خود کو جو پارسا سمجھتے ہیں

مجاہد ہادؔی ایلولوی

خود کو جو پارسا سمجھتے ہیں
وہ سبھی کو برا سمجھتے ہیں

لوگ جاں دینے کو محبت میں
عشق کی انتہا سمجھتے ہیں

بن سنور کر نکلتے ہیں جب لوگ
کیا پتہ خود کو کیا سمجھتے ہیں

کتنے بھولے ہیں لوگ بھارت میں
چور کو رہنما سمجھتے ہیں

کیوں وہی بے وفا نکلتا ہے
جس کو ہم با وفا سمجھتے ہیں

اب حکومت ہے ان کے ہاتھوں میں
جھوٹ کو جو ادا سمجھتے ہیں

جوہری تو نہیں مگر پھر بھی
کیا ہے کھوٹا کھرا سمجھتے ہیں

آپ کی سانسوں میں بسے ہیں ہم
آپ کی ہر ادا سمجھتے ہیں

ان کو عہدہ ہے مل گیا جب سے
تب سے خود کو خدا سمجھتے ہیں

آپ سے بار بار ملنے کو
دردِ دل کی دوا سمجھتے ہیں

صرف میک اپ کا یہ کمال ہے بس
اس کو سب اپسرا سمجھتے ہیں

چاند سورج بھی خود ہے اک مخلوق
ان کو ناداں خدا سمجھتے ہیں

بھوکا سوئے ہمارا ہم سایہ
اس کو بھی ہم خطا سمجھتے ہیں

مال داری ہو یا کہ فاقہ کشی
اس کو رب کی عطا سمجھتے ہیں

ہم نہیں ڈرتے موت سے ہادؔی
اس میں اپنی بقا سمجھتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔