خلافت – صرف نعرہ یا حقیقت؟

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب
امت محمدیہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد تقریباً چالیس سال تک ایسے ایام دیکھے جیسے ایام پھر شاید کبھی امت کو نصیب نہیں ہوئے۔ یہ وہ ایام تھے جن کو دیکھنے کی تمنا ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے، یہ وہ حکومت تھی جس کی ماتحتی میں ہر مومن زندگی گزارنے کی آرزو لے کر جیتا ہے۔ عدل و انصاف کی اعلی مثال تھے وہ ایام، آزادی و مساوات کے پیکر تھے وہ ایام۔
حقوق کے لیے عوام کو کبھی دھرنے نہیں دینے پڑتے؛ حق ثابت ہوتے ہی حکومت خود اسے پورا کرنے کے لیے تلملا اٹھتی۔ عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے؛ انصاف خود انہیں تلاش کرتا پھرتا۔ حکومت کی جانب سے ظلم و جبر کا تصور ہی نہیں تھا؛ ایک عام سا انسان حکمراں سے سرعام سوال کرنے اور اس پر تنقید کرنے کا حق رکھتا تھا۔ جرم کرنے والے کو نہیں بلکہ جرم کو دیکھا جاتا۔ دولت ان کے قدموں میں تھی لیکن وہ خود دولت سے دور بھاگتے۔ عیش و آرام کا تو تصور ہی نہیں تھا؛ درخت کے سائے میں حکمراں لیٹ کر آرام کرلیتا، سادگی، قناعت، خوف خدا، خدا ترسی، الله الله۔ اتنا سب ہونے کے باوجود راتیں عبادت کرنے اور خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گڑگڑانے میں گزرتیں۔ ہمیشہ خدا کا ایسا خوف طاری رہتا کہ غلطیاں کیے بغیر غلطیوں کی معافی مانگتے رہتے۔
کہاں سے آیا تھا یہ زہد و تقوی؟ کیسے تیار ہوئے تھے یہ حکمراں؟ کیسے قائم ہوئی تھی یہ حکومت؟

یہ الله کے رسول صلی الله علیہ و سلم کی تربیت تھی، یہ ان کی صحبت میں شب وروز گزارنے کا فیض تھا، یہ اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ تھا، یہ قرآن کی روشنی کی کر نیں تھیں، یہ خشیت الہی کا جلوہ تھا۔
یہ کسی نظام حکومت کے بس کی بات نہیں تھی کہ ایسے حکمراں اورایسی حکومت قائم کردیتا۔ اور نہ ہی کسی نظام حکومت کے اندر یہ طاقت تھی کہ ایسی حکومت قائم ہونے سے روک دیتا۔

خلفائے راشدین کے ہاتھوں میں اقتدار چاہے بادشاہی نظام کے ذریعہ آتا، چاہے جمہوری نظام کے ذریعہ آتا، چاہے کسی بھی دوسرے ذریعہ سے آتا، حکومت ویسی ہی قائم ہوتی جیسی خلافت راشدہ میں قائم ہوئی تھی کیونکہ قرآن ان کا دستور تھا، سنت ان کا کردار تھا، اسلام ان کا مذہب تھا، عوام میں مقبول و محبوب تھے۔

عدل نظام حکومت سے قائم نہیں ہوتا بلکہ حکمرانوں کی شخصیتوں اور ان کی نیتوں سے ہوتا ہے۔ اگر حکومت الله کے نیک بندوں کے ہاتھوں میں ہو تو عدل قائم ہوگا اگر نیک بندوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوتو عدل کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔

چنانچہ دنیا نے خلفائے راشدین کے گزرنے کے بعد اسی نظام حکومت کو عدل و انصاف سے دور ہوتے دیکھا، اسی نظام حکومت کو خاندانوں کی جاگیر بنتے دیکھا، اسی نظام حکومت میں حکمرانوں کو عیش و عشرت اور مال ودولت میں ڈوبتا ہوا دیکھا، اسی نظام حکومت میں عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑتے دیکھا، اسی نظام حکومت میں اسلامی قانون کا مطالبہ کرنے والوں کو قید و بند کا شکار ہوتے دیکھا۔

کیا ہزاروں افراد کی سالہا سال کی کوششوں کا مقصد اس حکومت کا قیام تھا جو نصف صدی تک بھی باقی نہ رہ سکی؟ کیا اس حکومت کے زوال سے اسلام پر کوئی آنچ آئی؟
نہیں بالکل نہیں، اسلام اسی صورت میں باقی تھا، باقی ہے اور تاقیامت باقی رہے گا۔ الله کے نیک بندے اس کے دامن سے لپٹ کر تاقیامت جیتے رہیں گے۔ انہیں جب اور جہاں موقع ملے گا اس کی تعلیمات عام کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے۔ انہیں کسی بھی ذریعہ سے، کسی بھی موقع پر اقتدار حاصل ہوگا، وہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں حکومت قائم کریں گے۔

عدل و انصاف اور اسلامی قوانین و حکومت اس بات سے قائم نہیں ہوتے کہ حکمراں کس طرح اقتدار تک پہنچا بلکہ اس بات سے قائم ہوتے ہیں کہ اقتدار تک پہنچنے والے حکمراں کا کردار کیسا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کی مشعل راہ کیا ہے؟
خلافت راشدہ کا دوبارہ قیام خلافت کے جھنڈے اٹھا کر طاقت و اقتدار حاصل کرنے سے کبھی نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بوبکر و عمر، عثمان و علی جیسے کردار کے افراد تیار کرنے ہوں گے اور انہیں اس جیسی شوری درکار ہوگی اور اتنا ہی نہیں اس کے لیے اسلام پسند عوام کی ضرورت ہوگی ورنہ خدا کے رسول کی وفات کے چالیس سال بعد جو کہ صحابہ و تابعین کا دور تھا، خلافت کو اس طرح لٹتے دیکھا گیا تو آج کے مسلمانوں پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ خلیفہ برسراقتدار آتے ہی خلافت کو ملوکیت و بادشاہت میں تبدیل نہیں کردے گا اور پھر خلافت کے قیام کی راہ میں قربانیاں دینے والے خلافت کی گدی پر بیٹھے اس بادشاہ کی موت کا انتظار کریں گے اور وہ مرنے سے قبل اپنے صاحبزادے کو گدی نہیں سونپ چکا ہو گا۔
کیوں ہم اتنی کھوکھلی جدوجہد میں اپنی توانائیاں صرف کریں؟ کیوں نہ ہم پرامن طریقے سے جدوجہد کرتے رہیں اور عوام میں اصلاح و تربیت کا کام کرتے رہیں؟ عوام کی خوشی کے بغیر آج بادشاہتیں محفوظ نہیں ہیں جبکہ ان کے لیے عوام کا سرقلم کردینا ایک معمولی سے بات ہے، خلافت عوام پر زبردستی کیسے قائم کی جاسکتی ہے؟ ویسے بھی عقائد کو زبردستی تھوپا نہیں جاسکتا اور دل سے نہ مانے جانے والے قوانین کی اطاعت دیرپا نہیں ہوسکتی۔ تاریخ نے بار بار دیکھا ہے کہ عوام کی ذہن سازی کے بغیر جب جب اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سب سے زیادہ مخالفت خود مسلم عوام کی جانب سے ہوئی ہے اور انہیں مخالفت میں کھڑی ہونے والی فوج کی صف اوّل میں دیکھا گیا ہے۔ مولانا مودودی اپنی کتاب تجدیدو احیائے دین میں لکھتے ہیں؛ "سید صاحب اور شاہ شہید نے جس علاقے میں جاکر جہاد کیا اور جہاں اسلامی حکومت قائم کی اس علاقے کو پہلے اچھی طرح تیار نہیں کیا تھا، ان کا لشکر تو یقیناً بہترین اخلاقی و روحانی تربیت پائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا، مگر یہ لوگ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے جمع ہوئے تھے اور شمال مغربی ہندوستان میں ان کی حیثیت مہاجرین کی سی تھی۔ اس علاقہ میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود اس علاقہ ہی کی آبادی میں پہلے اخلاقی و ذہنی انقلاب برپا کردیا جاتا، تاکہ مقامی لوگ اسلامی نظام حکومت کو سمجھنے اور اس کے انصار بننے کے قابل ہوجاتے۔ دونوں لیڈر غالبا اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ سرحد کے لوگ چونکہ مسلمان ہیں اور غیرمسلم اقتدار کے ستائے ہوئے بھی ہیں اس لیے اسلامی حکومت کا خیرمقدم کریں گے۔ لیکن بالآخر تجربے سے ثابت ہوگیا کہ نام کے مسلمانوں کو اصلی مسلمان سمجھنا اور ان سے وہ توقعات رکھنا جو اصلی مسلمانوں ہی سے پوری ہوسکتی ہیں ، محض ایک دھوکا تھا۔ وہ خلافت کو بوجھ سہارے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب ان پر یہ بوجھ رکھا گیا تو وہ خود بھی گرے اور اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے۔ تاریخ کا یہ سبق بھی ایسا ہے جسے ہر تجدیدی تحریک میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئیے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت، اخلاق اور تمدن میں گہری جمی ہوئی نہ ہوں وہ نقش برآب کی طرح ہوتا ہے۔ کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقع ہو بھی جائے تو قائم نہیں رہ سکتا اور جب مٹتا ہے تو اس طرح مٹتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ ” (تجدید و احیائے دین، صفحہ نمبر ۱۲۲-۱۲۳)

آئیے جمہوریت کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ اسلام کی اشاعت اور عوام کی ذہن سازی کی کوشش کریں اور عوام کو اسلام کی طرف رغبت دلائیں۔ بلاشبہ حکومت یا تو عوام سے ہے یا حکمراں سے اور حکومتوں کی کامیابی یا ناکامی حکومت میں رہنے والوں اور حکومت چلانے والوں کے دم سے ہے، نہ کہ نعروں کے راگ اور جھنڈوں کے رنگ سے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔