کسے ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں
مقصود عالم رفعت
کسے ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں
تمنا اتنی ہے تقدیر اپنی ضوفشاں کر لیں
…
چلو ہم ملک کو اپنے وہی ہندوستاں کر لیں
کہا اقبال نے جس کو وہی رشک جناں کر لیں
…
جو درد دل نہاں ہیں آج ہم ان کو عیاں کر لیں
اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
…
امیر شہر کے یہ ضابطے دیکھے نہیں جاتے
یہ آنکھیں بے بصر جہوجائیں خود کو بے زباں کر لیں
…
سنا ہے قافلے کو راہبر ہی لوٹ لیتا ہے
سو اب ہمت نہیں ہوتی کسی کو پاسباں کر لیں
…
ؑنہیں ہے آبرو کلیوں کی بھی محفوظ گلشن میں
درست اے کاش نیت اپنی اب یہ باغباں کر لیں
…
اکیلا ہی نکل پڑتا ہوں اکثر جانب منزل
ضرورت ہی نہیں ہمراہ اپنے کارواں کر لیں
…
ملیگی منزل مقصود ہم کو بالیقیں رفعت
مگر یہ شرط اول ہے کہ عزم اپنا جواں کر لیں
تبصرے بند ہیں۔