لوٹ کر پھر وہ اسیرانِ قفس بھی آئے
شاہدؔکمال
لوٹ کر پھر وہ اسیرانِ قفس بھی آئے
پھول شاخوں پہ چلو اب کے برس بھی آئے
…
سبز جھیلوں میں اُترنے لگے خوابوں کے پرند
شاخِ مژگاں پہ تری نیند کا رَس بھی آئے
…
بے صدا دشت میں بیٹھے ہیں کس اُمید پہ لوگ
پھر کسی سمت سے آوازِ جرس بھی آئے
…
اب وہ پہلا سا کہاں جذبۂ نصرت ہے مگر
ہمرکاب اپنے یہاں تازہ فرس بھی آئے
…
منتظر کب سے ہے یہ رنگِ تماشائے جہاں
اپنے پیروں میں تو زنجیرِ ہَوس بھی آئے
…
دیکھنا ہم بھی گِرا کر ہی اُسے دم لیں گے
درمیاں اپنے جو دیوارِ نفس بھی آئے
…
یارِ خوش طبع مِرے، پھر ترے افسوس سے کیا
خود پہ شاہدؔ کو مری جان ترس بھی آئے
تبصرے بند ہیں۔