ہمیں آج بھی آئین میں جمہوریت کے تحفظ کا یقیں ہے!

محمد حسن

گزشتہ برسوں وطن عزیز میں جس طرح ایک مخصوص ذہنیت کی سیاسی پارٹی کے اقتدار کے دور کا آغاز ہوا تھا اور جس طرح سے یہ پارٹی اپنی حکومت سازی کے لئے کسی بھی حد تک جانے میں ذرا بھی ججھک محسوس نہیں کر رہی تھی، اس کا رجحان صرف اقتدار حاصل کرنے کا تھا اور اس کے لئے یہ کوئی بھی قیمت چکانے کے لئے تیار رہتی تھی جس کی مثالیں کئی ریاستوں کے انتخابات میں پائی جاتی ہیں، گوا اور منی پور میں کانگریس کو سیاسی دوڑ میں پیچھے چھوڑنے کے لئے مختلف چھوٹی پارٹیوں کو بہکا کر اور لالچ میں پھانس کر جو کچھ کیا گیا اور بہار میں عظیم اتحاد کو توڑکر سیاست کے رخ کو جس طرف موڑا گیا وہ صرف قابل افسوس ہی نہیں بلکہ لائق مذمت بھی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، حالیہ دنوں کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اس پارٹی کو منہ کے بل گرنا پڑا اور جھوٹی شان وشوکت یہاں تک کہ ساری مکاری وعیاری کا پردہ فاش ہوگیا اور اس کا اصلی چہرہ کھل کر عوام کے سامنے آ ہی گیا جس کی طرف سیاسی مبصرین کئی برسوں سے اشارہ کرتے آرہے تھے اور ملک کے معصوم عوام کا جو سیاست کے چکر بھیو سے واقف نہیں ہے اس کا رجحان اس طرف کرانے کی مسلسل کوشش کررہے تھے۔

سیاسی مبصرین اور ملک کے عوام کو اور ہر اس شخص کو جسے اپنے وطن کے مستقبل کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، جو اپنے ذاتی حالات ومعاملات کی بہتری کو ملک کی خوشحالی اور سیاسی ومعاشی حالات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں انہیں کرناٹک کے انتخابی نتائج کا بےصبری سے انتظار تھا کیوں کہ یہ ایک ایسا پڑاؤ تھا جہاں سے نہ صرف  سیاسی مبصرین اپنے قلم کا رخ موڑنے والے تھے بلکہ ملک کے عوام کا مستقبل بھی طے ہونا تھا، جس طرح سے ملک آج دوراہے پر کھڑا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات زور پکڑ رہے ہیں، ملک کے سیاسی ومعاشی حالات دیگر گوں ہورہے ہیں، کسی بھی چیز کو ترقی کی عینک سے دیکھے جانے کے بجائے مذہبی بٹوارے کی عینک سے دیکھا جارہا ہے اور کوشش یہ کی جارہی ہے کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جائے اور ملک کو ایسے چوراہے پر لاکر چھوڑا جائے جہاں صرف لاشیں ہی لاشیں ہوں اور ایک بار پھر اس خونی منظر کو دہرا جائے جسے دیکھ کر انسان کانپ اٹھا ٹھا اور زمین وآسمان دہاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور چرند وپرند اپنی بے بسی پر پُرملال اور ماتم کناں تھے۔

کرناٹک اسمبلی انتخابات کا ہر لمحہ جہاں دل کی دھڑکنیں بڑھائے جارہا رہا تھا وہیں تجزیہ نگاروں کے قلم کو بھی تھامے ہوا تھا ایسی صورت میں کوئی  بھی حتمی بات کہنا نہایت ہی دشوار ہورہا تھا اسلئے کہ وہاں کچھ بھی صحیح سمت میں نظر نہ آ رہا تھا، وہاں قانون کا کوئی پاس ولحاظ تھا اور نہ ہی دستور وآئین اور تاریخ کا کوئی قدرواحترام، ایک طرف حزب مخالف کی مایوسی اور دوسری طرف بابا صاحب کے آئین کی دھجیاں اڑانے کی کوشش، کسی بھی پاڑتی کو حکومت سازی کے کل نمبرات حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے ملک کے عوام میں بھی کافی تشویش تھا لیکن یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہ تھا اس لئے کہ آئین میں جہاں اس کا حل موجود تھا وہیں تاریخ میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں لیکن پریشانی کا باعث کا تھا وہ قدم جو ریاست کی سب سے بڑی پاڑی بن کر ابھرنے والی سیاسی پارٹی کی طرف سے بنا کسی تاخیراورغوروفکر کے اٹھایا گیا تھا اور ریاست کے گورنر کا وہ فیصلہ جس سے دودھیا اجالے کی طرح یہ صاف ظاہرہوگیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک خطرے میں ہے اور بہت جلد اس کا جمہوری رنگ اتار کر اس پر ایک مخصوص رنگ چڑھایا جانا ہے جس کی کربناکی سے گزشتہ چار سالوں سے ملک اور اس کے عوام کراہ رہے ہیں۔

مخالف پارٹیوں نے باطل کو سکشت دینے کی جو تگ ودو کی ہے اس سے جہاں ملک میں امن بحال ہوتا نظر آنے والا ہے وہیں ایک مخصوص فکر کے حامل دور اقتدار کا خاتمہ ہوتا بھی نظر آنے والا ہے اور عدالت عظمی نے جس دانشمندی اور انصاف پسندی سے اپنا کام کیا ہے اسی طرز پر اگر اپنا کام کرتی رہے تو باطل طاقتوں کو سرکشی کا موقعہ قطعی نہ مل سکے گا اور گاہے بگاہے ان کی سرزنش بھی ہوتی رہے گی جس سے ان کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور انہیں خوف لاحق ہوجائے گا، آئندہ کبھی بھی بدامنی پھیلانے کی کوشش کرنے سے پہلے ایک بارضرور سرزنش کا منظر ان کی نظروں کے سامنے ہوگا اور فساد کی طرف ان کا بڑھتا قدم خود بخود رک جائے گا نہیں تو قانون کی بیڑیاں ان کے پیروں کی زینت بنیں گی۔

 جس خوش اسلوبی، عقلمندی اور صبر کے ساتھ ریاست کی دیگر پارٹیوں نے اپنا فرض انجام دیا اور سرکش کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لئے بنا کسی بد نظمی کے قانون وآئین کا سہارا لیا اسی طرح ملک کی دوسری پارٹیاں اگر متحد ہوجائیں اور اپنے اتحاد کو ملک کی سالمیت اور ترقی کے بقا کا ضامن بنائیں تو وہ دن دور نہیں کہ وطن عزیز جس مختلف ادیان ومذاہب کے گہوارے اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اس میں پھر سے چار چاند لگ جائے گا، اور ملک کے چہرے پر معصوم 8 سالہ بچیوں کی آبروریزی اور فرقہ وارانہ فسادات کا جو بدنما داغ ہے وہ مضمحل ہوجائے گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک کی عدلیہ اور مخالف پارٹیاں اپنا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیتی رہیں اور ملک کا ہر فرد یہ کہ اٹھے کہ ہمیں آج بھی آئین میں جمہوریت کے تحفظ کا یقیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔