پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا!
محمد خان مصباح الدین
اس وقت سوشل میڈیا پر تقریباً70 فیصد وقت محض حرام، لغو اور فضول امور کیلئے مختص ہے۔ عورتوں میں بے راہ روی کو عام کرنے کیلئے مقابلہ حسن، بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کیلئے کارٹون‘ فلمیں اور گیمس۔برائیوں کو مزید فروغ دینے کیلئے فلمی ستاروں کو آشکار اور بہترین ادا کاری کے ایوارڈ‘ اسی طرح کھیل عام کرنے کیلئے بڑی بڑی انعامات وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں ,یہ یہود و نصاریٰ کی شرارتیں تھیں غرضیکہ ذرائع ابلاغ فکرِ اسلامی ہی نہیں بل کہ انسان کو ہلاک و برباد کرنے کیلئے، اس وقت ’بہترین آلہ ‘ہے اور ہر طرح کے ذرائع ابلاغ پر مکمل رسوخ یہود و نصاریٰ کو حاصل ہے۔
دنیا میں جتنی بڑی اور اہم خبرساں ایجنسیاں مصروف کار ہیں ’سب یہود و نصاریٰ ہی کے قبضہ میں ہے۔عام لوگ تو محض بی بی سی اورسی این این وغیرہ تک متعارف ہیں جبکہ ان کی بنیاد پر بےشمار اخبارات حقائق کوگمراہ کن انداز میں توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کیخلاف بے جا الزام تراشی ان کا وطیرہ بن چکی ہے، کبھی اسلام کیخلاف، کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیخلاف، کبھی قرآن مجید کیخلاف، کبھی، کبھی اسلامی طریقہ حدود و تعزیرات کیخلاف، کبھی خلافت اسلامیہ کیخلاف، کسی نہ کسی اندازسے زہر افشانی ہوتی رہتی ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ دنیا میں فحاشی اور عریانی کو عام کرنے کیلئے ہالی ووڈ، بالی ووڈ، ٹالی ووڈ کے نام سے بڑی بڑی فلم انڈسٹریاں متعارف کروا دی گئی ہیں جو عریانی‘ قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی، اغوا، ظلم وستم کے نئے نئے طریقے دکھاکر نہ صرف معاشرہ کو تباہ کررہے ہیں بلکہ عقائد کو بگاڑنے کیلئے آواگون، باطل معبودوں کی فرضی طاقت، جادو گری وغیرہ کے مناظر سے گمرا ہ کرنے پر تلے پوئے ہیں ۔
انٹرنیٹ پر لاکھوں ایسی ویب سائٹیں لانچ کردی گئی ہیں جو جنسی انار کی کے فروغ میں نمایاں کردار کی حامل ہیں ۔ رہی سہی کسراسمارٹ موبائل فونوں نے پور ی کر دی ہے۔، سی ڈیCD، اور ڈی وی ڈیDVD کے زوال کے بعد میموری کارڈ جیسے ڈیجیٹل ڈاٹا سے خرابیوں کوہوادی جا رہی ہے۔مختصر یہ کہ ذرا ئع ابلاغ، گویا ذرائع ابلاغ جہنم بن چکے ہیں ۔انسانوں کا ایک جم غفیر عبرت کا نمونہ بن کر بے جا لذتوں میں ایسامبتلا ہوا ہے کہ اپنی عاقبت اور آخرت کی بربادی روکنے سے قاصر ہے۔ قارئین کرام!
آج نہ صرف فردبلکہ من حیث القوم، ہمہ جہت زوال کا شکار ہے‘ اقدارملیا میٹ ہو گئی ہیں ‘ مفاد پرستی کا غلبہ ہے‘ سفلی جذبات اور نفسانی محرکات کو انگیخت کرنے والے عوامل گویا تحریک کی صورت اختیار کرچکے ہیں ۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پسے ہوئے اور مظلوم طبقات بے چین ہی نہیں بلکہ منفی نفسیات کے شکار ہو رہے ہیں ۔ خاندان باہمی الفت اور اعتماد سے محروم ہو رہے ہیں ۔ نئی نسل ناراض نسل ہے، وہ شکایتی لہجے میں بولتی اور عمل کرتی ہے۔ دولت، اقتدار اور شہرت آج سب کی منزلیں ہیں ۔ ’عزت‘ ان سے ایسی وابستہ ہو گئی ہے کہ ٹی وی سیٹوں ‘ڈشوں اورایف بی فرینڈوں کی تعداد سے اسٹیٹس کا اندازہ لگایا جارہا ہے ۔ علم و ہنر اور بر و تقویٰ، باعث شرف نہیں رہے۔ جس کے پاس جتنی دولت اور آسائشیں میسر ہیں ، وہ ’بڑا ‘ اور’معتبر‘آدمی‘ ہے، خواہ وہ اپنے معبود حقیقی اور معاشرہ کاکتنا ہی بڑا مجرم ہو۔ جس کا اثاثہ محض شرافت، دیانت اورایمانداری ہے، وہ ہیچ اورپست ہے۔لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ مذہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے جس کے علمبرداروں کو امن و آشتی اور حب و الفت کا پیام بر ہونا چاہئے تھا، ان کی زبانوں پر دشنام اور ان کے ہاتھوں میں مہلک اسلحہ ہے۔ عفو و درگزر اور رواداری تودرکنار‘ایسے لوگ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کیلئے بھی تیار نہیں ۔صورتحال اتنی نازک ہے لیکن ذرائع ابلاغ اس کی درستی کی بجائے بگاڑ کاذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔
انھوں نے عورت کے حسن و جمال کو جنس تجارت بنا لیا ہے۔ ان کے ہاں اس کی پذیرائی کم ہی علوم وفنون اور شعر و تخلیق کے حوالہ سے ہوتی ہے۔ بالعموم، اس کا کام عشوہ ترازی اور غمزہ و ادا سے لوگوں کیلئے جذب و کشش اور تفریح کا سامان بننا ہے۔عشق و محبت کے مضامین کتابوں تک محدود نہیں رہے، شب و روز کا موضوع بن گئے ہیں ۔ وہ باتیں جو ایک خاص عمر میں پہنچ کر دسترس میں آتی تھیں ، انھوں نے اب لوری کی جگہ لے لی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ رشتے جن کی اساس ہی حیا پر رکھی گئی ہے، بتدریج محرومی کی جانب گامزن ہیں ۔ ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن غرض رشتوں کا تقدس اب ماضی کی چیزبن گئی ہے۔اخبارات و رسائل کا مطالعہ کریں ، ریڈیو سنیں یا ٹی وی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے دنیا کے اہم ترین لوگ صرف کھلاڑی اور اداکار ہیں ۔کسی معاشر ہ میں اصحاب علم و فن، مفسر و محدث ,مفکر ومدبر,انشاء پرداز اورارباب شعر و ادب کو جو مقام حاصل ہونا چاہئے، وہ انھیں حاصل ہے۔ سوشل میڈیا نے انھیں نو نہالوں کا آئیڈیل بنا دیا ہے۔ یہ اور ان کی کامیابیاں اس طرح پر کشش بنا دی گئی ہیں کہ اب نوجوان طبقہ سے علوم و فنون کی طرف رغبت کی توقع کرنا مشکل ہے۔خبر کی ترسیل اور صحت مفادات سے وابستہ ہے۔ سیاسی واقعات اور جرائم کی خبروں کو سنسنی خیز طریقے سے شائع کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ٹی وی اور فلم نے عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول کیلئے تحریک چلا رکھی ہے۔ مجرمانہ سرگرمیاں اور مجرموں کی دیدہ دلیریاں پردہ سیمیں کی زینت بنا دی گئی ہیں ۔ معاشرہ کی تصویر کشی کے دانشورانہ تصور کے تحت جو کچھ دکھایا جاتا ہے، اس سے ان کی بیخ کنی ہونے کی بجائے ان کی تربیت کا کام ہو رہا ہے۔
یہ سنگینیاں متقاضی ہیں کہ یہ ذرائع ابلاغ اصلاح احوال کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف یہ کہ اپنا اصل کام انجام دیں ، بلکہ ایک صالح نظریاتی طبقہ اپنی زائد ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہو۔ ان کا اصل کام یہ ہے کہ یہ صرف انہی حقائق کی ترسیل اور ابلاغ کا ذریعہ بنیں ، جو فی الواقع حقائق ہوں اور ان کا بیان کرنا انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی نہ ہو۔ رائے عامہ کی تربیت کا کام ایسے اسلوب میں کریں کہ ان کے اندر مثبت سوچ اور مثبت جذبات پیدا ہوں ۔یہ ایسے علوم و فنون کے سکھانے کا کام سرانجام دیں جو لوگوں کیلئے مفید ہوں ۔ اور اس سے ان کی روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ اب بھی اخبارات اور بطورخاص ریڈیو اور ٹی وی سے ایک حد تک یہ کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں نہ نشان منزل متعین ہے اور نہ طریق کار میں ہم آہنگی اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جائے۔
معاشرہ میں کچھ لوگ اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت کے باعث ممتاز ہوتے ہیں ۔ یہ ذرائع ان کی قدر شناسی کریں ۔ ان کی مہارت اور صلاحیت سے معاشرہ کو روشناس کرائیں ۔ ان کے کام اور تخلیقات کے موثر طریقہ سے معاشرہ تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بلکہ نئی نسل میں انھی کاموں میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور یہ دونوں پہلو انتہائی اہم ہیں ۔
نظر بہ نظر!
آج سوشل میڈیا پر ایک عجیب سی چیز برابر دیکھنے کو ملتی ہے کہ تقریبا 75فیصد لوگ بدکلامی کے شکار ہیں جب بھی کہ کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو وقتی طور پر سب کے ایمان جاگ اٹھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس طرح سے لفظوں کے تیر چلاتے ہیں گویا وہ سب کچھ اپنی باتوں کے ذریعہ کر لینگے,اور دنیا کے مسلم حکمرانوں کو ایمان اور اسلامی تعلیمات کی دہائی دے کر خوب زہر افشانی کرتے ہیں اور جذبات میں آکر اس ملک کے قوانین وضوابط کو بھول جاتےہیں جس ملک کی آغوش میں انکا وجود پناہ گزیں ہوتا ہے اور یہ بھی بھول جاتے ہیں لوگ آپ کی لکھی اور کہی چھوٹی بڑی ہر باتیں یہاں تک کہ جو آپ سوشل میڈیا کے حاشیے پر لکھتے ہو اس پر بھی فتنہ پرور لوگوں کی برابر نظر ہے اور جب بھی ایسے لوگ ایک بھی شوشہ مسلمانوں کے تعلق سے پاتے ہیں تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسکی تعلیمات تک کو بدنام کرتے ہیں اور اس پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں اس لیے ہماری ذمہ داری ہیکہ مذہب کے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے آئین کا بھی لحاظ رکھیں اور جذبات میں آکر بالکل بہہ نہ جائیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے چیخنے اور چلانے سے دنیابھر کے اسلامی ممالک کسی پر حملہ نہیں کرینگے کیونکہ عالمی آئین کے تئیں انکے اوپر بھی کچھ اصول ضوابط ہیں اسلیے ہمیں اگر اپنی بات رکھنی ہو تو نہایت سنجیدگی اور لفظوں کا موازنہ کر کے اور ملک اور اسکی آئین کا لحاظ رکھ کر کریں تاکہ ہماری باتوں سے کسی کو ٹھینس نہ پہونچے,ہم بالکل اپنی بات رکھ سکتے ہیں مکمل حقوق کے ساتھ کیونکہ ہمارا جمہوری ملک ہمیں اپنی بات رکھنے کا مکمل اختیار دیتا ہے مگر حدود میں رہ کر.
ہر ایسامسلمان جو اس طرح کی لفاظی سوشل میڈیا پر کرتا ہے اس سے میری گزارس ہیکہ اللہ کے واسطے آپ پوری قوم کو بدنام نہ کریں ,
کرنے والا ایک شخص ہوتا ہے مگر اسکی وجہ سے پوری قوم مصائب کا شکار ہوتی ہے اور بدنامی پورے سماج اور مذہب کی ہوتی ہے اسلیے اس سے پرہیز کریں اور امن کو قائم رکھیں . اللہ ہم سب کا معاون ومدگار ہو آمین.
جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا
مدّتوں سوچنا، مختصر بولنا

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔