مہر و محبت جس کی شان

سہیل بشیر کار

جس ذات اقدس کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے؛ "تمہارے پاس ایک رسول آیا ہے تمہیں میں سے،اس پر یہ بات بہت گراں گزرنے والی ہے کہ تم کسی مشقت یا مصیبت میں پڑو. وہ تمہارے لیے بھلائیوں کا آرزومند ہے. "(سورہ التوبہ 128) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: "ایسا لگتا ہے کہ تم اپنے آپ کو ہلکان کرڈالوگے،اس بات پر کہ وہ ایمان نہیں لاتے. "(سورہ شعراء آیت 3)

اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں:” میرا حال اس شخص جیسا ہے، جس نے آگ جلائی،اور جب آگ کا اُجالا آس پاس پھیل گیا، تو کیڑے پتنگے ، جو آگ پر جمع ہوجاتے ہیں، وہ آ آ کر اس میں گرنے لگے، وہ شخص ان کیڑوں پتنگوں کو اس آگ میں گرنے سے روک رہا ہے،مگر انہیں روک نہیں پارہا ہے، وہ بے تحاشا اس آگ میں گر رہے ہیں، اور جل جل کرراکھ ہورہے ہیں !میرا حال بالکل ایسا ہی ہے،میں تم لوگوں کی کمر پکڑ پکڑ کر آگ سے دور کر رہا ہوں،کہ بچو آگ سے ! بچو آگ سے! مگر تم لوگ ہو کہ اس آگ پر بے تحاشا ٹوٹے پڑ رہے ہو! "(متفق علیہ)

انسانیت کے درد مند رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ غلط فہمی کے شکار ہوں، اس ہستی کے بارے میں کوئی گستاخی کریں، حیرت ہوتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں 96 صفحات کی کتاب ” مہر و محبت جس کی شان” مولانا ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی نےلکھی ہے. خون جگر سے لکھی گئی کتاب کے مصنف عالم اسلام کے محقق عالم دین ہیں. ان کی درجنوں کتابوں کو عالمی پیمانے پر پزیرائی ملی ہے، مولانا عنایت اللہ سبحانی  معروف قرآنی اسکالر ہیں. مولانا سبحانی کا شمار عصر حاضر کے ماہر قرآنیات میں ہوتا ہے،مولانا کی معروف مایہ ناز عربی تفسیر "البرھان فی النظام القرآن” ہے، سیرت کے موضوع پر اس سے پہلے ان کی دو کتابوں "محمد عربی” اور جلوہ فاراں کو علمی حلقوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی نمایاں پزیرائی ملی ہے. رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان میں بہت زیادہ ہیں لہذا جب وہ سیرت پر لکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خون جگر سے لکھا گیا ہے. 96 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب میں مصنف محترم نے 37 عنوانات کے تحت سیرت پاک کے ان گوشوں کو سامنے لایا ہے جن کو پڑھ کر حیات پاک صلعم کے اہم ترین گوشوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، مصنف کا ماننا ہے کہ سیرت النبی پر بہت کچھ لکھا گیا. ہر زبان میں لکھا گیا، نظم میں بھی لکھا گیا، نثر میں بھی مگر اس کے باوجود دنیا ابھی تک انسانیت کے سب سے بڑے محسن کو پہچان نہ سکی، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کسی خاص دین کے ماننے والوں کے لیے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر انسان کے لیے رحمت بنا کر بیجھے گیے ہیں. پھر بھی غلط فہمیاں کیسے؟ مصنف اپنے مخصوص انداز میں امت مسلمہ سےشکوہ کرتے ہیں: "آہ! یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک ہم دنیا کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف نہیں کراسکے. ” (صفحہ 9)حالانکہ ہمارے پاس ہر قسم کے وسائل تھے، ہم یہ بات دنیا  کو باور نہ کراسکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں حتی کہ جانوروں سے بھی بے انتہا محبت تھی، بنیادی غلطی کہاں ہوئی؛ مصنف اس بارے میں اشارہ کرتے ہیں:”ہم  نے دور رسالت ،اور دور خلافت میں ہونے والی جنگوں کے واقعات تو بڑی تفصیل سے دنیا کوسنائے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہادری اور مردانگی کے قصے خوب مزے لے لے کر بیان کیے ، مگردنیا کے سامنے اس بات کی وضاحت نہیں کرسکے، کہ لڑائی کی پہل آپ ﷺکی طرف سے نہیں، دشمنوں کی طرف سے ہوئی تھی، یہ جنگیں آپ ﷺپر تھوپی گئی تھیں،آپ نے دوسروں پر نہیں تھوپی تھیں!

ہم اس بات کی وضاحت نہیں کرسکے، کہ یہ جنگیں دنیا کی عام جنگوں سے بالکل الگ تھیں!

یہ جنگیں عام انسانوں سے نہیں،بلکہ صرف، اور صرف ظالموں اور مجرموں سے لڑی گئی تھیں!

چنانچہ جنگوں میں آپ نے ساتھیوں کو باقاعدہ یہ ہدایت دی،کہ جو جنگ کے لیے آئیں، بس انہی سے وہ جنگ کریں،وہ کسی بچے، یاکسی بوڑھے، یا کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں. "(صفحہ 10) مصنف لکھتے ہیں کہ دور رسالت میں جو جنگیں لڑی گئی ان کا مقصد کمزوروں کی حفاظت کرنا تھا؛ لکھتے ہیں :” پھر یہ جنگیں لڑی گئی تھیں کمزوروں اور مظلوموں کے آنسو پونچھنے اور ان کے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے نہ کہ لوگوں کوزبردستی مسلمان بنانے، یا انہیں اسلام پرمجبور کرنے کے لیے۔یہ جنگیں لڑی گئی تھیں لوگوں کو ظالموں کے چنگل سے نکالنے، اور سماج میں انہیں عزت اور آزادی دلانے کے لیے!”(صفحہ 11)

مصنف چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کروائے ،دنیا کو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے لکھتے ہیں:” ان باتوں کا عالمی پیمانے پر اتنا چرچا ہونا چاہیے تھا کہ ہر چھوٹا بڑا،ہرخاص وعام اور ہرخواندہ ونا خواندہ ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہوجاتا، کسی کے لیے رحمت عالم ﷺ کے بارے میں کسی غلط فہمی کا موقع نہ رہ جاتا، مگر افسوس ! کہ ایسا نہیں ہوا۔

پھر رحمت عالم ﷺکے امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض تھا، کہ ہم بھی تمام انسانوں کے لیے الفت ومحبت، اور رحمت وشفقت کا پیکر ہوتے، ہم بھی رحمت عالم ﷺ کی طرح مصیبتوں میں ان کے کام آتے،اور دکھ درد میں ان کے شریک ہوتے ۔

لوگ ہمارے اخلاق سے اتنا متاثر ہوتے کہ اپنی گفتگووں، اور اپنی مجلسوں میں ہمارے ایثار و محبت کے تذکرے کرتے،ہماری عالی ظرفی اور خوش اخلاقی کی مثالیں دیتے!

ہمارا فرض تھا کہ ہم ان کی زیادتیوں کو برداشت کرتے،جس طرح رحمت عالم ﷺ نے برداشت کی تھیں!

ہمارافرض تھا، نہایت صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے انہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لانے کی کوشش کرتے، جس طرح رحمت عالم ﷺنے کیا تھا !

ہمارا فرض تھا کہ اگر کوئی ہمارے دین کو برا کہتا،یا ہمارے پیارے نبی کو ! ہم اور ہمارے ماں باپ قربان جائیں آپﷺ پر!

اگر کوئی آپ ﷺ کوبرا کہتا،یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ،تو اس پر کوئی طوفان کھڑا کرنے کے بجائے ہم دل سوزی کے ساتھ اسے سمجھاتے،اور اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے!

 ہمارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے: اللہ تعالی تمہارے ذریعہ کسی ایک آدمی کوبھی ہدایت دے دے، تویہ تمہارے لیے سرخ سرخ اونٹوں کی لمبی قطاروں سے بڑھ کر ہے!

مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرسکے. "(صفحہ 12)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امت مسلمہ ہر طرح کی مصائب میں ہے لیکن اسوہ رسول تھا کہ ہم جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے مصنف لکھتے ہیں:” ہماری مصیبت یہ ہے، کہ ہم اس معاملے میں اسوہ رسول ، اور اسوہ صحابہؓ کو دیکھنے کے بجائے اندھی بہری جذباتیت کے شکار ہوجاتے ہیں ،اوراس کے زیر اثر نہایت بھیانک غلطیاں کر بیٹھتے ہیں!

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ان جذباتی حرکتوں سے اپنے نبی ﷺکی شان بڑھانے کے بجائے آپ کی شان گھٹانے کا سبب بن جاتے ہیں !اور خود جو بے حساب جانی ومالی نقصانات اٹھاتے ہیں، وہ اپنی جگہ پر !

آخر ہم کب تک اس طرح کی غلطیاں کرتے رہیں گے؟ اور کب تک خود اپنے پیروں پر کلہاڑیاں مارتے رہیں گے ؟!

ہماری بھلائی اسی میں ہے، کہ ہم عملی زندگی میں رحمت عالم ﷺکے سچے پیرو بنیں، اور اپنے طرزعمل سے لوگوں کو آپ کی شفقت ورحمت، اور آپ کی شان کریمی کے مشاہدے کرائیں. "(صفحہ 13)

زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے سیرت کے البم سے بہت ہی عمدہ تصویریں ہمارے سامنے لائی ہے؛ ” ماہ رسالت طائف کی گلیوں "کے عنوان کے تحت وہ واقعہ لاتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم عظیم کیا گیا اور حضرت جبریل امین فرشتے کو لیکرآپ جناب کے پاس حاضر ہوتے ہیں، مصنف نے اس موقع پر پہاڑوں کے ناظم فرشتہ کے منظر کو فلمایا ہے لکھتے ہیں: ‘میں پہاڑوں کا ناظم ہوں،اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، ان لوگوں کو جو سزا بھی آپ دینا چاہیں، بے تکلف مجھ سے کہہ سکتے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو ان دونوں پہاڑوں کو، جن کے درمیان یہ لوگ آباد ہیں، آپس میں ملادوں،یہ سب لوگ بالکل پس کر رہ جائیں گے !

آپؐ نے فرمایا:

"نہیں، انہیں نیست ونابود نہیں کرنا ہے! مجھے امید ہے اللہ ان سے ایسی نسلیں پیدا کرے گا، جو خالص اللہ کی عبادت کریں گی،اس کا کوئی شریک نہیں ٹھہرائیں گے” ۔(متفق علیہ) (صفحہ 22)

سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم میں اس کا عشیر بھی ہے کہ ہم عالم انسانیت کے لیے یہ جذبہ رکھے ہیں.

"شعب ابو طالب کے تین سال ” کے تحت سیرت پاک سے ایک تصویر یوں پیش کرتے ہیں: "ہجرت مدینہ سے پہلے آسمان و زمین نے یہ منظر بھی دیکھا، کہ مکے کے کسی گوشے میں ایک بڑھیااپنا بوجھ اٹھا رہی ہے، اور اٹھانہیں پارہی ہے!

رحمت عالم ﷺ کی اس پر نظر پڑ جاتی ہے، آپ آگے بڑھ کر اس کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، اور اس بڑھیا کے ساتھ اس کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں !

وہ بڑھیا آپ کو پہچانتی نہیں ہے۔وہ راستے بھرمحمد کو برا بھلا کہتی جاتی ہے، اور حضرت محمدﷺ اس کا بوجھ اٹھائے ہوئے خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں،یہاں تک کہ اس کا گھر آجاتا ہے،اور اس کا بوجھ اس کے گھررکھ کر آپ واپس ہونے لگتے ہیں۔

وہ بڑھیاآپ کی اس محبت و ہمدردی، اور خدمت گزاری سے کافی متاثر ہوتی ہے،وہ آپ کو دعائیں دیتی ہے،اور آپ سے آپ کا نام پوچھتی ہے۔

شروع میں آپﷺ ٹالتے ہیں، مگر جب وہ اصرار کرتی ہے، تو فرماتے ہیں: اماں! میرا نام محمد ہے!محمد نام سن کر اس بڑھیاکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، وہ نہایت حیرت اور تاسف کے ساتھ کہتی ہے: بیٹا! معاف کرنا، میں تمہیں پہچانتی نہیں تھی، تم تو بہت اچھے آدمی ہو، لوگ تمہیں ایسا ویسا کیوں کہتے ہیں؟”(صفحہ 31)

ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر ایسا جذبہ پیدا کرتے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش نے کس قدر ظلم ڈھالا لیکن جب آپ محترم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے سب کو معاف کیا حتی کہ بڑے بڑے دشمنوں کو بھی. مصنف فتح مکہ کے بعد اس واقع کی منظر کشی کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:” آپ نے فرمایا: آج میں تمہارے ساتھ وہی کچھ کروں گا، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا !

جاؤ، تم سب کو آزاد کیا جاتا ہے!

آج تم سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی !

آج کوئی ملامت اور کوئی سرزنش نہیں ہوگی !

یہ وہ دشمن تھے، جو کوئی معمولی مجرم نہیں تھے، ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل تھی،اور وہ تمام ہی جرائم انتہائی سنگین تھے!

یہ وہ دشمن تھے جوکسی بھی قانون کی رو سے معافی کے سزاوار، یا معافی کے حق دار نہ تھے، مگر اس پیکررحمت وشفقت کا دل دردمند ہر ایک کے اندازے ، اور ہر ایک کے تصور سے زیادہ بڑا اورکشادہ تھا!

 اس کے اندر ساری انسانیت کا درد تھا !اس کے اندردوست دشمن ،ہر ایک کے لیے محبت ودلسوزی کا دریا موج زن تھا !

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا! مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا!

جو لوگ آپ کی جان کے دشمن تھے، بلکہ صحیح بات یہ ہے ، کہ انہوں نے دشمنی کی انتہا کردی تھی،ان سب کی آپ نے جاں بخشی کی!

جن لوگوں نے آپ کی عزت و کرامت کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی،اور جنہوں نے سالہا سال تک شان رسالت کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، ان سب کی آپ نے دل جوئی کی،اور ان سب کو عزت وکرامت کی زرّیں قباپہنائی !

اللہ رے وسعت ! ترے دامان کرم کی

اس بحر کا ملتا نہیں ڈھونڈے سے کنارا. "(صفحہ 34)

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے؛ مصنف نے کئی واقعات بیان کیے ہیں. ” اسے کہتے ہیں عظمت و بلندی "کے عنوان کے تحت حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرنے کا واقع خوبصورتی سے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” حضرت معاذ اونٹنی پر سوار ہیں،اور رحمت عالم ﷺان کی اونٹنی کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں!

اللہ! اللہ ! کیسا عجیب وغریب منظر تھا یہ!

شہنشاہ کونین زمین پر، اور آپ کا ایک نیاز مند سواری پر! نیازمند سواری پر چل رہا ہے،اور شہنشاہ کونین اس کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں!

اسے کہتے ہیں عظمت و بلندی! وہ عظمت و بلندی ، جو کسی کرسی یا کسی سواری کی محتاج نہیں ہوتی. "(صفحہ 36) پھر امت مسلمہ کو سمجھاتے ہیں کہ حقیقی عظمت یہی ہے:” اگر کوئی عظمت و بلندی کا رازسمجھنا چاہے،تو شہنشاہ کونین ﷺ کا یہ اسوہ عظیم اس کے لیے کافی ہے!

اسی طرح آپ ﷺ حضرت معاذؓ،اور ان کی اونٹنی کے ساتھ ساتھ چلتے رہے، چلتے چلتے کافی دور نکل گئے،چلتے ہوئے آپ نے فرمایا:

معاذ! میں تمہیں کچھ وصیتیں کرتا ہوں، اللہ سے ڈرتے رہنا، ہمیشہ سچی بات کہنا، امانت ودیانت پر قائم رہنا، کبھی خیانت کے قریب نہ جانا،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی نہ کرنا۔

لوگوں کے لیے اپنے شانے جھکائے رکھنا،پڑوس کی حرمت کو ملحوظ رکھنا،ہمیشہ نرمی ومحبت سے بات کرنا،ہرایک کے سلام کا جواب دینا، قرآن پاک پر غور وتدبر کرتے رہنا،آخرت کے حساب سے ڈرتے رہنا،دنیا پر ہمیشہ آخرت کو ترجیح دینا۔

 معاذ ! کسی زمین کو خراب نہ کرنا،کسی مسلم کو برا بھلا نہ کہنا،کسی جھوٹے کو سچا،اور کسی سچے کو جھوٹا مت کہنا،کسی امام کی نافرمانی نہ کرنا۔

تمہیں وہاں اہل کتاب ملیں گے، پہلے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دینا،وہ اللہ کو پہچان لیں تو انہیں بتاناکہ دن رات میں اللہ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔

 وہ اسے مان لیں، تو انہیں بتاناکہ اللہ نے ان پر زکاة بھی فرض کی ہے، جو ان کے مال داروں سے لی جائے گی ، اور ان کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔

اسے وہ مان لیں،تو ان سے زکاة وصول کرنا،اور ان کا بہترین مال لینے سے پرہیز کرنا۔

 معاذ ! میں تمہارے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہوں، جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں،اور تمہارے لیے وہ چیز نا پسند کرتا ہوں، جو خود اپنے لیے نا پسند کرتا ہوں۔

 معاذ ! اگر تم سے کبھی کوئی غلطی ہوجائے،تو پہلی فرصت میں اس سے توبہ کرنا۔تنہائی میں غلطی ہو، تو تنہائی میں توبہ کرنا،لوگوں کے سامنے غلطی ہو، تو لوگوں کے سامنے توبہ کرنا۔

معاذ ! لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا،انہیں زحمتوں میں نہ ڈالنا۔ہر اینٹ پتھرکے سامنے اللہ کو یاد کرنا،قیامت کے دن وہ سب اینٹ پتھر تمہارے حق میں گواہی دیں گے !

 معاذ ! کوئی بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرنا،کمزوروں اور بیواؤں کی ضرورتیں پوری کرنے میں دیر نہ کرنا، اپنی نشست و برخاست فقیروں اور مسکینوں کے درمیان رکھنا،اپنے معاملے میں لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا،ہمیشہ حق بات کہنا،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنا!

 دیکھو! اپنی وضع پر قائم رہنا،جس ایمانی کیفیت، اورجن ایمانی بلندیوں کے ساتھ تم مجھ سے جدا ہورہے ہو،اسی ایمانی کیفیت ، اورانہی ایمانی بلندیوں کے ساتھ مجھ سے دوبارہ ملنا. "(صفحہ 38) جہاں اس واقع میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کی مثال ملتی ہے وہیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسانیت کے تئیں اس قدر فکر مند کوئی نہیں تھا، خواتین کو معاشرہ میں کمزور سمجھا جاتا تھا؛ مصنف نے کئی واقعات سے خواتین  بچوں اور غلاموں کے واقعات پیش کیے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاشرہ میں کس قدر عزت دلوائی، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جہاں اجتماعی ذمہ داریوں کے تئیں بہت متحرک تھے؛ وہیں اپنے گھریلوں ذمہ داریوں کے تحت بھی نہ صرف فکر مند تھے بلکہ وہ اپنی ازواج محترمہ کی دلجوئی بھی کرتے. اس بارے میں بھی صاحب کتاب نے خصوصی روشنی ڈالی ہے. اسی طرح رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہے مصنف نے ان غلط فہمیوں کو دور بھی کیا ہے، عام حالات تو بہت سے لوگ شفیق ہوتے ہیں لیکن حالت جنگ میں محبت اور پیار بانٹنا صرف ذات اقدس کا ہی کمال ہے، مصنف نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پیش کیا ہے جو انہوں نے حالت جنگ میں دیئے مصنف لکھتے ہیں کہ حالت جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی تعلیم یوں ہوتی: "دشمن کے علاقے میں داخل ہونا توکسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا،کسی عورت کی طرف نظر اٹھاکر نہ دیکھنا،کسی بوڑھے پر ہاتھ نہ اٹھانا،کسی مریض یا زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا،کوئی پھلدار درخت نہ کاٹنا، کوئی دودھ دینے والا جانور نہ ذبح کرنا، کسی آبادی کو کھنڈر نہ بنانا، بس انہی لوگوں سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں،جو تم سے جنگ کرنے نہ آئیں، ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، راستے میں کوئی عبادت گاہ ملے،تو اس کو مت چھیڑنا،اس میں جو لوگ ہوں، ان سے مت الجھنا۔”(صفحہ 58) ان تعلیمات پر من وعن اصحاب رسول نے عمل کیا اس کے برعکس آج کے نام نہاد” تمدن والی دنیا "کے بارے میں لکھتے ہیں:” آج کی متمدن دنیا جنگی قیدیوں کے ساتھ جو ذلت آمیزاور لرزہ خیزسلوک کرتی ہے،وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،جنگلوں میں رہنے والے گینڈے اور صحراؤں میں رہنے والے ہاتھی بھی ان وحشیانہ مظالم کی تاب نہیں لاسکتے. ” (صفحہ 59) دنیا میں کسی اور قوم کی شاید ہی مثال ہو کہ مفتوحہ علاقوں کے لوگوں نے اپنی قسمت پر ناز کیا ہو اس کی مثال صرف اور صرف رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے ہاں ملتی ہے. اس کی وجہ مصنف یوں بیان کرتے ہیں:” آپ جس بستی میں بھی داخل ہوئے رحمت کا فرشتہ بن کر داخل ہوئے۔ وہاں کے امیر ہوں یا غریب ، عورتیں ہوں یا مرد، سب کو آپ ﷺ نے آزادی کی شال اوڑھائی، اور عزت کی قبا پہنائی!یہی و جہ ہے زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا، کہ وہ پوری بستی آپ ﷺ کی گرویدہ ہوجاتی، اور تن من دھن سے آپ پر قربان ہوجاتی۔”(صفحہ 65)امت مسلمہ پر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اثر تھا ایک برطانوی مورخ (A. L. MAYCOCK کے حوالے سے لکھتے ہیں:” دو سو سال بعد جب ترک ان کے شہر قسطنطنیہ میں داخل ہوئے، تو اہل شہر نے نعرے لگائے: (وہ پوپ کے تاج کے مقابلے میں مسلمان سلطان کی پگڑی کو زیادہ پسند کرتے ہیں. ” (صفحہ 67) یہ جو ہم حضور رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ nursury of hero’s دیکھتے ہیں اس کی وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تربیت تھا. اس حوالے سے بھی مصنف نے کئی واقعات درج کیے ہیں، انسان تو انسان رحمت للعالمین صلعم کو جانوروں کی بھی فکر رہتی تھی. اس سلسلے میں بھی مصنف نے کئی واقعات کو درج کیا ہے، مصنف یہ بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران بہت سی جنگیں ہوئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوے تو "کاشانہ نبوت میں رات کوچراغ جلانے کے لیے مٹی کا تیل نہیں تھا!زندگی میں بھی آپ کے ہاں عام طور سے راتوں میں چراغ نہیں جلتے تھے۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۲۸۳)(صفحہ 80) اگر جنگوں کا مقصد مال کمانا ہوتا تو کاشانہ نبوت کی یہ حالت نہیں ہوتی.

 کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ کہیں پر بھی مصنف نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا ہے، مصنف کا شعر کا خصوصی ذوق ہے اور اس کتاب میں بھی بہت سے خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مصنف کی سیرت پر لکھی جانے والی دوسری کتابوں کی طرح یہاں بھی خوبصورت عنوانات مصنف نے دیے ہیں مثلا "وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی”، "وہ رحمت جو کوہ ہمالہ سے بھی بلند تھی”، "دشمن کو رحمت کی چادر اوڑھا دی” اللہ رے وسعت ترے دامان کرم کی”۔وغیرہ

 یہ کتاب ہمیں تحریک دیتی ہے کہ اگر ہمیں دنیا کو حسین بنانا ہے تو ہمیں رسول رحمت کا تعارف دنیا کو دینا ہوگا لکھتے ہیں: "اگر آپ کے چاہنے والے آپ کا صحیح تعارف نہیں کراسکے، تو آپ کا صحیح تعارف کون کرائے گا ؟ اگراس وقت دنیا کے سامنے آپ کا غلط تعارف ہوا، یا ہو رہا ہے،تو اس غلط تعارف کا ذمے دارکون ہے؟

عاشقان رسول اور محبا ن رسول ؟ یا دشمنان رسول ؟”

ابھی بھی ہمارے پاس موقع ہے. (ص 9) مصنف لکھتے ہیں:”پریشانی کی کوئی بات نہیں۔آپ اس غلطی کی تلافی اس طرح کرسکتے ہیں،کہ آپ محمد صاحب کی جیونی پڑھیے،اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اس اَندھکار سے نکالیے، انہیں بتائیے کہ آپ کی صحیح تصویر وہ نہیں ہے،جو تم لوگ سمجھ رہے ہو !

آپ کی صحیح تصویر یہ ہے،جو تاریخ کی تمام مستند کتابوں میں محفوظ ہے. "(صفحہ 8 )

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں رسول رحمت کی تعلیمات کو عملانا ہوگا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری خامیاں کہاں کہاں ہے مصنف درد دل سے لکھتے ہیں:” عملی زندگی میں آپ کے اسوہ حسنہ کی کوئی جھلک، یا کوئی جلوہ دیکھنے کو نگاہیں ترستی ہیں !

ہماری عادات وصفات، ہمارے تعلقات ومعاملات، ہمارے گھر گھرانوں کا ماحول، ہمارے رہن سہن کے انداز، کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر کی نمایندگی کرتی ہو!

کہنے کوتو ہم اسلام کے سپاہی،شریعت کے محافظ، اور حرم کے پاسباں ہیں،مگر یہ سب زبانی جمع خرچ ہے،حقیقت میں صورت حال بڑی عبرت ناک، اور بڑی اندوہ ناک ہے!

گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے

کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری !

امت محمدﷺ کے فرزندو ! غفلت کی انتہا ہوچکی،اب سے ہوش میں آجاؤ ، اور اپنی ذمے داریوں کو پہچانو!نام لیں دین کا، مائل رہیں دنیا کی طرف

زیب دیتی نہیں یہ بات خدا والوں کو!

مسلمانو ! اگر تمہیں رحمت عالم ﷺ کے امتی ہونے پر فخرہے،تواس کا اعلان و اظہار منہ کی زبان سے کرنے کے بجائے اپنی سیرت وکردار کی زبان سے کرو۔”(صفحہ 92)

ہدایت پبلشرز نے اس کتاب کو اپنی روایت کے عین مطابق خوبصورت طریقے سے شائع کیا ہے اور 70 روپے قیمت بھی زیادہ نہیں ہے. امید ہے سیرت النبی کے چند پہلوؤں کو” سمندر کو کوزے "میں بند کرنے والی اس کتاب سے امت مسلمہ خوب استفادہ کرے گی اور سیرت النبی کے ان خوبصورت لمحات کو عملی زندگی میں لانے کے لیے یہ کتاب معاون بھی ہوگی. کتاب ہدایت پبلشرز دہلی سے فون نمبر 9891051676 سے حاصل کی جا سکتی ہے.

مبصر سے رابطہ :9906653927

تبصرے بند ہیں۔