تقویٰ کی پہلی سیڑھی: حلال کمائی اور پرہیزگاری

شگفتہ حسن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا ہے: "کوئی جان اس وقت تک فوت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کو وہ تمام رزق نہ مل جائے جو اس کیلئے تقسیم کیا گیا ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہوا ہم سانس لیتے ہیں وہ اللہ رب العزت کے رزق کی ایک شکل ہے۔ ہمیں سب سے پہلے رزق کے معنی اور اہمیت کو اس یقین کے ساتھ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دینے والا، فراہم کرنے والا اور تعین کرنے والا ہے۔

لغت میں رزق کے دو معنی ہیں۔ (۱) "عطا” یعنی دی ہوئی چیز اور (۲) "نصیب”۔ اصطلاح میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہر عطا کردہ اس نعمت کو کہا جاتا ہیں جس سے نفع اٹھایا جاۓ خواہ دنیاوی عطا ہو یا اُخروی، یا وہ غذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر ذی حیات کو نشونما کے سامان کے طور پر ملے۔ رزق صرف کھانا، روٹی، کپڑا، مکان، مال و دولت یا روپے پیسے نہیں ہوتا۔ رزق علم بھی ہوتا ہے، رزق اچھے دوست بھی ہوتے ہیں، رزق صحت بھی ہوتی ہے، رزق والدین بھی ہوتے ہیں، رزق اولاد بھی ہوتی ہے، رزق صالح بیوی بھی ہوتی ہے، رزق اچھی تربیت بھی ہوتی ہے، رزق اچھی ملازمت بھی ہوتی ہے، رزق وقت بھی ہے ، رزق شہرت بھی ہوتی ہے، رزق قبولیت بھی ہوتی ہے، غرض رزق میں ہر وہ چیز شامل ہے جو ہمارے لیے فائدہ مند ہو اور اللہ کی بندگی اور اطاعت کیلئے ہمارے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہو۔

 آسان الفاظوں میں رزق سے مراد ہر وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو عطا ہو۔  اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر نعمت پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا: ’’ إِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ ” اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو اْنہیں شمار نہیں کرسکتے۔ اللہ ہی ہے جو ہمارے رزق کا تعین کرتا ہے۔  درحقیقت اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ’’رزاق‘‘ یا ’’عطا کرنے والا‘‘ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہر ایک مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے،  چاہے وہ مومن ہوں یا غیر مومن، اور اس کی تمام مخلوقات بشمول حیوانات اور نباتات جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے: :” إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ

” اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔” گویا رزق اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی انمول نعمت ہے جس کے تقسیم کی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، یعنی رزق کا وعدہ ربّ العالمین کی ذات نے کر رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی نے سورۃ ھود میں ارشاد فرمایا ہے : ” وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ”  اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔

 اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو کثرت سے رزق دیتا ہے اور کچھ لوگوں کا رزق محدود کر دیتا ہے۔ ایک منظم قاعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کی روزی بروقت یقینی بناتا ہے۔ چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والی مخلوق ہو یا فضا میں اڑنے والے پرندے اور  سمندر کی پردہ پوشی میں رہنے والے جاندار بھی اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اور اللہ ان لوگوں کو بھی نہیں بھولتا جو پہاڑ کی چوٹیوں پر بستے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔ نتیجتاً، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تقدیر کے مطابق وہی دیتا ہے جو ہمیں نصیب ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

"إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد” ترجمہ

تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔

(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)

اس حدیث کو سمجھنے سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں،  جس کے پاس کشادہ رزق ہوتا ہے ہمیں اُس سے کوئی حسد نہیں ہوتا، نہ دشمنی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ، نہ اپنے آپکو حد سے زیادہ مشکلات میں مبتلا کرنا پڑتا ہے اور نہ رزق کی تلاش کرنے کیلئے غلط راستوں کا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، بعض افراد، توکل، یقین اور اعتماد کی کمی کی وجہ سے، وقت سے پہلے بہت زیادہ کے لالچ کا شکار بن جاتے ہیں اور بعض اوقات غیر قانونی اور ممنوع طریقوں کو استعمال کر کے اپنی حلال روزی کی فراہمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جب ہم شریعت کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام کو توڑتے ہیں تو رزق کی نعمتیں ڈوبنے لگتی ہیں اور امیر آدمی بھی بھکاری بن جاتا ہے۔ رزق حلال کا اہتمام کرنا تقویٰ، پرہیزگاری اور تزکیہ نفس کی بنیاد ہے۔ دینِ اسلام میں حلال طریقے سے رزق کمانے کو فرض کا درجہ دیا گیا ہے۔ اور جس طرح سورۃ المؤمنوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حلال رزق کے اہتمام کا حکم دیا اسی طرح سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے  عام انسانوں کو بھی حلال و طیب رزق کو اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ گویا اسلام ہمیں حلال و جائز طریقے سے روزی کمانے کا حکم دیتا ہے، بلکہ رزق حلال کو  ایمان کا جزو بتایا ہے۔ اور حرام و ناجائز طریقے سے روٹی اور مال کمانے سے بچنے کا درس دیتا ہے۔ تاکہ انسان کمائی کی لالچ میں حلال و حرام کی تمیز نہ کھو بیٹھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

  انسان کو حلال و حرام میں تمیز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ حلال و حرام کے احکام قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث سے یہ حکم واضح ہے کہ حرام کھانے  پینے  والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ لوگو ں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے ،کھایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری)  آج کا  انسان رزق کی تلاش میں ایسا مگن ہے کہ موت اور آخِرت کی فکر سے غافل ہے، مال کمانے کی دُھن بھی ایسی سوار ہے کہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر بس مال جمع کرنے میں مشغول رہتا ہے اور اپنے رازِق (یعنی رِزق دینے والے) کو گویا بھول چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی محنت و کوشش کے باوجود مَعاشی بدحالی سب کے سامنے ہے کہ آج تقریبا ً ہر کوئی رزق کی کمی، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، بیماری اور ”پوری نہیں پڑتی“  کا رونا رو رہا ہے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ” اللہ سے ڈرو اے لوگو! تلاش رزق میں راست پر رہو، جو حلال طریقے سے ملے اسے تم لے لو اور جو حرام طریقہ سے ملے اسے چھوڑ دو۔‘‘ رزق حلال کمانے والوں کیلئے اللہ پاک اپنی رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے ، خیر و برکت کے امور صادر ہوتے ہیں، بھلائیاں پھیلتی ہیں، وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتا ہے، اُس کا دِل نور سے معمور ہوتا ہے، وہ دنیا میں بھی باعزت رہتا ہے اور آخرت میں بھی بلند درجات سے نوازا جائے گا۔ اور رزق حرام کمانے والوں کیلئے اللّٰہ پاک اپنی رحمت کے خزانے ہمیشہ کیلئے بند کر دیتا ہے، اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی، اُس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا، اُس کے رزق میں برکت نہیں ہوتی، اور یہ اُس انسان کیلئے گناہ اور دوزخ کا سبب بنتا ہے۔ اللہ پاک کو چھوڑ کر مال ودولت کے حصول کا غلام بن جانا سب سے بڑی بدقسمتی ہے اور یہی سب سے بڑی ذلت اور بے برکتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم رازق کو بھول جاتے ہیں اور روزی رزق کے پیچھے لگ جاتے ہیں اگر ہم روزی کو چھوڑ کر رازق کے پیچھے لگ جائیں تو روزی خود بخود آپ کے پیچھے ہوگی۔ یقیناً اللہ ہی ہے جو بہت رزق دینے والا، صاحبِ قوّت اور مضبوط صفات والا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے ہر مشکل سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعہ کئی پھل نکالے جو ہمارے لئے رزق کے طور پر ہیں۔

 دینِ اسلام میں جہاں رزق حلال کمانے کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، وہاں حصولِ رزق کیلئے محنت اور کوشش کی اہمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ حلال روزی کیلئے کوشش اور محنت کا درجہ بھی فرض کا درجہ ہے۔  رزق کیلئے کوشش اور محنت بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہر کام کیلئے حرکت، کوشش، محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کھانا وہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔ محنت اس کائنات کا ایک ایسا حصول ہے جس کے عمل کی بنیاد پر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں قیمتی ثمرات وفوائد میسر ہوتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے واضع الفاظ میں فرمایا: ” انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کیلئے وہ محنت کرے گا”۔(النجم)  یہ دنیا محنت کرنے کی جگہ ہے، محنت سے کما کر اپنا اور اپنے  اہل و عیال کا پیٹ پالنا فرض ہے اور محنت سے روزی کما کر اپنے آپکو اور اپنے اہل و عیال کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا بھی عبادت ہے۔ پرندوں کو بھی حصولِ رزق کیلئے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔ محنت کی کمائی کو سب سے افضل کمائی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ رزق حلال حاصل کرنے کا سب سے اعلیٰ اور بلند ذریعہ ہے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی ہے۔ حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جس نے  اپنی محنت کی کمائی سے کھایا۔‘‘ (بخاری ) اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں حلال و پاکیزہ رزق کے ساتھ ساتھ  محنت و مشقت سے رزق کمانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین "أللّٰھم انفَعْنا بما عَلَّمْتَنا وعلِّمْنا ما یَنفَعُنا وارزُقْنا علماً تنفَعُنا بہٖ”

تبصرے بند ہیں۔