سماج میں بڑھتی بے راہ روی اور ہماری ذمہ داریاں

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

ابتدائے آفرینش سے جب بھی کسی طرح کی سماجی واخلاقی بے راہ روی پیدا ہوئی، اس کے انسداداور روک تھام  کے لیےاللہ تعالی نے نبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ عرب  شرک وبدعات، زنا کار ی  و بد کرداری اور بد اعمالیوں کے بحر بیکراں میں  غرق تھے، نا روا اعمال اور غیر انسانی  افعال کے مرتکب تھے، بیٹیوں کو باعث عار سمجھتے تھے، ان کے پیدا ہوتے ہی  چہرےسرخ ہو جائے کرتے تھے۔ جیساکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

”وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهَو كَظِيْمٌ* يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءٍ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ“(النحل:۵۹-۵۸)

ترجمہ:”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتاہےاوردل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہےاس بری  خبر کی وجہ سے لوگوں  سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس ذلت کو لیے ہوئے  ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے ؟ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں !“۔

عبد اللہ بن عباس t مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتےہوئے فرماتے ہیں :”زمانہ جاہلیت کے وہ لوگ  جو اللہ کے لیے  بیٹیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لیے  باعث عار سمجھتے ہیں۔ ان میں سے جب کسی ہاں بیٹی پیدا ہوتی، تو اسے   بطور شرمندگی اور عار کے زندہ زمیں بوس کر دیتاتھا“۔ (تفسیر الطبری)

قتادہ بن دعامہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”بچیوں کو زندہ درگورکرنا مشرکین عرب کا عمل ہے، رہی بات مومنوں کی تو ان کے لیے   واجب ہے کہ اللہ کے قضا وقدر پر رضامند ہوں۔ بہت سی لڑکیاں ایسی ہیں جو اپنے اہل وعیال کے لیےلڑکوں سے لاکھ گنا بہترہے“۔ (تفسیر الطبری)

جملہ برائیوں  وبد اعمالیوں کے پیش نظر اللہ تعالى نے ہمارے آخری نبی  جناب محمد ﷺکو نبی بناکر بھیجا تاکہ   عرب میں بالخصو ص اور دنیا میں بالعموم منتشر  بے راہ رویوں اوربد اخلاقیوں  کے   سد باب  کے لیےعملی اقدام کریں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺنے اپنی زندگی کی قلیل ترین مدت میں اسلام کا ڈنکا عرب کی گلیاریوں میں  بجا دیا، اپنی انتھک محنت ومشقت اورجانکاہ  تگ ودو سے اسلام کی حقانیت کو لوگوں کے قلوب واذہان میں راسخ کردیا۔ جب اسلام جیسی نعمت  ہم تک پہونچ چکی ہے تو علما کی بالخصوص اور عوام الناس کی بالعموم ذمہ داری بنتی ہے کہ  اپنے سماج ومعاشرہ میں پنپ رہی برائیوں وبے حیائیوں  کو ختم کرنے کے لیے  اپنی مقدور بھر کوشش کریں، جیساکہ نبی کریم  ﷺکا فرمان ہے:”مَنْ رَأَى مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ“(صحیح مسلم، ح:۴۹) ترجمہ: ”جو شخص تم میں سے منکرات ومنہیات کو”اپنی نظروں "سے دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرے، اگر وہ اس کی طاقت وقوت نہ ہو، تو  زبان سے سمجھائے، اور اگر زبان بھی کھولنے پر قادر نہ ہو تو دل ہی دل میں اسے برا سمجھے۔ کیوں کہ یہ ایمان کا سب سے کمتر حصہ ہے“۔ اس حدیث  کے "من رأى ” سے معلوم ہوتا ہے کہ   برائیوں کے ختم کرنے کاپیغام نبی کریمﷺکی طرف تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے، کسی خاص طبقہ کے لیے خاص نہیں۔

قابل ذکر بات یہ کہ آج حالات یکسر بدل چکے  ہیں۔ لوگوں کو اس قدر بے حسی نے جکڑ لیاہے کہ ان کی آنکھو ں کے سامنے کسی پر ہو رہے ظلم وزیادتی اور جبر وتشدد کو خاموش تماشائی  بنے اپنی چشم بے آب  سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کہاں گئی انسانیت ؟ کہاں گئی مروت؟یقینا ہماری انسانیت وطریقت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ ہماری مروت دم توڑ رہی ہے۔

آج کا سب سے بڑ ا فتنہ یہ ہے کہ  جب کسی بے بس  وفروماندہ   کو برسر بازار  مار ا پیٹا جاتا ہے، اس پرظلم وبربریت اور ستم ظریفی کا پہاڑ توڑا جاتا ہے، تو اس کی وڈیو بنانے والوں کی  بہتات ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ فریقین کے مابین  کوئی صلح وصفائی کرائے۔ سوشل میڈیا  کی وساطت سے اس طرح کے بےشمار  جاں گسل واقعات وحادثات کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ واللہ یہ قو م وملت کی بے حسی کی اعلى درجے کی دلیل ہے۔ اور تو اور بہت سے  ناہنجارایسے ہیں جو اپنی  بیویوں اور رشتہ داروں کی برہنہ تصویریں سوشل میڈیاکے سپرد کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں کرتے، بے حیائی اوربے غیرتی کی ساری حدیں پار کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے شبانہ روز  سماج  ومعاشرہ میں    کج روی  اور ناروا  رہن سہن کا گراف   بڑھ  رہا ہے، سوشل میڈیا سے جوڑے   کم عمر بچے اور نئی نسل کے نونہالان  ان کی بے شرمیوں  کے دام فریب میں پھنستے جارہے ہیں، ایسے  عاقبت نا اندیشوں کے خلا ف  ایکشن لینے کی غایت درجہ  ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی  سماجی واخلاقی  گمراہیوں کا سد باب ہوسکے۔

اگر دیکھا جائے تو نوجوان نسل کی بے راہ روی میں  والدین اورسرپرست   کا  اہم رول ہے، چھوٹی عمر میں اپنی اولاد کو  موبائل  فون یا لیپ ٹاپ ہاتھ میں  دے دیتے ہیں جو اس کے نقصانات اور مضرات سے غافل ہوتی ہیں، اس کے فوائد وطریقہ استعمال سے بے خبر ہوتی ہیں، نیٹ کا  ڈاٹا آن ہوتے ہی راہ راست سے بھٹکانے والی سائٹ میں  داخل ہوجاتی ہیں، غیر جائز، وقت سےپہلے بالغ بنانے  والی حیا باختہ فلموں کو دیکھنے  میں اپنے اوقات صرف کر دیتی ہیں، جو کہ یہ  غیر معمولی بات ہے۔ بنابریں اس امر کو  ہلکا  تصور نہ کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں  والدین اور نگران کی اپنےبچوں  کے روشن وتابناک  مستقیل  کی خاطر   فکر انگیز نصیحتیں ان کو راہ مستقیم پر لانے میں انتہائی مفید ثابت ہوں گی، اورگاہے بہ گاہے  حیات صحابہ اور سلف صالحین کےایمان افروز واقعات اورفکر آخرت سے متعلق  دینی گوشوں سے ان کی ذہن سازی کی جائے ، اچھے ممتاز مدرسے کا انتخاب کیا جائےجن میں ان کی تربیت اور تہذیب اچھے اسلوب میں ہوسکے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی حرکات وسکنات پر دھیان  رکھا جائے، بری مصاحبت سے دور رکھا جائے تاکہ ان کی نشونما بہترین طرز پر ہوسکے۔

اللہ ہم سب  کو اپنی ذمے داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے  اور فکری کج رویوں سے کوسوں دور رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔