وہ اپنے ناز و ادا دکھاتے، کبھی تو آتے
جمشید انصاری
وہ اپنے ناز و ادا دکھاتے ، کبھی تو آتے
اسی طرح پھر ہمیں ستاتے، کبھی تو آتے
…
کبھی جھگڑتے، کبھی بگڑتے، کبھی اکڑتے
کبھی ہنساتے ، کبھی رلاتے، کبھی تو آتے
…
میں ایک بھٹکا ہوا مسافر تمھاری خاطر
کہ میری منزل مجھے دکھاتے کبھی تو آتے
…
تمھاری یادوں میں تن بدن میرا جل رہا ہے
گھٹا محبت کی بن کے چھاتے کبھی تو آتے
…
بچھڑ کے تم سے نہ جی رہا ہوں نہ مر رہا ہوں
اے کاش تم بھی یہ دیکھ پاتے کبھی تو آتے
…
بڑا سکوں تھا ہمارے دل کو تمھارے دل میں
کہ پھر سے دل سے وہ دل ملاتے کبھی تو آتے
…
سمجھ میں آتا غزل ہماری ہے کس کی خاطر
جو میرے شعروں کو گنگناتے کبھی تو آتے
…
بہت کٹھن ہے بنا تمھارے گزر ہمارا
تم آتے ملنے تو جان پاتے کبھی تو آتے
…
جو تم نہیں ہو تو بکھرا بکھرا ہے گھر ہمارا
اجاڑ گھر میرا پھر سجاتے کبھی تو آتے
…
تمھاری چاہت کی آگ دل میں سلگ رہی ہے
دہکتے شعلوں کو تم بجھاتے کبھی تو آتے
…
یقین ہوگا کہ کس قدر تم کو چاہتا ہوں
مجھے محبت میں آزماتے کبھی تو آتے
…
وفا شعاری میں تم سا کوئی نہیں جہاں میں
یقین جمشید کو دلاتے کبھی تو آتے
تبصرے بند ہیں۔