قرآن مجید کا فلسفئہ نعمت

قمرفلاحی

قرآن مجید میں نعمت بمعنی احسان استعمال ہوا ہے جو کسی مزدوری اور لگانی کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ بطور احسان کے عطا ہوتاہے۔ یوں تو وہ ساری چیزیں جو اللہ سبحانہ تعالی نے عطا کی ہیں سب انعام ہیں مگر اس میں مال کو نعمت سے الگ رکھا گیا ہے کیوں کہ مال انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے مزدوری سے کماتاہے۔ فی نفسہ اس کیلئے اسے محنت کرنی پڑتی ہے۔ لہذا نعمت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ بغیر محنت کے حاصل ہوی ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں جن چیزوں کا بھی ذکر بطور نعمت کے کیا گیا ہے اس میں محنت نہ کرنا، اور بغیر محنت کے حاصل ہونے کا مفہوم  شامل ہے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ [المائدة: ٣]

یہاں نعمت سے مراد دین اسلام ہے جو بغیر محنت کے ملا ہے۔

نعمت کے بالمقابل فضل، اور اجر بھی قرآن مجید میں مستعمل ہے اور سب کے الگ الگ معنی و مفہوم ہیں۔ لہذا فضل اور اجر کو انعام سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ کیوںکہ جن لوگوں پہ اللہ تعالی کا انعام ہوا ہے وہ بہت کم ہیں مثلا نبیین، صدیقین، شہداء، صالحین۔ اور اگر انعام کو عام سمجھا جائیگا تو پھر یہ تخصیص بے معنی ہے کہ فلاں فلاں پہ اللہ تعالی کا انعام ہوا۔

درجہ ذیل چیزوں کو اللہ سبحانہ تعالی نے نعمت میں شمار کیا ہے :

من و سلوی کو نعمت کہا گیا ہے۔ یہ آسمان سے نازل ہوا اس پہ انسانوں نے محنت نہیں کی۔ البقرة: ٢١١

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [٢١١]

دشمنوں سے بچانا انعام ہے۔ المائدة: ١١

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [١١]

کس قوم میں نبی کا انتخاب کرنا۔ المائدة: ٢٠

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ (٢٠)

دشمن کی ایذاء سے بچانا جیسا کہ قوم موسی کو فرعون سے بچایا۔ إبراهيم: ٦

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (٦)

سمندر کو مسخر کرنا، زمین کو میخوں سے گاڑے رکھنا، ندیاں، تاروں کی علامتیں، یہ سب نعمتیں ہیں۔ النحل: ١٤ – ١٨

وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (١٤) وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (١٥) وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ (١٦) أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (١٧) وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (١٨)﴾ [النحل: ١٤-١٨]

فرعون کا موسی علیہ السلام کی پرورش کرنا، جس کیلئے موسی علیہ السلام نے کوئ محنت نہیں کی۔ الشعراء: ٢٢

فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ (٢١) وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ (٢٢)﴾ [الشعراء: ١٠-٢٢]

آسمانی ہوا فرشتوں  کے ذریعہ دشمن کو شکست دینا۔ الأحزاب: ٩

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (٩)

انسان کو ھدایت ملنا جس کی وجہ سے وہ جہنم سے بچ سکے گا۔ الصافات: ٥٧

وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (٥٧)

انسان کو مصیبت سے خلاصی ملنا۔ الزمر: ٨

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ (٨)

مضرت کے بعد صحتیابی کا ملنا، خولنہ نعمۃ منا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں منا قابل غور ہے کہ نعمت بغیر محنت کے حاصل ہوا کرتی ہے۔ اور یہاں ایک نکتہ کی بات ہے کہ ہر نعمت ایک فتنہ ہے۔ یہ فتنہ اس وقت ہوتی ہے جب انسان نعمتوں کو اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھنے لگ جاتاہے۔ الزمر: ٤٩

فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (٤٩)

جوڑے کی شکل میں مخلوق کو پیدا کرنا، کشتیوں کو پانی پہ چلانا، جانوروں کو سواری کے لائق بنانا، یہ سب نعمتیں ہیں یہ اس لئے ہیں کہ اللہ کا ذکر کیا جائے۔ الزخرف: ١٢ – ١٣

وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ (١٢) لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (١٣)

عذاب س بچا لیا جانا۔ القمر: ٣٣ – ٣٥

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ (٣٣) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ ۖ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ (٣٤) نِّعْمَةً مِّنْ عِندِنَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي مَن شَكَرَ (٣٥)

یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ القلم: ٤٨ – ٤٩

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ﴾ [القلم: ٤٨]

لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ (٤٩)

نعمت بمعنی احسان جو کسی محنت کے بغیر حاصل ہو۔ یہ معنی یہاں بالکل عیاں ہوگیا کہ وہ شخص جو کسی آدمی کو اس لئے مال نہ دے رہا ہو کہ اس کے ذمہ کوئ قرض تھا جسے وہ اتار رہا ہے۔ بلکہ اپنی تزکیہ کے لئے مال خرچ کر رہا ہو۔ الليل: ١٩ – ٢٠

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (١٧) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ (١٨) وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ (١٩) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ (٢٠) وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ (٢١)﴾ [الليل: ١٢-٢١]

یہ جماعتیں جن پہ اللہ تعالی کا انعام ہوا یعنی وہ جنت کے حقدار بنے تو محض اس وجہ سے کہ انہیں ہدایت ملی۔ یہاں انعام سے مراد جنت اور ہدایت ہے جو بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے۔ النساء: ٦٩

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا (٦٩) ذَٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ عَلِيمًا (٧٠)﴾ [النساء: ٦٦-٧٠]

مصیبت سے بچ رہنا۔ النساء: ٧٢

وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا (٧٢)

اللہ تعالی پہ مکمل ایمان ہونا، اس کی نصرت پہ یقین ہونا۔ جیساکہ قوم موسی میں دو لوگوں کو تھا۔ المائدة: ٢٣

قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٣)

زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایمان کی دولت ملنا، نبی ص کی صحبت اور خدمت کا موقعہ ملنا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زید کیلئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتخاب یہ سب انعام تھا۔ الأحزاب: ٣٧

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا﴾ [الأحزاب: ٣٧]

تبصرے بند ہیں۔