زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں
جمالؔ کاکوی
زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں
حاصلِ زیست بھی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
اس کی مرضی کے سوا کچھ نہیں کرنا ہے مجھے
رب واحد کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
کوئی رہبر نہیں دین ِشریعت کے سوا
شیخ صاحب کی نصیحت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
زندگی ایک معمہ،جس کا سمجھنا ہے محال
موت ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
جام ساقی نے دیا ہے یہ نصیحت کرکے
ظرف سے زیادہ ذلالت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
دلِ معصوم سے گر کوئی خطا ہو جائے
ایک بچّے کی شرارت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
صبراورشکر کی تنویر سے روشن ہو حیات
ورنہ یہ شبِ ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
ایک امید پر قائم ہے زمانے کانظام
ورنہ فرہادکی حرکت کے سوا کچھ بھی نہیں
…
میں نے سونچاتھاہے عکس ہی عین جمالؔ
آئینہ دیکھا تو حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں
تبصرے بند ہیں۔