میں خاتون ہوں، پانی کی خاطر تعلیم چھوڑی دی میں نے!
سلمی راضی
(منڈی، پونچھ)
جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ میں گزشتہ دنوں ضلع ترقیاتی کمشنر نے عوام کو ایک موبائل ایپ متعارف کروایا۔ جس کے ذریعہ ہر گاوں سے کوئی بھی پانی کے متعلق شکایت حکام تک پہنچاسکتاہے۔ شکایات تو اس موبائل ایپ کے ذریعہ پہنچ پائیں گی مگر پانی کیسے عوام تک رسائی حاصل کرے گا؟ پہلے تو اس محکمہ کا نام محکمہ صحت عامہ تھا لیکن اب یہ نام تبدیل کرکے جل شکتی کے روپ میں سامنے آیاہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں کروڑوں کی اسکیمیں سرکار کی جانب سے منظور ہوکر زمینی سطح پر صرف چمک رہی ہیں۔ گھر گھر کے ساتھ نل ہے پر جل نہیں! ہر گھر اور ہر جگہ پائیپوں کے جھال بچھے ہوئے ہیں۔ جہاں دیکھاوہیں پائپیں نظر آئیں لیکن پائپپیں پیاس بھجانے کا کام نہیں کرتیں۔ پائیپیں خود پیاس سے پھٹی جارہی ہیں۔ پانی کے خالی ٹینک دیکھ کر پانی کی ضرورت کم نہیں ہوتی جس کا ثبوت پونچھ کی تینوں تحصیلوں منڈی، حویلی اور سرنکوٹ کی سرحد پر پڑنے والا گاؤں سیڑھی چوہانہ ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے۔
اگر چہ علاقہ خوبصورت ہے۔ قریب ہی تین کلومٹر کی دوری پر دریائے سُرن بہتاہے۔ اس دریائے سُرن کے کنارے سے دولیفٹ اسکیمیں لگائی گئی ہیں۔ لیکن زمینی حقائیق دیکھ کر لگتاہے کہ اس اسکیم سے سیڑھی چوہانہ علاقہ کی عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہوگا۔ اس سلسلہ میں جب علاقہ کی ایک خاتون سلمی بانو،جو تعلیم یافتہ ہیں،کی عمر 35 سال ہے،اپنی تعلیم کو گھر میں پانی کی قلت کی وجہ سے خیر آباد کہہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں روز صبح اور شام اپنے گھر سے ڈھائی کلومیٹر دور پانی لانے جاتی ہوں۔ اس دوران دو سے تین گھنٹے جانے اور آنے میں وقت برباد ہوتا ہے۔ اس طرح میرا پورا وقت صرف پانی لانے میں ہی برباد ہو جاتا ہے اور پانی کی خاطر اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ چکی ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچپن سے آج تک رسوئی میں کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور غسل خانے کے لئے پانی اپنے سر پر اٹھاکر لارہی ہوں۔ یہاں تک کہ اگر کہیں گھر میں مہمان آجاتے ہیں تو دودوتین گھنٹے انتظار کرتے ہیں اور ہم پانی لانے دریاپر جاتے پھر واپس آتے ہیں،پھر کہیں ان مہمانوں کی خاطر توازن ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غریب ہیں شاید اسی لئے ہمیں پانی نہیں دیاجاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی بچاؤ، زندگی بچاؤ کا نعرہ تو خوب لگتاہے لیکن اس علاقے میں پانی دو، زندگی بچاؤ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
اسی سلسلہ میں روبینہ کوثر جو ایک بے سہارا خاتون ہیں اور ایک معصوم بیٹی اور دو بیٹوں کی ماں ہیں۔ وہ ایک کچے مکان میں گزر بسر کررہی ہیں۔ جب انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی تو آزادی اور جمہوریت میں خواتین کے حقوق کا فقدان نظر آیا۔ ان کا کہناتھاکہ میں ایک بیوہ خاتون ہوں۔ میرے گھر سے چالیس پچاس میٹر دورپانی کی پائیپ لگی ہے۔ جہاں کبھی پانی آتاتھاوہاں سے ہم اپنے گھر میں رکھی ربڑ کی پائیپ سے پانی کے مشکیزے وغیرہ بھر لیتی تھی۔ لیکن گزشتہ پانچ چھ ماہ سے وہ پانی محکمہ کے ملازمین کی جانب سے بند کردیاگیاہے۔ اب یہاں کپڑے دھونے یا نہانے کے لئے تو درکنار،پینے کے لئے بھی پانی میسر نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں جب پڑوس میں موت ہوئی وہاں پر بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہاں آئے، لیکن یہاں بھی پانی نہیں تھاکہ وہ اپنی پیاس بجھا سکیں۔ جس گھر میں کسی مہمان کو پلانے کے لئے ایک گلاس پانی نہ ہو اس گھر کا اور اس کے بال بچوں اور مویشیوں کا کیا حال ہوتاہوگا، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ انسان پانی کو ترستے ہیں تڑپتے ہیں لیکن اس بے زبان کی پیاس کی شدت نے بھی انتظامیہ کی لاپرواہی کا پردہ فاش کردیا۔
اگر چہ یہاں پائیپوں کی کمی نہیں ہے۔ ہر گھر نل ہے لیکن جل نہیں آتاہے۔ اسی سلسلے میں جاوید احمد لون جن کی عمر قریب 40سال ہے، نے کہاکہ پنچائیت سیڑھی چوہانہ کے چار محلہ جات بلکل پانی سے محروم ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو موت اور شادی بیاہ کے موقعہ پر بھی پانی نہیں دیاجاتاہے۔ مرد،خواتین، بزرگ اور بچے دوسے تین کلومیٹر دور دریائے سرن سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ اگر چہ انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان کیاگیاہے کہ 2022تک ہر گھر میں پانی دیاجائے گا۔ تاحال یہ اسکیم اعلانات تک ہی محدود ہے۔ ایک محلہ سیداں کے لئے چشمہ سے آنے والی لائین بھی اور لیفٹ اسکیم سے آنے والا پانی بھی دستیاب ہیجبکہ یہاں مڈل اسکول پانی سے محروم کردیاگیا۔ جبکہ محلہ چوہانہ، محلہ بکروالاں،محلہ لوناں اور محلہ قریشیاں میں آنے والی لائین سے ہٹ دھرمی اور ضد کی آڑ میں مڈل اسکول میں بھی پانی کی پائیپ لگائی گئی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان محلہ جات کی غریب عوام کو محکمہ جل شکتی کے ملازمین جان بوجھ کر پانی سے محروم رکھتے ہیں اور رشوت لینے کی آڑ میں بھی ان لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔
محمد دین نامی ایک بزرگ کا کہناتھاکہ ہم نے گھوڑوں پر دریائے سُرن سے پانی لاکر ماتم کے دن گزارے ہیں۔ یہاں تک کہ میت کے غسل کے لئے بھی پانی میسر نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں موت کے موقہ پر یا کہ میت کے غسل کے لئے پانی میسر نہیں وہ عوام کس طرح اپنے ملازمین پر نازکرے؟ انہوں نے سوال کیا کہ جانوروں کا کیاقصور کہ ان کا پانی بند ہے؟ اور جہاں خواتین اور بچے اپنی تعلیم پانی کی قلت کے باعث ترک کردیں وہاں حقوق کی پاسداری کس قدر کارگر ہوگی؟ اسی سلسلے میں جب محکمہ جل شکتی کے اعلی عہدیدار سے فون پر بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ یہاں دو لفٹ اسکیمیں ہیں۔ ایک لفٹ اسکیم کا پانی نیچے ہوچکاہے۔ اب اس کے لئے نیا پمپ نکالنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے وہاں پمپ نکالنے والی گاڑی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ جب گاڑی پہنچے گی تب ہی پمپ لگ پائے گا اور محلہ بکروالاں میں بنے ٹینک تک پانی پہنچ پائے گا۔
عوام کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی کروڑوں کی اسکیموں کو زمینی سطح پر کارگر بنانے یا تباہ و برباد کرنے میں عوام سے زیادہ متعلقہ محکمہ کے عہدداران ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ جب ان کی جانب سے مرتب کئے گئے خاکے کے مطابق کام نہیں ہوتاہے،یا اگر اس خاکہ کے مطابق کام ہوکر زمینی سطح پر عوام کے کام نہ آسکے یااسکیم بے کار ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں متعلقہ محکمہ ہی ہوگا۔ جس نے آنکھ بند کرکے مختص کی گئی رقومات صرف کردی۔ مگر عوام کو کچھ فائدہ نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف عوام پانی کے لئے ترسنے پر مجبور ہے بلکہ سلمی بانواور ان کی جیسی کئی بیٹیاں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو گئی تاکہ گھر میں دو بوند میّسرہو سکے۔ آج یہ بیٹیاں سوال کرتی ہیں کہ آخراسکول کی جگہ انہں پانی کے لئے در در بھٹکنے پر مجبور کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ہے کوئی ان بیٹیوں کے سوالوں کاجواب دینے والا؟ (چرخہ فیچرس)
تبصرے بند ہیں۔