موسمی تبدیلی کا ذمہ دار خود انسان ہے
خواجہ یوسف جمیل
(پونچھ، جموں)
لندن کی انوارنمنٹل جسٹس فاونڈیشن کے مطابق ”دنیا میں 26 ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اورسال 2050 تک 500 سے 600 ملین لوگ مزید ہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ دیگر خطرات سے بھی دوچار ہونگے“۔جس سرعت سے موسم میں لگاتار تغیر دیکھنے کو ملتا ہے اس سے صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم ایک ایسی منزل کی جانب گامزن ہیں جو مستقبل قریب میں ہی ہمیں کسی طوفان سے روبرو کروائے گی۔یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے تجربات اور زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں سے لگاتار موسم میں تبدیلی آرہی ہے۔جو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر ہم انسان وقت پر ہوشیار نہیں ہوئے اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس کے بہتر نتائج نہیں ہو نگے اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
سال 2021 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام پر کانفرنس کا احتمام کیا گیا۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوئتریز نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا”انسان خوداپنی قبریں کھود رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے پینل نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ قابو سے باہر ہو رہی ہے اور اس کا ذمہ دار خود انسان ہے۔اس بات میں کوئی دورا’ے نہیں کہ انسان خود قدرتی وسائل کا غلط استعمال کررہا ہے، صاف و شفاف ہوا کو آلودہ کررہا ہے اور صفاف پانی کو بھی غلیظ کررہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ماحول آلودہ ہورہا ہے۔ جب انسان کوئلہ،تیل یا قدرتی گیس کا استعمال کرتا ہے تو کاربن ڈائی اکسائڈ گیس پیدا ہوتی ہے۔یہ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے رہ جاتی ہے تو فضائی ماحول کو آلودہ کرتی ہے۔
عالمی حرارت سے جہاں پوری دنیا میں موسمی تبدیلی واقع ہورہی ہے وہیں اس کا اثر ہندوستان میں بھی دیکھنے کوملتا ہے۔ اگرچہ ایک طرف ترقی کی دوڈ میں نت نئے تحربات کئے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو بگاڑنے میں بھی انسان کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔اگرچہ صرف جموں کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں آب پاشی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے بلکہ چند سال قبل تک کسانوں کی ضرورت کے مطابق یہاں بارش ہوتی تھی اور کسان اپنی فصلیں اگا کر اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا یہاں کے ماحولیاتی نظام میں بھی کافی حد تک تغیر دیکھنے کو مل رہا ہے اور کسانوں کی زندگیوں پر اسکا خصوصی طور پر اثر پڑ رہا ہے۔ضلع پونچھ جو جموں کشمیر کا سرحدی ضلع ہے۔ یہاں بھی چند سالوں سے لگاتار موسم میں تبدیلی آرہی ہے۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے ایک مقامی بزرگ محمد بشیر عمر 65سال کا کہنا ہے کہ آج سے بیس سال قبل ہمارے یہاں شدت کی برف باری ہوتی تھی اور سیزن میں تقریباََ چار سے پانچ بار برف ہوتی تھی اور ہماری فصلوں کو بھی پانی ملتا رہتا تھا۔پونچھ چونکہ پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ پہاڑوں پر رہ کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور زمین کو سینچائی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت پر بارشیں نہیں ہورہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی فصلیں تباہ و برباد ہورہی ہیں“۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں موسم نے حقیقت میں کروٹ بدلی ہے۔ جس سے عام کسانوں کے ساتھ ساتھ مالدار لوگوں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ہم نے کھبی اس بات پر غور و فکر کرنے کی کوشش کی نہیں کی کہ آخرکار موسم میں اچانک سے اتنی تبدیلی کیسے واقع ہوئی؟ سچائی تو یہ ہے کہ جہاں انسان کی سہولت کے لئے سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں وہیں جنگلات کا بے رحمی سے کٹاو کیا جاتا ہے۔ کارخانوں میں سے خارج ہونے والی گیس فضاء میں جاکر ہوا کو گندہ کرتی ہے جو انسانی جانوں کے لئے باعث عذاب بنتی ہے۔جہاں دنیا دیگر خطرات سے جھوج رہی ہے وہیں موسمی تبدیلی ایک بڑے خطرے کے طور پر دنیا کے سامنے ہے۔ گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپروٹ کے مطابق ”موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خوشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہوسکتے ہیں“۔یہ رپوڑت محض کاغذ کا پلندہ نہیں ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی جانی چاہئے بلکہ اسے زمین کے مستقبل کا بلیوپڑنٹ کہا جا سکتا ہے۔ جس پر پوری دنیا کی حکومتوں کو اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے زمین کو بہتر بنانے کے لئے کسی ایک معاملے پر متفق ہونا پڑے گا۔کویڈ۔19کی صورتحال کے بعد اب یہ معاملہ اور بھی حساس ہو گیا ہے۔
موجودہ دنوں میں ملک کے تمام حصوں میں گرمی کی شدت سے عوام دوچار ہے اور ماہرین اس تعلق سے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال گرمی میں زیادہ شدت ہے اور بارشوں کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ جس کی وجہ سے موسمی فصلوں پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ان تمام خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ماحول کو صاف و شفاف رکھیں۔ شجرکاری زیادہ سے زیادہ کریں وہیں حکومت کو بھی چاہیے کہ عالمی سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ اس پیچیدہ معاملے کو سنجیدگی سے اٹھائے اور ملک کے اندر اس طرح کے وسائل پر پابندی لگائی جائے جو ماحول کو خراب کرتے ہیں تاکہ ہمارا ملک و سماج کسی بڑی مصیبت کی نظر نہ ہو۔(چرخہ فیچرس)
تبصرے بند ہیں۔