سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
نادیہ عنبر لودھی
سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
…
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
داد ِغالب، سندِ میر نہیں چاہتی میں
…
فیض یابی تری صحبت ہی سے ملتی ہے مجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
…
قید اب وصل کے زنداں میں تُو کر لے مجھ کو
یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں چاہتی میں
…
اب تو سپنے میں وہ شخص آتا نہیں ہے عنبر
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں
تبصرے بند ہیں۔