بچوں کی تربیت کا مسئلہ- نزاکتیں اور ذمہ داریاں (1)

تحریر: ڈاکٹر بشریٰ تسنیم                    ترتیب:عبدالعزیز
بچوں کی تربیت ایک ایسا گمبھیر مسئلہ ہے جو ہر دور کے والدین کیلئے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ خصوصاً آج کے دور میں مسلمان والدین کیلئے بچوں کو اسلامی خطوط پر تربیت دینا ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے والدین کا خود تربیت یافتہ ہونا، خصوصاً ’’ماں‘‘ کیلئے ایک ’’عظیم ماں‘‘ ہونا لازمی امر ہے، کیونکہ عظیم مائیں ہی عظیم بچوں کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کو اور بالخصوص ماں کو جو اعزاز بخشا ہے وہ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن عطا نہیں کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو باپ سے تین گنا زیادہ اطاعت کا حق دار گردانا اور جنت ماں کے قدموں میں رکھ دی۔
اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ پروردگار خود خالق کائنات ہے۔ صفت تخلیق عورت کو عطا کرکے اس نے عورت کو عظمت کی بلندی تک پہنچا دیا۔ بچے سے محبت کا کچھ ایسا انداز خالق کائنات نے عطا کیا ہے کہ اتنی تکلیف اٹھاکر ماں بچے کو جنم دیتی ہے، مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ، تکالیف بھول جاتی ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اور ہر چھوٹا بچہ اس کیلئے کشش رکھتا ہے، مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناتے فطری جذبہ تک محدود رہتی ہے۔ ہنستے، کھیلتے، صاف ستھرے، صحت مند بچے ہی متاثر کرتے ہیں۔ گندے، بیمار، ضدی، گندگی میں لتھڑے ہوئے بچے دیکھ کر گھن آتی ہے، مگر یہی نو عمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کرلیتی ہے تو اس کے جذبات اور مامتا کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا محور بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دہ تجربے اور جن مشکل مرحلوں سے پرورش کے دوران وہ گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی صرف اسی ذات باری تعالیٰ کو ہے جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا اور انھیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی ماں کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان ماں کی سوچ، کردار، خیالات اور اعمال ایک مسلمان ماں جیسے ہوں گے تو یقیناًوہ دنیا و آخرت میں سرخروئی کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوگی۔
جس طرح کسی فیکٹری میں کام کا ہر شعبہ علاحدہ ہوتا ہے، اسی طرح اس نظام کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح کا ایک شعبہ مقرر کر رکھا ہے۔ عورت اس نظام کے انتہائی حساس اور ذمہ دار شعبہ، شعبۂ تخلیق سے وابستہ ہے۔ جس طرح اعلیٰ منصب اور ذمہ داری کے اہم شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر کارکن فیکٹری میں مالک کے نزدیک خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری کے لحاظ سے اس کا مقام و مرتبہ اور دیگر مراعات ہوتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی شعبہ تخلیق کی کارکن یعنی عورت کو عہدے کے لحاظ سے خصوصی اہمیت دی ہے۔ اگر وہ حقیقی مسلمان ماں بن کر اپنی ذمہ داری پورے شعور کے ساتھ ادا کرتی ہے تو جنت اس کے قدموں میں ہے۔
والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے، جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کیلئے والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔والدین اور اولاد کا تعلق کبھی نہ ٹوٹنے والا اور ختم نہ ہونے والا تعلق ہے۔ یہ دنیا و آخرت دونوں میں ایک دوسرے کیلئے باعث فخر و انبساط بھی ہوسکتا ہے اور باعث رنج و ندامت بھی۔۔۔۔
امت مسلمہ جن مشکلات بھرے دور سے گزر رہی ہے اس میں ضرورت اس بات ہے کی ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ گزشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرنے کیلئے عزم نو کے ساتھ نئی نسل کی آبیاری کریں۔ اس پر ویران کھیتی کو زر خیز اور باثمر بنانے کیلئے جذبۂ ایمانی اور مکمل فہم و شعور کے رحمت بھرے بادلوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ میں کبھی زرخیزی کا عنصر کم نہیں کیا۔ محض توجہ الی اللہ کی ضرورت ہے، انفرادی اور اجتماعی طور پر۔۔۔۔
اگر امت مسلمہ کے ہر گھر سے ایک بچہ بھی اسلام کے انسان مطلوب کی صورت میں نصیب ہوجائے تو آئندہ ایک دو عشروں میں ہی دنیا میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہوسکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کیلئے ایک ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ باطل نے مسلمان کو مسلمان نہ رہنے دینے کی ایک طویل المدت منصوبہ بندی سے کام لے کر آج ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ اپنے افکار و اعمال کو بدلا جائے۔ طویل المیعاد منصوبہ اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ وہ خوش نصیب جوڑے جو خود کو باشعور مسلمان گردانتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو زیادہ سنجیدگی سے نبھانے کا عہد کریں اور نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے قوم کی تعمیر نو میں اپنا حصہ لگائیں اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دلائیں۔
رشتہ ازدواج کیلئے نیک نیتی سے ایسے ساتھی کا انتخاب کرنا چاہئے جو عقل و فہم کے ساتھ ساتھ دل و نگاہ کے لحاظ بھی مسلمان ہو۔ اگر ایک ساتھی دینی فہم و شعورکے لحاظ سے کم ہے تو اس کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کیلئے وقف ہوجاتے ہیں۔ گھر ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جہاں ہر دو کو اپنی اپنی ذمہ داریاں باہم مل کر ادا کرنی ہوتی ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریا زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی۔ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔
پہلا مرحلہ؛ نکاح، زوجین کا باہمی تعلق: اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم رشتے میں جوڑ دیتا ہے، جس میں محبت بھی ہے اور مودت بھی۔ شعور و فہم اور جاننے کا ذوق ، ہر کام کا حسن ہوتا ہے۔ نکاح کا حسن یہ ہے کہ اس رشتے کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہے اور اس حسن کے پائیداری یہ ہے کہ اس رشتے کے تمام حقوق و فرائض کی صحیح صحیح ادائیگی ہو۔
حقو ق و فرائض کی ادائیگی میں نیک نیتی کار فرما ہو۔ بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتی ہے، بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ مرد کی طرف سے حق مہر کی ادائیگی نہ کرنا، اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہئے اور اس کیلئے والدین کو چاہئے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔
شادی پہ بے جا اخراجات کرنا اور مطالبات اٹھانا خلاف سنت ہے۔ سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات کم ہوں اور حقوق کی ادائیگی بروقت ہو۔ حقوق کی ادائیگی میں کسی رقم یا اشیاء کی اہمیت نہیں ہوتی۔ حکم الٰہی کی اطاعت، سکون اور روشنی عطا کرتی ہے۔ باہم عزت نفس کی پاسداری دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔
زوجین کا باہمی تعلق: میاں بیوی کا باہم تعلق ’’ایک دوسرے کیلئے لباس ‘‘ کا ہی ہونا چاہئے۔ معنوی طور پر بھی، باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔ نبی اکرمؐ نے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کا طریقہ بتایا ہے اس کو مد نظر رکھا جائے۔ ہر کام میں جس قسم کی نیت کارفرما ہوتی ہے، وہی اچھے یا برے انجام کا سبب بنتی ہے۔
زوجین کو باہم محبت بڑھانے کیلئے ، اس کو قائم و استوار رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہئے، جس سے میاں بیوی کے دل دور ہونے کا خدشہ ہو۔ میاں بیوی کی محبت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان رنجش، جدائی، بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کیلئے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کو نظر رحمت سے دیکھتے ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ زوجین کو اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم نہ ہونا چاہئے اور شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں سے محفوظ رہنے کیلئے چوکنا رہنا چاہئے۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں بغض ڈال دے اور ان کو برائی کی طرف لے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیہم السلام کی زبان سے جو دعائیں ہم تک پہنچائی ہیں، ان کو ہر نماز کے بعد خلوصِ دل سے مانگنا چاہئے:
رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً؛ اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ o ’’پروردگار؛ اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔
’’ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً‘‘ طیب میں صالح ، نیک اطوار، صحت مند، غرض ہر خوبی آجاتی ہے۔ یہ اسی صورت میں نصیب ہوسکتی ہے جب زوجین کے اپنے جذبات، احساسات اور نیت بھی طیب ہوگی۔ مسنون دعاؤں میں زوجین کی باہم ملاقات کے وقت کی دعا اس بات کی اہمی کو اجاگر کرتی ہے۔
نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والد اور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہوگا ویسا ہی پھل نصیب ہوگا۔ جس طرح ایک جاہل، نالائق، ذمہ داریوں سے لاپروا، فرائض سے غافل اور کاہل باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کما حقہٗ رزق حاصل نہیں کرسکتا، اسی طرح اسلا می شعور اور ذوق آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتے۔ نکاح کا مقصد مسلمان کے نزدیک محض اولاد کا حصول نہیں بلکہ نیک او ر صا لح اولاد کا حصول ہے۔ جو مومن کیلئے دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث بنے۔
دوسرا مرحلہ؛ پیدائش سے پہلے اور بعد میں:
عورت کیلئے بچے کی پیدائش سے پہلے کا زمانہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کیلئے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کیلئے باعث سعادت اور معاشرے کیلئے باعث رحمت ہوگا۔ ہر آنے والا بچہ دنیا میں اپنے حصے کا رزق اور مقدر لے کر آتا ہے۔ بچوں کی پیدائش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا، چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو، نرم سے نرم الفاظ میں بھی اللہ سے بغاوت ہے۔ بچے کا تعلق ابتدائی دنوں سے ہی ماں کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (Cell) محض ایک جرثومہ نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کا ایک کھلا کرشمہ ہے۔ ایک معمولی خلیے کا چھ سے دس پونڈ کے انسان میں تبدیل ہوجانا بلا شبہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔
تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کیلئے اسے منتخب کیا ہے۔ حاملہ خاتون کو حسن نیت، اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس ڈیوٹی کو انجام دینا چاہئے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہئے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے۔ اس شفیق ذات نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک حاملہ عورت کی نماز عام عورت کی نماز سے افضل ہے۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کی لو اپنے رب سے لگی ہوئی ہے تو سارے زمانہ حمل میں اس کو رات اور دن میں بے پناہ ثواب ملتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔