کیا اسے انصاف کہا جاسکتا ہے؟

حفیظ نعمانی

ممبئی کے ایک بہت بڑے گروپ کا اسکول گڑگاؤں میں ہے وہاں 8 ستمبر کو ایک سات سالہ بچے پردیومن کا قتل ہوگیا۔ قتل کے الزام میں فوری طور پر اسکول کی بس کے کنڈکٹر کو گرفتار کرلیا گیا اور اس نے اپنا جرم قبول کرلیا۔ عام طور پر ایسے حالات میں اقبال جرم کے بعد بات ختم کردی جاتی ہے اور پھر عدالت میں کچھ دنوں بحث کے بعد اسے سزا دے دی جاتی ہے۔

لیکن اسکول ایک بہت بڑے گروپ کا ہے اور جس بچہ کا قتل ہوا وہ بھی بہت بااثر خاندان کا بچہ ہے اور شہرت یہ ہے کہ اسکول کی فیس ایک لاکھ روپئے ہے اس لئے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ بھی اتنی سی بات پر معاملہ ختم کردیا جاتا؟ اور پھر اسکول کے نگراں فرانسس تھامس کو بھی گرفتار کیا گیا کہ بچوں کی حفاظت کا انتظام معقول کیوں نہیں کیا گیا تھا اور بھی گرفتاریاں ہوئیں اور اسکول بند کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد ریاستی حکومت نے تین مہینے کے لئے اسکول کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور ایس آئی ٹی کے ذریعہ پورے معاملے کی نئے سرے سے تحقیق کرائی۔ بچہ کا باپ سپریم کورٹ چلا گیا اور وہاں سے حکم جاری کرا دیا کہ اب پورا مقدمہ سی بی آئی کو دے دیا جائے وہ تحقیق کرکے بتائے کہ قصور کس کس کا ہے؟

صرف دس دن کے عرصہ میں پولیس نے پورے مقدمے کی تفتیش کرلی اور چارج شیٹ بھی تیار کرلی اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پورا مقدمہ تیار کرلیا ہے۔ لیکن اس کی بات سننے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔

اسکول کے نگراں فرانسس تھامس کی ضمانت کے لئے ان کی بیگم نے وکیل کے ذریعہ درخواست دی جسے عدالت نے مسترد کردیا فرانسس کی بیوی نے عدالت سے کہا کہ میرے شوہر کی بات اسکول کے بڑے افسر نہیں سنتے تو عدالت نے خود جواب دیا کہ تو پھر وہ ربڑ کی مہر بنے کیوں بیٹھے ہیں؟ انہیں غلط کاموں کے لئے آواز اٹھانا چاہئے تھی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ذرا اس بچہ کی ماں کا حال دیکھو جس کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا اور درخواست خارج کرکے جیل بھیج دیا۔

دس دن کے بعد جب اسکول کھلا تو اسکول میں ویرانی نظر آرہی تھی صرف بڑے کلاس کے بچے آئے چھوٹوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ یہ واقعہ اپنی جگہ بیشک بہت اہم ہے وہ بچہ بھی قدرت کا شاہکار تھا بہت اچھی صحت اور بہت اچھی صورت لیکن موت بہرحال موت ہے۔ اور یہ ہر کسی کو ماننا پڑے گا کہ وہ اتنی ہی زندگی لے کر آیا تھا۔

ایک واقعہ مئی کے مہینے کی آخری تاریخوں کا ہے کہ جودھ پور کے جانوروں کے میلے سے بہت زیادہ دودھ دینے والی چند گائیں خرید کر میوات کے ایک شہر میں دودھ کا کاروبار کرنے والا ایک خاندان لے کر آ رہا تھا۔ سابق ریاست الور میں چند غنڈوں نے ان کی گاڑی روکی اور معلوم کیا کہ یہ گائیں کہاں لے جارہے ہو۔ انہوں نے بازار کی رسیدیں دکھائیں کہ ہم خرید کر لارہے ہیں اور دودھ کے لئے ہیں وہ پیشہ ور غنڈے تھے کہنے لگے کہ تم کاٹنے کے لئے جارہے ہو اور انہیں گاڑی سے نیچے اتار لیا۔ موقع پر موجود پولیس کو بھی دکھایا کہ یہ رسیدیں ہیں لیکن راجستھان کی پولیس بھی بھگوا غنڈوں کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔ اور پھر وہ دردناک واقعہ پیش آیا کہ پہلو خاں نام کے ایک مسلمان کو جان سے مار دیا۔ اس واقعہ کے وقت نہ جانے کتنے لوگ موجود تھے جنہوں نے دیکھا آس پاس کے دکانداروں نے بھی دیکھا اور گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن ان غنڈوں کے خلاف کوئی ہندو سامنے نہیں آیا۔

اس دردناک واقعہ پر وزیراعلیٰ وجے راجے سندھیا تو کیا ان کا کوئی وزیر بھی نہیں بولا۔ اس واقعہ کی طرف سے پوری ریاست اور ملک کی بے نیازی پر جب پارلیمنٹ میں اسے اٹھایا گیا تو ایک نائب وزیر مختار عباس نقوی نے جواب دیا کہ ان سب کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان پر اتنی سنگین دفعات لگائی گئی ہیں کہ اب تک ان کی ضمانت بھی نہیں ہوئی ہے ان کے اس جواب پر بی جے پی کے ممبروں نے میزیں بجاکر انہیں شاباشی دی اور وزیراعظم نے انہیں کابینی وزیر بنادیا۔

چند دن پہلے یہ خبر آئی کہ وہ مقدمہ سی آئی ڈی کو دے دیا گیا اور شاید اسے حکم دے دیا گیا کہ ان گائے زادوں کو باعزت بری کرادو اور سی آئی ڈی جس کی حیثیت ہر ریاست میں دو کوڑی کی ہے اس نے سب کو کلین چٹ دے دی۔ اور بتادیا کہ وہ سب گئو شالہ میں اس وقت تھے۔ یہ نہیں بتایا کہ کیا کررہے تھے؟

پورے ملک میں ہزاروں واقعات ہوتے ہیں لیکن کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ ہماری تحقیقات سی آئی ڈی سے کرالی جائے اس لئے کہ اسے سب جانتے ہیں کہ ان کی گذربسر تنخواہ پر ہوتی ہے اور پولیس میں ہوتے ہوئے بھی انہیں رشوت نہیں ملتی۔ سی آئی ڈی میںتین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو رشوت خور، حرام خور اور کام چور ہوتے ہیں یا بہت ایماندار اور وہ اس لئے جاتے ہیں کہ جب رشوت نہیں لینا تو رات دن محنت کیوں کریں؟ یا وہ ہوتے ہیں جن کی بھرتی ہی سی آئی ڈی میں ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ تھوڑی سی رشوت یا حکومت کی ترقی سے ضمیر فروشی کردیتے ہیں۔

پہلو خاں نے نزاعی بیان میں چھ غنڈوں کا نام لیا تھا۔ جن کے فرار ہونے کے بعد پولیس نے ان کا پتہ بتانے والوں کو انعام کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن نہ پولیس کی بات بنی نہ نقوی صاحب کی یہ بات صحیح ہوئی کہ ان پر سنگین دفعات ہیں۔ اور سی آئی ڈی نے انہیں گئوشالہ میں  دکھاکر کلین چٹ دے دی۔ پہلو خاں کے بیٹے ہائی کورٹ جارہے ہیں وہاں بھی شاید انہیں کچھ نہ ملے انہیں تو سیدھے سپریم کورٹ جانا چاہئے۔ ٹھاکر پردیومن عمر سات سال اور پہلو خاں عمر 65  سال ایک ہندو کا بیٹا ایک مسلمان بچوں کا باپ اور پولیس، ایس آئی ٹی سی آئی ڈی حکومت اور عدالت کے رویوں میں اتنا فرق؟ اسے تو صرف سپریم کورٹ ہی سمجھائے گا۔ اس لئے وہیں  جانا چاہئے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ثابت کردیا کہ ان کے پاس ہندو اور مسلمان کو تولنے کے ترازو اور باٹ الگ الگ ہیں۔ ہندو کا ہو تو سی بی آئی سے کم ہر ایجنسی دو کوڑی کی ہے اور مسلمان کا معاملہ ہو تو سب سے کمزور اور بدنام سی آئی ڈی بھی کافی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔