ہم کو دہشت گرد کہتے ہیں!

محمد صابر حسین ندوی

اسلام مخالیفین اور مستشرقین کی جماعت اسلام کو تشدد پسند اور اس کی تبلیغ واشاعت میں تلوار کی زور کا دعوی کرتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو بدو، دیہاتی اور طبعی جنگ پسندی کا طعنہ دے کر؛اسے اسلام کی ترویج کی وجہ قرار دیتے ہیں ، ان کے مطابق ’’نعوذبااللہ ‘‘اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگجوؤں کی فوج تیار کی تھی، جو سفاک اور غارت گر اور خون پسند تھی، گھوڑسواری کرنا، دریادلی اور سخاوت وفیاضی کے ساتھ بہادری وشجاعت میں بے مثال تھی، انہیں اسلام میں فی نفسہ کوئی جاذبیت حقانیت اور حقیقت نظر نہیں آتی ؛بلکہ اس کے ماننے والے بھی گویا انہیں قدامت پسند اور انسانی ترقی وعروج میں میں مخل قوم وامت سمجھتی ہے، اوراسے اوصاف حمیدہ کہئے یا ان کی زبان میں اسلام ہیولہ صفت تحمید کا مجموعہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نےشمشیر وسنان کے زور پر اسے دنیا میں جگہ دی ہے، خوف ودہشت اس کی سرشت کا حصہ اور اس کی تعلیم کا جزو لاینفک ہے، دوسروں پر رعب ڈالنا اور اسے اپنے غضب وتیش پر سر نگو کردینا ہی اس کے مزاج عالی کا حصہ خاص ہے، بموں اور توپوں کے ذریعہ یا اپنی جناتی (مخالفین کی نظر میں ) شکل وشباہت سے ہیبت ورعب طاری کردینا اور مجمع عام کو حیص وبیص میں مبتلا کردینا ہی ان کا شیوہ ہے۔

یہی وہ سوچ اور فکر ہے، جسے باقاعدہ کتابی اور نصابی شکلوں میں ’’ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی‘‘ میں پڑھائے جانے کی خبر ہے، یہ نصاب جدید نسل کو اسلامی دہشت گردی کے متعلق بیداری، اور اس کے تئیں ہوشمندی وعقلمندی کے ساتھ اس سے نپٹنے کا خصوصی مزاج پیدا کرے گا، ان کے جگر گوشہ میں اسلام کی خود ساختہ حقیقت کو ثبت کرے گا، خدا جانے یہ کس دماغ کی اپج اور کس جماعت کی تشکیل ہے، کسے شیطانی ولایت کا بھرم اور خودذات خدائی کا غرا سماگیا ہے، وہ کون ہے جو خدا تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اعلان جنگ پر آمادہ ہے؟نیز اس سے زیادہ قابل تشویش بات یہ ہے ؛کہ پوری قوم اور امت مسلمہ کی خموشی آخر کس بات کا پتہ دے رہی ہے؟کیا انہوں نے بھی اسلامی تعلیمات کے متعلق وہی کچھ تصور کرلیا ہے، جو وہ کروانا چاہتے ہیں ؟کیا ان کے ضمیر و ایمان پر پردہ پڑچکا ہے؟ کیا وہ قرآن وحدیث کا اتمام نہیں مانتے، اور ’’الدین عنداللہ الاسلام‘‘نیز ’’الیوم اکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعتنی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ پر ایمان نہیں رکھتے، اسلام کو امن پسند اور خدائے عزوجل کی جانب سے اتارا ہوا آخری دین کا عقیدہ نہیں رکھتے؟ کیا وہ صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کو برحق اور خدا کے مقرب ترین بندہ نہیں سمجھتے؟ اگر خدارا ! ایسا ہے اور خواہ یہ صراحت کے ساتھ نہ ہو ؛بلکہ دل کے نہا خانوں میں پوشیدہ بھی ہو اور دبیز پردوں کے آغوش میں ہو؛ تب بھی اپنے ایمان کا جائزہ لینے اور پھر سے اسلام کی طرف بازگشت کرنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ کو چھان ڈالئے، جو ہو سکے اور جو بن سکے کر ڈالئے ؛لیکن پاک دل اور نیک نیتی کے عینک کے ساتھ اگر اسے دیکھیں گے، تو اس پر کوئی گرد نظر نہ آئے گی وہ ماء طھورا اور چشم صافی سے بھی زیادہ صاف وشفاف اور آئینہ سے کہیں زیادہ حقیقت پسندوپائیدار نظر آئے گا، وہ ابر رحمت کا وہ چھینٹا معلوم ہوگا جس کا ہر قطرہ مبارک ہے، جو جس کے اول وآخر کی کوئی تمیز نہیں ہے، اس گلشن کا ہر پتہ اور بوٹہ، بوٹہ انسان دوستی اور انسانیت نوازی کا علمبردار ہوگا، اس کے رگ وریشہ میں عدل وانصاف اور پاکی وطہارت سے لے کر معاشرے کی مناسب تشکیل اور انصاف بر مبنی نظام حکومت وقانون کی روانی نظر آئے گی، روحانیت اور ملکوتیت کا وافر حصہ ملے گا، تو وہیں بہیمی اوصاف رذیلہ کی درست سمت میں رہنمائی ورہبری ملے گی، اس کے اندر حقوق کی ادائیگی اور انصاف پروری میں بھائی بھائی اور دشمن کی کوئی تمیز نہیں ہوگی، پوری انسانیت کو اخوت کے دھاگے میں پرونے اور ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہونے کا نظریہ پیش کیا جائے گا، تمام مذاہب کی عزت وتوقیر اورخودداری و غیرت مندی کی اعلی صفات مہیا ہوں گی، اور زندگی اس کے سایہ تلے کسی بہشت سے کم نظر نہ آئے گی اور دنیا کے اندر ہی جنت کا وہ منظر نامہ مجسم طور پرسامنے آجائے گا جسے اللہ رب العزت نے اپنے موئے قلم سے یوں کھینچا ہے’’عالیھم ثیاب سندس خضر واستبرق، وحلوا أساور من فضۃ وسقاھم ربھم شرابا طھورا‘‘(الانسان:۲۱)۔

بفرض محال ہم نے مانا کہ اسلام تلوار و دہشت کے زوروں پر پروان چھڑھا ہے اور اس کی اشعاعت میں زبردستی کا اوافر سرمایہ ہے؟ لیکن غور سے دیکھو! اور خود فیصلہ کرو! کہ ہم نے دہشت اور تلوار کے نام پرانسانیت کو کیا دیا ہے، عرب جیسی بدو قوم کو جو جاہلیت میں شرا بور تھی، جن کے سامنے انسانی خون کی کوئی حیثیت نہ تھی، جو عورت کو اپنے پیروں کی دھول سمجھتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے نیز بیٹوں کو بھی خشیت املاق کی بنا پر جان سے ماردینے کا عام رواج تھا، سالہا سال جنگوں کا سلسلہ ایسے چلتا تھا جیسے نسوں میں خون کی روانی ہو، تو وہیں عمومی عالم انسانی پر نظر دوڑائیے ! اس وقت جہاں یونان ورم جیسے حکومت کی بر بریت نے تہلکہ مچا رکھا تھا، انسانوں کو مشعلوں کے طور پرگھروں میں چراغاں کرنے اور ان کی سسکتی ہوئی موت کا تماشہ دیکھنے نیز جانور بلکہ’’بل ھم اضل‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، غلاموں اور باندیوں کی خرید فروخت کی منڈیاں سجتی تھیں ، طوائف اور فحش خواتین کے اڈےرونق افروز ہوا کرتے تھے، اور ابھی تاتاری قوموں کی بربریت، افغان قوم کی جہالت و بایہ نشینی اور ایرانیوں کی زرتشتی نیز ایشیا ءکے عظیم حصہ میں بتوں اور معبودوں کی کثرت نے انسان کو انسان نہ رہنے دیا تھا؛دیوی دیوتاوں کے سامنے سامنے جھکنے اور ان کیلئے اپنی جان ومال کی قربانی پیش کرنے کاعام رواج ہوچلا تھا، طبقہ واریت اور انسانی درجہ بندی نے نیز بعض مذاہب کے غلو اور بعض کے مثل ’’حباب‘‘ ہونے نے انسانوں کو شرمسار کردیا تھا، تو وہیں یوروپ کی ناپاکی وطہارت سے دوری اور جہالت وبربریت کا قصہ ہر خاص وعام کی زبان پر زد تھا، علم سے دوری کا عالم تو یہ تھا کہ اگر کسی کے بارے میں علمی کاوزش کا پتہ چل جائے تو اسے تختہ دار پر چڑھادینے کے سوا کوئی کام نہ ہوتا تھا، یہی وجہ ہے ان زمانوں کو ’’ڈارک اجیز‘‘ یعنی عہد ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ سب ایسی حقیقتیں ہیں جن پر مزید کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ، اگر کسی کو کئی شک ہوتو یوروپ ومغرب اور ہندوازم کی تاریخ پر مہیا دفاترآپ کا انتظار کررہے ہیں ۔

ہم نے تلوار کے نام پر ہی سہی جب دنیا’’ظھر الفساد فی البر والبحر ‘‘ کی ایسی جاں گسل صورت حال میں صرف اور صرف اسلام ہی تھا، جس نے عالم انسانی کو اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا، انسانوں کو انسانیت کا مقام یاد دلایا، صلح وصلاح، محبت ورافت اور بھائی چارگی کا پیغام عام کیا، جنگ بندی کی ہر کوشش کی اور عفو در گزری کی ترببیت کی گئی، ہاتھ اٹھانے اور تلوار سے اخیر درجہ میں کام لیا گیا، خود قرآن کریم نے اس کی شہادت دی ہے’’اذن للذین ْْْْْْبأنھم ظلموا‘‘(حج:۳۹)صنف ضعیف، وصنف نازک کے حقوق کی بازیافت کی گئی، ان کے حقوق کی حفاظت کیلئے جنگ تک کا اعلان کیا گیا ’’مالکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(نساء:۷۵)عورتوں کو ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت میں رحمت، تسکین حیات اور حسن سلوک کا اولین مخاطب ٹھہرایا، ’’خیارکم خیارکم لنسائھم خلقا‘‘(بخاری:۱۱۶۲)، جنگوں کے اصول وضوابط طے کئے گئے اور اسے شتر بے مہار سمجھ کر اپنی دلی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ نہیں ؛ بلکہ مظلوموں کی حمایت کا وسیلہ بتلایا گیا، عدل وانصاف کرنے میں اپنے دشمن کے ساتھ بھی جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کو ناجائز قراردیا گیا’’لایجرمن شآن قوم علی ألا تعدلوا ‘‘(مائدۃ:۸ اور۲)نیز حکومت خالص للہیت وخشیت پر قائم کرنے اور امن وامان عام کرنے کی تلقین کی گئی، ساتھ ہی ہر ایک کی آزادی کا ضامن بنایاگیا، خواہ مذاہب کے اعتبار سے ہو یا شخصی اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو۔

اس سلسلہ میں صاحب دل کی شہادتوں کی کمی نہیں ہے، صرف تین غیر مسلم معتبر شواہد پیش کر سکتے ہیں ؛کہ اسلام اور ا سکے نبی نے انسانیت کو کیا دیا؟، مؤرخ ’’جون ڈبلیودراپیر‘‘اپنی کتاب’’الاکتشافات المعنویۃ الاوربیۃ‘‘میں یورپ کی بود وباش اور طور طریق کو بیان کرتے ہوئے ان میں عرب اور اسلام کے ذریعہ پیدا کردہ ’’تہذیبی انقلاب‘‘ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :’’یورپین جنگلی تھے، انہیں مسیحیت اس سے گلو خلاصی نہ دے سکی اور جو کامیابی مسیحیت کو حاصل نہ ہو سکی وہ اسلام اور اسپین آنے والے عربوں کو حاصل ہوئی، انہوں نے اسپین کے باشندوں کو ابتداء ً غسل اور پاکیزگی کا طریقہ سکھایا، بعد ازاں ان کے بدن سے حیوانات کے پھٹے پرانے بدبودار کھالوں کو اتار کر ان کو صاف ستھرے خوبصورت لباس پہنائے، گھروں ، مہمان خانوں اورمحلوں کی تعمیر کی، انہیں درس وتعلیم سے آراستہ کیا، ان کے لئے جامعات ویونیورسیٹیاں قائم کیں ، لیکن نصرانی مؤرخین اسلام اور مسلمانوں سے کینہ اور دشمنی کی بنیاد پر ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یورپین کسی حال میں اپنی تہذیب وثقافت کے حوالے سے اپنے اوپر مسلمانوں کی برتری وفضیلت کا اعتراف نہیں کرتے۔ ‘‘

پنڈت گیان درا دیو شرما شاستری (مذہبی راہنما، لکھاری) لکھتے ہیں :تمام نقاد اندھے ہیں ۔ وہ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ واحد تلوار جو محمد نے تانی وہ رحم، ہمدردی، دوستی اور عفو کی تلوار تھی۔ یہ وہ تلوار ہے جو دشمنوں کو فتح اور دلوں کو پاک کرتی ہے۔ ان کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز دھار تھی۔ اسلام پر تنقید کرنے والا تنگ ذہن ہے جس کی آنکھیں جہالت کے نقابوں سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ انھیں روشنی کی بجائے آگ، حسن کی بجائے بدصورتی اور اچھائی کی بجائے برائی نظر آتی ہے۔ وہ ہر اچھی خوبی کو برائی کی صورت میں پیش کرتے ہیں جو کہ ان کی اپنی بدکرداریوں کا عکس ہے۔ 19۔ http://www.teachislam.com/ – MOHAMMAD in eyes of Non-Musli)، کرم چندگاندھی جن کو ہندو ’’بابائے قوم‘‘اور’’مہاتما‘‘کے خطاب سے یاد کرتے ہیں ، انہوں نے اسلام اور قرآن پر گہری تحقیق کی، ان کی تحقیق اور جستجو نے بھی ان کو اسلام کی خوبیوں کے اعتراف پر مجبور کردیا چناں چہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’مسلمان اپنی عظمت کی بلندی اور اپنے غلبہ کے زمانہ میں بھی کبھی تکبر اور ایذاء رسانی میں مبتلاء نہیں ہوئے، دین اسلام، ایمان اور پوری کائنات کے خالق سے دل لگانے اور اس کی مخلوق میں غور وفکر کا حکم دیتا ہے۔ اس وقت جب کہ مغرب خطرناک تاریکی میں بھٹک رہا تھا مشرق میں روشن ہونے والے اسلام کے بلند سورج نے مستحق عذاب دنیا کو روشن ومنور کردیااورباشندگان دنیا کوسلامتی، راحت وطمانینیت بخشا، دین اسلام باطل مذہب نہیں جب بھی ہندؤ نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور اسکے بارے میں تلاش وجستجو کی ہے تووہ اس کے ایسے ہی گرویدہ ہوگئے ہیں جیسا میں اس کا گرویدہ ہوں ، جب میں نے اس کا مطالعہ کیا اور ان کتابوں کو پڑھا جن میں اسلام کے نبی اور ان کے اصحاب کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں تو میں ان سے اتنا متأثر ہوا کہ ان جیسی دیگر کتابوں کے وافر مقدار میں مہیا نہ ہونے کا مجھے شدید غم لاحق ہوگیا۔ اور مجھے اس بات پر مکمل یقین اور اطمینان ہوگیا کہ اتنی تیزی کے ساتھ اس دین کی اشاعت اور بہت سے لوگوں کا رغبت کے ساتھ اس دین کو گلے لگانا قوت اورتلوار کا اثر نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، ہرایک نے اس مذہب کو اس کی وسعت، نرمی، اس کے نبی کے تواضع، ان کی سچائی، ان کی حکمت کی وجہ سے پسند کیا ہے اور قبول کیا ہے، اسلام میں رہبانیت نہیں ہے کیونکہ اسلام نے اس کی تردیدکی ہے، اسلام میں بندہ اور اس کے رب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ ایک سراپا عدل مذہب ہے۔ ‘‘(الاسلام وسائر الادیان:ماخوذ)

تاریخ کا ہر صفحہ گواہ ہے کہ جب تک ہم نے حکومت وسیادت کی باگ ڈور سمنبھالی ؛عموما انسان کو انسان سمجھا اور پوری دنیا گلدستہ بنی رہی ؛لیکن تم نے کیا کیا؟ امن کے نام پر ایٹم بموں کی جستجو، اور جدید ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعہ پوری انسانیت کو مقبرہ بناکر رکھ دیا، ہر خطہ تمہارے ظلم وجور پر گواہ ہے، دنیا کو دو عالمی جنگوں کا حسین تحفہ کس نے دیا ہے؟ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کس کے سر ہے؟خلیجی ممالک میں استعماری کرکے اور ایشیاء اور یوروپ کےایک عظیم حصہ پر؛ بلکہ بر اعظم امریکہ پر بھی غاصبانہ حکومت کرنے کا داغ کس پیشانی پر ہے؟دنیا کو کالے اور گورے کی تفریق کس نے سکھائی؟ عراق، شام، لیبیا، تیونس، افغانستان، پاکستان کو تباہ کرنے اور ان کی نسلوں کو برباد کرنے کا الزام کس پر ہے؟خود ملک عزیز میں مسلم حکمرانی اور غیر مسلم حکمرانی میں ہوئے فسادات کی شرح نکالئے، آپ بلا تأمل کہہ اٹھیں گے ؛کہ گئو کشی، وطن پرستی، اور ہندو مسلم کے نام پر خونی ہولی کا بازار تم نے گرم کر رکھا ہے، اور پورے ملک کو ہندو احیائیت کی چادر میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتاردینے کی قسم تم نے کھا رکھی ہے؛اب تم خودفیصلہ کرو کہ ’’دہشت گردی‘‘ کا کورس کس پرہونا چاہئے؟۔

تبصرے بند ہیں۔