غزل – زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہوگیا طولِ سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکسِ لاتفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بِسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسنِ آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اُترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قُرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے
تبصرے بند ہیں۔