میں وہاں اکیلا نہ تھا

ڈاکٹرامتیازعبدالقادر

          پانی کے قطرے سے جوسفرشروع ہوکر’سقراط ‘ و ’افلاطون‘تک منتج ہوتاہے؛ اس کی اجمالی تصویرسورۃ الاعلٰی کے ابتدائی آیات میں کھینچی گئی ہے۔ وہ آیات تقدیر کی بہترین تعبیرہیں۔ میں بھی اس کہانی کاحصّہ ہوں۔ حال ہی میں میری کہانی منظرپرآئی۔ ایک اَن کہی کہانی جوکہ ہم سب کی کہانی ہے۔ میں جس دورسے گزرا،کروڑوں اربوں انسان اْس دورسے گزرے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے صْبحِ قیامت تک ہرانسان ایسے ہی تشکیل پاتاہے۔ لیکن میری متجسس طبیعت اْس طاقت کی کھوج میں رہی جس نے مجھے اْس دنیامیں بھی اکیلانہ چھوڑا۔ میری ہرضرورت پوری کی۔ میں ضعیف تھا،لاچارتھا،بے بس تھا،والدکاشفیق سایہ تھانہ والدہ کے پیار،محبت اورایثار کے حامل’پَر‘تھے۔ اس کے باوصف کوئی قوت تھی جواْن پردوںمیں بھی میری نگہبان تھی۔ ۔ ۔ ۔

          وہاں اندھیراتھا۔ لیکن میں امر’ِکْن‘ کو’ فیکْن‘ میں تبدیل ہوتے محسوس کررہاتھا۔ شروع میں بس پانی کا ایک قطرہ تھا۔ ۔ ۔ میری طرح کے ان گنت قطرے اور بھی تھے لیکن تخلیق اورتسویہ کے لئے میراہی انتخاب ہوا۔ ہاں اس وقت تک مجھے جو چیز یاد تھی وہ بس وہ وعدہ تھا جو میں نے عالمِ ارواح میں اپنے رب سے کیا تھا، آپ نے بھی کیاہے۔ جب اس نے ندادی تھی”الستْ بربکم”تومیری روح نے شعوری طورپرکہاتھاکہ ہاں تو ہی میرا رب ہے۔ لیکن وہ کون ہے ؟ کہاں ہے؟ اس سے میں لاعلم تھا۔ انڈے سے امتزاج کے بعد مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آنے لگیں۔ میں ایک سے دو، دو سے چار، چار سے سولہ اور یوں جسامت میں بڑھتا گیا۔ ہرچارمیںسے ایک zygote اس مرحلے پر آکر ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن میںان تین میںسے ایک تھاجوبچ گیااوراپناسفرجاری رکھا۔ اب میرا نام "زایگوٹ”سے "بلاسٹو سائسٹ "رکھاگیااورانتقالِ مکان کرکے بیضا دانی کی جگہ”رحم”میں جاٹھہرا۔ "ہجرت”کے اس مرحلے پر میں سہما ہوا بھی تھا اور متجسّس بھی۔ میں خیالوں میں مگن ہی تھا کہ ایک جھلی نے مجھے اوڑھ کرحفاظتی حصارمیں لے لیا۔ اس کا نام "امنیو ٹک سیک”تھا اور اب میرا نام” امبریو” تھا۔

           پناہ گاہ مل گئی تو بھوک ستانے لگی تھی۔ خوراک کی جستجومیں ہی تھا کہ جھلی کے ساتھ ایک” بیگ” آملا جس میں مجھے کھانا، پانی اور آکسیجن ملنے لگی۔ معلوم پڑا کہ اس بیگ کو "پلے سنٹا”کہتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ میں جو سوچتا ہوں وہ فوراً سے ہو جاتا ہے۔ اب تک مجھے وجود میں آئے چار ہفتے گزر چکے تھے۔ میرے بے نشان و گمنام وجود میں دو حلقے پڑنے لگے تھے جن کے ذریعے روشنی میرے وجود میں داخل ہورہی تھی۔ اس روشنی میں مجھے نظر آیا کہ میرا ایک چہرہ بھی ہے۔ میں اپنے وجود کو محسوس کر رہا تھا لیکن پھر بھی آس پاس کا سناٹا ہراساں کر رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کو کیسے دور کروں کہ مجھے”دھک دھک ” کی آواز آنے لگی۔ میں ارد گرد دیکھنے لگا کہ اس ساز کا کار ساز کون ہے۔ تب میری نظر اپنے سینے پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا گوشت کالوتھڑادھڑک رہا تھا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ہر سال ہزاروں دل اس مرحلے پر وقت پر نہیں دھڑک پاتے اور پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی دھڑکن کا ساز بے ربط ہو جاتا ہے۔ میرے دل کی دھڑکن بہت نظم سے سر گرم تھی لیکن ابھی تک مجھے یہ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کون تھا جو میرے ہر خدشے سے آگاہ تھا اور میرے مضطرب وتنہاوجودکوتسلی بخش رہاتھا۔

           ایک ماہ گزر چکا تھا اور میری جسامت چاول کے ایک دانے جتنی ہو چکی تھی۔ سلسلہ روزوشب جاری تھا۔ اگلے ایک مہینے میں میرے وجود میں دو چھوٹے چھوٹے بازو اور ٹانگیں ظاہر ہونے لگیں تھی۔ کچھ عرصے بعد میرا دماغ بھی خلق ہوا۔ میں سوچ رہا تھا، محسوس کر رہا تھا۔ اس احساس کو یاد رکھ سکتا تھا۔ یہ مہینہ ختم ہوا تو میرے پاس دماغ تھا، دل تھا، معدہ تھا، آنتیں تھی۔ میں کھا سکتا تھا، پی سکتا تھا، سونگھ سکتا تھا۔ میں خوش تھا اورشدید حیران بھی کیونکہ اس مقام پرآکرلاتعداددماغوںاوراعصاب میں کمی رہ جاتی ہے۔ میں بہت نہال تھا۔ میرا نام بدل کر ” فیٹس”ہوگیا تھا۔ اگلے دو مہینوں میں میرے ہاتھ انگلیاں، جگر گردے، کان اور منہ سب مکمل ہو چکے تھے۔ میں خوشی سے ہاتھ پاؤں ماررہاتھا۔ اپنے اس گھر جس کا نام "یوٹرس”تھا، اس میں کبھی ادھر تیرتا اور کبھی ادھر گھومتا تھا۔ لیکن ایک الجھن تھی،ایک کَسک موجود تھی۔ کیونکہ ابھی تک مجھے اس کرشمہ ساز کا تعارف نہیں تھا جو مرے وجود کی انجینئرنگ کر رہا تھا۔ مہینے گزرتے جارہے تھے۔ وقت محوِسفرتھااوروہ اپنے انمٹ نشان میرے پورے وجودپرڈال رہاتھا۔ میں توانا ہوتا جارہا تھا اس لئے زیادہ ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ شرارت میں کبھی اپنے اس ننھے "گھر” کی ایک دیوار کوٹکر مارتا اور کبھی دوسری طرف پلٹی کھاتا۔ جب جب میں ان شوخیوںمیں مست ہوتاتومجھے باہر سے کسی کے خوش ہونے اور ہنسنے کی آواز آتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتاتھاجیسے میری یہ شرارتیں کسی کو بہت لبھا رہی ہوں۔

           میرا وجود "انگڑائی”لے رہا تھا۔ احساس توانا ہورہے تھے۔ پلکیں، ناخن، بھنویں اور سر کے بال اپنی اپنی جگہ لے رہے تھے۔ حسن وجمال اپنے "کمال”کوپہنچ رہاتھا۔ رگوںمیں خون "تیر” رہا تھا۔ مجھ میں اب یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ کوئی مجھے دیکھے، کوئی مجھے سنے۔ میں اٹھایا جاؤں،میں کھلایا جاؤں۔ میرا "گھر” جہاں میں نے نو مہینے گزارے،مجھ سے بچھڑنے والاتھا۔ میں بادل نخواستہ اسے الوداع کہنے کی تیاری میں تھا۔ میں نئی جگہ جانے سے خوفزدہ تھا اور پر جوش بھی۔ میرے گرد جھلی سکڑنے لگی تھی، پانی کم ہونے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب مجھے” خدا حافظ” کہہ رہے ہوں۔ میں بھی”اشک بار”آنکھوںسے ہاتھ ہلا رہا تھا اور پھر پلک جھپکتے میں مجھے ایک جھٹکا محسوس ہوا۔ میں نے خوف سے آنکھیں میچ لیں اور جب آنکھیں کھولی تو خود کو کسی کی گود میں پایا۔ ۔ ۔ ۔ میں گھبرایا۔ ۔ ۔ ۔ جی بھر کر رونے لگا۔ میرے آس پاس لوگ میرے رونے پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ مٹھائیاںبانٹنے لگے۔

          آج سال ۲۰۲۰ء ہے، اکتوبرکی ۷تاریخ۔ مغرب کی اذان نے دن کے اجالے کورخصتی کاپیغام پہنچادیاہے۔ سورج نے اپنی کرنیں سمیٹ کر دن کے اختتام کا اعلان کردیاہے۔ تاریکی پرسکون "چادر”بچھانے لگی ہے۔ "تھکاہارا”دن” چادر”لئے "اونگھ”رہاہے۔ ٹھنڈی رات میں آسمان پرتارے بادل کے ٹکڑوںسے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ چاند اشاروںہی اشاروںمیں کچھ بول رہاہے۔ ۔ ۔ ۔ میں اْس گھرسے اِس گھرمنتقل ہو چکا تھا اور مجھے احساس تھا کہ میں خوش قسمت”مضغہ گوشت” ہوں کیونکہ اس مرحلے پرپہنچ کرکئی وجود زیست کی جنگ ہارجاتے ہیں۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ کہاں ہے میرا خالق ؟ کون ہے میرا مالک ؟ کس کی تخلیق کا ہے یہ انداز، وہ کون ہے جوتنہائی کی” راتوں”میں میراسہاراتھا،اسی سوچ میں تھا کہ میرے کان میں ایک پر سرور سی آواز گونجنے لگی   ؎

اللہ اکبر اللہ اکبر۔ ۔ ۔ اللہ اکبر اللہ اکبر

 اشہدْان لّااِلٰہ الا اللہ۔ ۔ ۔ اشہدْان لّااِلٰہ الا اللہ

          اور میں جان گیا کہ وہ رب کون تھا؟ وہ اللہ ہی تھا جس نے اس”جھلی”کو میرے گرد لپیٹ دیا تھا۔ وہاں اس تاریکی میں میری خوراک کاسامان کردیا تھا۔ جس نے مجھے اعضاء بخشے۔ دل، دماغ، جگر اور پھیپھڑے تخلیق کیے تاکہ میں سوچ سکوں، محسوس کرسکوں۔ جس نے مجھے آنکھیں عطاکی۔ آنکھوں میں بصارت اور بصارت میں خود کو ظاہر کیا تھا۔ ڈاکٹر بول رہے تھے کہ میرے یہ اشک میرے وجود اور زندگی کی علامت ہے لیکن وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ پیدا تو میں نو ماہ قبل ہی ہوا تھا اور میرا یہ رونا اس رب کا شکرانہ تھا جو” الستْ بربکم”سے لے کر پانی کی اک بوندتک اور ماں کے "رحم "سے لے کر ماں کی گود تک، ان تین پردوں میں ایک ایک مرحلے پر میرا کار ساز میرا ساتھی بنا رہا تھا :

          ’وہ تمہاری تخلیق تمہاری مائوں کے پیٹ میں اس طرح کرتا ہے کہ تین اندھیریوں کے درمیان تم بناوٹ کے ایک مرحلے کے بعددوسرے مرحلے سے گزرتے ہو۔ وہ اللہ ہے جو تمہارا پروردگار ہے۔ ساری بادشاہی اْسی کی ہے۔ اْس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ پھر بھی تمہارا منہ آخر کوئی کہاں سے موڑ دیتا ہے؟‘(الروم:۶)

          یہ میری "کائنات”کی رودادہے،ایک خاک کاذرہ کہ جس نے اْس”دشت” سے گزرکربہت سارے بھیدپائے۔ ان تین پردوںسے نکل کریہ حقیقت بھی آشکاراہوئی کہ یہاںکاٹھکانامستقل نہیں ہے۔ بس ایک” رات” کا ٹھہرناہے اورمسافروں کے لئے یہ”سرائے "غنیمت ہے۔

          دل پر سکون تھا، سراپاشکرتھا۔ ایک پہچان تھی۔ چودہ انچ جسامت،چارکلووزن۔ ۔ ۔ ۔ میرے والدمیری تحنیک فرمارہے تھے۔ مٹھاس کی حِس نے زبان کا ذائقہ تبدیل کردیاتھا۔ تین دن بعدوالدمحترم نے، جوکہ اپنے قلم کی ازلی پیاس بھجاکرمیری یہ کہانی سپردقلم کرکے آپ کوسنارہے ہیں، نے میرانام "اْسیدعبدالہادی بن امتیازعبدالقادر”تجویزکیا۔

(نوٹ: ۷ اکتوبر۲۲کومیرابیٹااسیدعبدالہادی ۲سال کاہوگا۔ عدم سے موجودتک کاسفرکن مراحل سے ہوکرطے پایا؛پیداہوتے ہی اُس نے یہ کہانی اپنے باباکو’سنائی‘۔ یہ صرف اُس کی کہانی نہیںبلکہ ابتدائے آفرینش سے اب تک کے انسان کی؛میری اور آپ کی کہانی ہے۔ مصورِ کائنات کا’قلم‘ کس طرح رحمِ مادرمیںکام کرتاہے؛یہ مضمون اس کااجمالی خاکہ پیش کرتاہے۔ )

٭٭٭

1 تبصرہ
  1. روف قیاسی کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ مضمون ہے۔۔۔مضمون نگار نے اس میں واقعی جان ڈال دی ہے۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔