بھاجپا کی اتر پردیش کو گجرات بنانے کی کوشش

عبدالعزیز
الہ آباد میں بھاجپا کی مجلس عاملہ کی میٹنگ کا مطلب ہی تھا کہ 2017ء میں اتر پردیش اور دیگر پانچ ریاستوں میں ہونے والے الیکشن کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ دیگر ریاستوں کو چھوڑ کر بھاجپا کے صدر امیت شاہ نے اتر پردیش میں فرقہ پرستی بڑھانے کی بات شروع کی۔ انھوں نے کہاکہ کیرانا جو اتر پردیش کے شمالی ضلع کا ایک بڑا قصبہ ہے اور مظفر نگر سے قریب ہے مظفر نگر کے بہت سے لوگ کیرانا میں جاکر بس گئے ہیں جس کی وجہ سے کیرانا کشمیر ہوگیا ہے۔ وہاں سے 25 ہندو خاندان ڈر اور خوف سے نکل کر دوسری جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
شمالی ضلع کے ایس پی وجئے بھوشن نے کہا ہے کہ کیرانا سے ہندو خاندان کے اخراج کی بات سراسر غلط ہے۔ وہاں سے جو لوگ بھی کہیں گئے ہیں وہ کام کاج کی تلاش میں گئے ہیں۔ انگریزی روزنامہ’’ہندستان ٹائمز‘‘ نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھاجپا کو اتحاد اور میل ملاپ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے، صرف انسانوں کو بانٹنے اور الگ الگ کرنے کی سیاست سے دلچسپی ہے۔ کیرانا کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ موسیقی کے گھرانے کیلئے مشہور ہے۔ متھرا کی بات بھی زیر بحث آئی۔ وہاں کے واقعہ کو بھی اچھالا گیا۔ وہاں کرشن رام کے کھیلنے کا میدان مانا جاتا ہے مگر نہ موسیقی کی بات ہوئی اور نہ کرشن رام کے پلے گراؤنڈ کا ذکر آیا۔ بھاجپاکیلئے تو انسانیت کی بات ایک مشکل چیز ہے۔ جب اس کے ترجمان شنکر رام پرساد سے پوچھا گیا کہ رام مندر کا چرچا ہوگا کہ نہیں تو انھوں نے کہاکہ ان کے منشور میں رام مندر کا مسئلہ ضرور رہے گا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رام مندر بھی بھاجپا کے ایجنڈے سے باہر نہیں ہوا ہے۔
کانگریس اور دیگر پارٹیاں جو سیکولرزم پر اعتقاد رکھتی ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف متحد ہوجائیں۔اتر پردیش میں ہندو اور مسلمانوں کے اندر اب بھی میل ملاپ پایا جاتا ہے۔ ملائم سنگھ کی پارٹی سماج وادی پارٹی چاہتی ہے کہ بھاجپا فرقہ پرستی کی آگ لگائے تو اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ وہ مسلمانوں کے خوف و ہراس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ مسلمانوں کو ایک طرف سماج وادی پارٹی کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے اور دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کیلئے کوشش کرنا ہے۔ مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فساد سے بھاجپا اور سماج وادی فونوں کو فائدہ ہوا۔ سماج وادی کی پارٹی کی حکومت کے چار سال میں لگ بھگ 250 چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ سماج وادی پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ فسادات کو رونما ہونے سے نہ روکیں اور بی جے پی کو اپنا کام کرنے دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو سیکولر پارٹیوں سے کہیں زیادہ بی جے پی سے قریب ہیں۔ بہا رکے الیکشن کے موقع پر ان کی دلی تمنا تھی کہ بی جے پی کی جیت ہو اور لالو پرساد اور نتیش کمار کے سیاسی اتحاد کو ہار کا سامنا کرنا پڑے۔ اس طرح وہ بہار میں بھی بی جے پی کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے مگر ان کی تمنا پوری نہیں ہوئی۔ اتر پردیش میں وہ چاہیں گے کہ وہ اقتدار میں دوبارہ آئیں یا نہ آئیں مگر مایا وتی یا دیگر پارٹیاں نہ آئیں۔ بھلے سے بی جے پی آجائے یہ ان کی پالیسی ہوگی۔ کانگریس کی پالیسی یقیناًیہ ہوگی کہ بہار کی طرح سیاسی اتحاد ہو۔ یہی پالیسی بالکل صحیح ہوگی ۔
اس وقت جو صورت حال ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ کانگریس اتحاد کیلئے ہر ممکن کوشش کرے، اسے اگر بھاجپا کوشکست دینا ہے تو مایا وتی سے قربت ضروری ہے۔ مایا وتی کا انداز ابھی تک کانگریس سے قربت کا دکھائی دیتا ہے کیونکہ مایا وتی نے راجیہ سبھا کے الیکشن میں کانگریس کی مدد کی ہے جس کی وجہ سے کپیل سیبل اوردیگر لوگ اتر پردیش اور اتر اکھنڈ میں راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے ہیں۔ اگر اسی تال میل کو الیکشن تک باقی رکھا گیا تو فرقہ پرستی کا مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے، جس طرح بہار میں کیا گیا۔ بھاجپا کو اتر پردیش کو گجرات بنانے سے بھی روکا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔