھے نہیں جاتے

یہ آنکھیں بے بصر جہوجائیں خود کو بے زباں کر لیں

سنا ہے قافلے کو راہبر ہی لوٹ لیتا ہے

سو اب ہمت نہیں ہوتی کسی کو پاسباں کر لیں

ؑنہیں ہے آبرو کلیوں کی بھی محفوظ گلشن میں

درست اے کاش نیت اپنی اب یہ باغباں کر لیں

اکیلا ہی نکل پڑتا ہوں اکثر جانب منزل

ضرورت ہی نہیں ہمراہ اپنے کارواں کر لیں

ملیگی منزل مقصود ہم کو بالیقیں رفعت

مگر یہ شرط اول ہے کہ عزم اپنا جواں کر لیں

تبصرے بند ہیں۔