طرحی غزل
احمد علی برقی ؔاعظمی
یہ کیسا ہے ہرسو نظارا زمیں پر
ہر اک شخص ہے غم کا مارا زمیں پر
…
جو ہیں حکمراں وہ سمجھتے ہیں ایسے
نہیں جیسے کچھ بھی ہمارا زمیں پر
…
وہیں لوٹ جاتے جو ہوتا یہ بس میں
نہیں اب کوئی اپنا یارا زمیں پر
…
ہر اک سمت کنکریٹ کے اب ہیں جنگل
کرے کوئی کیسے گذارا زمیں پر
…
کہیں زلزلہ ہے کہیں ہے سنامی
ہیں دیوار و در پارہ پارا زمیں پر
…
کھٹکتے ہیں ہم یوں نگاہوں میں اس کی
نہ ہوں جیسے اس کو گوارا زمیں پر
…
یہ جاہ و حشم چندروزہ ہے اس کا
نہ ہے اب سکندر نہ دارا زمیں پر
…
وہی صحنِ گلشن ہے زد پر خزاں کی
جسے خونِ دل سے سنوارا زمیں پر
…
وہی ابنِ آدم کے خوں کا ہے پیاسا
جو انسان تھا عالم آرا زمیں پر
…
کیا جس نے تخلیق سب کچھ ہے اس کا
نہیں کچھ ہمارا تمھارا زمیں پر
…
ہے بے فیض تشنہ لبوں کی نظر میں
سمندر ہے جس طرح کھارا زمیں پر
…
جسے مال و دولت پہ تھا ناز اپنے
’’پھرے ہر طرف مارا مارا زمیں پر‘‘
…
نبرد آزما ہے وہ فطرت سے برقیؔ
فلک سے گیا جو اتارازمیں پر
تبصرے بند ہیں۔