ملّتِ اسلامیہ ہند کی اصلاحِ حال اور ہمارا کردار (تیسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ.ترتیب: عبدالعزیز

   جدید تعلیم اور تسخیر فطرت:

جدید تعلیم نے مغرب سے ایک بنیادی نقطہ نظر یہ مستعار لیا ہے کہ تعلیم کا مقصد تسخیر فطرت ہے، وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ معاشی دوڑمیں کامیابی ہے۔ اس کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج میں ہر طرف معیارِ زندگی کی مجنونانہ دوڑ ہے۔ اس دوڑ میں اخلاق تو پامال ہورہے ہیں، انسانیت بھی کچلی جارہی ہے۔ انسانی روابط، مثلاً شوہر اور بیوی کا تعلق، باپ بیٹے کا تعلق، استاد اور شاگرد کا تعلق، پڑوسی اور پڑوسی کا تعلق، سب کو اب مادی فوائد سے ناپا جاتا ہے۔ جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کیلئے بدعہدی، خیانت، دھوکہ دہی، بے رحمی اور ظلم و استبداد سب کچھ روا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ تعلیم نے انھیں یہی سکھایا ہے کہ فنی مہارت اور علم در اصل دولت کے حصول کا موثر ترین وسیلہ ہے۔

جدید تعلیم اور اباحیت:

اس تعلیم نے مغرب سے اباحیت بھی درآمد کی ہے۔ مائیکل جیکسن شو ہو یا بیوٹی کونٹسٹ ، سرسوتی دیوی کی ننگی پینٹنگ یا سٹیلائٹ ٹی وی، شہوانیت انگیز گانے ہوں یا جین اور کولا کلچر، یہ سب اباحیت کے مظاہر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ دنیوی تعلیم ان خبیث نتائج کی ذمہ دار نہیں ہے اور یہ ثمرات خارجی اثرات سے مرتب ہوتے ہیں بلکہ وہ اس ذہنیت کو غذا دیتی ہے۔ مائیکل جیکسن کے ممبئی شو کے موقع پر ایک چودہ سالہ لڑکی بلا وجہ دیوانی ہوگئی تھی؛ بلکہ اس کی تعلیم نے اس کی اباحیت زدہ کلچر کی آبیاری کی تھی۔ اب سیکس کی تعلیم اسکولوں کے نصاب میں داخل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور بعض اسکولوں میں جہاں یہ تعلیم جاری کر دی گئی ہے، کچھ ٹیچر کلاس میں اپنے ہم جنسی تجربات بیان کرتے ہیں۔ خام جذبات میں اشتعال پیدا کرنے والی یہ تعلیم جنسی جرائم کا محرک بنتی ہے۔ اخلاقی اقدار کی پامالی کی تحریک پیدا کرتی ہے؛ چنانچہ اب بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اخباری رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے اور بچیوں کے جنسی استحصال میں قریبی اعزاء کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اباحیت پسندی محض جنسی آزادی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ہر قید و ضابطہ کی مخالف ہے۔

جدید تعلیم صرف ذہنی قوتوں کو جلا دیتی ہے:

جدید تعلیم کا ایک اہم رخ یہ بھی ہے کہ وہ محض ذہن و فکر کی جلا کو تعلیم کا مقصد قرار دیتی ہے؛ چنانچہ ایک عرصہ تک مغربی مفکرین نے طالب علم کی ذہنی صلاحیت اور فطری استعداد کو جلا دینا تعلیم کا مقصد قرار دیا تھا۔ اگر چہ ادھر کچھ عرصے سے ماہرین تعلیم اب کردار سازی کو بھی تعلیم کا اہم مقصد قرار دینے لگے ہیں، لیکن درسیات اور علم مشمولات میں کردار سازی بطور ضمیمہ شامل ہے۔ چنانچہ اس تعلیمی نظام میں اجتماعی مقاصد کی جگہ ذاتی منفعت کو اصل حیثیت حاصل ہے۔ فرد کی معقولیت ایثار نہیں بلکہ ذاتی افادہ کی بڑھوتری قرار دی جاتی ہے۔

 اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ دنیوی تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد، عصری طرزِ تعلیم اور اس نصابیات اور اس کی ترجیحات کی اندھی تقلید کرکے ملت اسلامیہ اس عمومی فساد کا جزو بن جائے گی، خود بھی اس میں ملوث ہوجائے گی اور عام ہندستانی سماج میں اس کے پھیلاؤ میں ممد و معاون ہوگی۔ موجودہ دور کے نظام تعلیم کی ناگزیریت تسلیم، لیکن اس کا یہ مفہوم لینا کہ اس کی اندھی پیروی کرنی چاہئے؛ نہ صرف یہ کہ اصلاً غلط ہے بلکہ ان بنیادی قدروں سے دست بردار ہونے سے عبارت ہے جو اس امت کی زندگی کی ضمانت ہیں۔

 عصری تعلیم اور دین و اخلاق کا امتزاج:

دین و اخلاق اور دنیوی تعلیم اور فنی مہارت کا امتزاج محض ایک خیالی تصور نہیں ہے بلکہ ملت اسلامیہ کے ماضی کی شاندار روایات اس کی شہادت دیتی ہیں۔ اگر آپ اس تاریخ میں بہت دور نہ جانا چاہیں تو اندلس (اسپین) کی تاریخ دیکھ لیجئے جہاں کی جامعات میں یورپ کے طالب علم جوق در جوق آتے تھے اور قانون، ریاضیات، علم ہیئت، ہندسہ انجینئرنگ(Engineering)، طب، نیوی گیشن (Navigation) وغیرہ علوم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس نظام تعلیم میں اخلاق، دین اور دنیوی تعلیم الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں تھی۔ صرف درس و تدریس کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی دنیا میں بھی دین اور دنیا کے علوم کا امتزاج ملتا تھا۔ عالم دین، طبیب بھی ہوتا تھا۔ قانون داں بھی اور اکثر اوقات ریاضیات اور علم ہیئت کا عالم بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اختصاص اور مہارت کے تقاضے کے تحت کسی فرد کا علمی اور تحقیقی مرتبہ کسی خاص شعبہ میں زیادہ ہوجاتا تھا۔ ان اداروں میں تسخیر کائنات کیلئے طبیعی علوم حاصل نہیں کئے جاتے تھے بلکہ خالق کائنات کی قدرت اور اس کے فیضان کا مطالعہ محرک بنتے تھے اور ذات کی خدمت کے مقابلے میں انسانیت کی خدمت اعلیٰ اور ارفع قدر سمجھی جاتی تھی۔ بحیثیت مجموعی علم کا حصول کسب معاش کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کو انسان بنانا سمجھا جاتا تھا۔ بعض لوگ اس امتزاج کو موجودہ دور میں ناممکن قرار دیتے ہیں، اس لئے کہ علم کی سرحدیں بہت وسیع ہوگئی ہیں۔ اس لئے کسی فرد کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ دینی اور دنیوی دونوں علم میں درک حاصل کرسکے، مگر یہ اعتراض اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ دونوں طرح کے علوم میں بیک وقت مہارت اور یکساں درک کی تجویز پیش کی جارہی ہے؛ حالانکہ اس امتزاج کا مقصود یہ ہے کہ دین و اخلاق کی بنیادی تعلیمات ہر شخص کو دی جانی چاہئے اور حصولِ علم کے مقاصد میں مادہ پرستی اور خود غرضی کے بجائے، اخلاق، انسانیت دوستی اور سماج و ملک کی خدمت کو قرار دینا چاہئے۔

 دو کام:

موجودہ صورت حال میں امت مسلمہ ہند نہ تو اس موقف میں ہے کہ وہ عصری نظام تعلیم کو بدل دے اور نہ یہی ممکن ہے کہ وہ اس سے قطع تعلق کرلے۔ اس لئے صرف دو کام بطور متبادل نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کیلئے کئے جانے چاہئیں۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ دینی مدارس کا طرز تعلیم اور نصابِ تعلیم میں ایسی تبدیلی کا آغاز کیا جائے کہ وہ اسلامی اقدار اور افکار کا آئینہ دار اور ضامن بھی ہوں اور عصری تعلیم کی بہترین تدریس بھی کرسکیں۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے تو ان مدارس کے نصاب سے علم کلام، فلسفہ، منطق جیسے موضوعات کو خارج کردینا چاہئے۔ قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم کو مرکز توجہ بنانا چاہئے اور فقہ کی بنیادی تعلیم کے علاوہ اس میں مہارت کو اختصاص کی سطح پر لانا چاہئے ۔ ساتھ ہی عربی زبان و ادب میں اختصاص حاصل کرنا چاہیں ان کو یہ اختیار دینا چاہئے۔ اگر یہ تبدیلی کی جائے تو عصری علوم اور فنی مہارت کی تعلیم کو درسیات میں مناسب جگہ مل سکتی ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ ملت اپنے انتخاب کے تحت جدید کالج یا تعلیمی مراکز قائم کرے، ان میں دین و اخلاق اور اسلامی افکار کی تعلیم کو بطور ضمیمہ شامل کرنے کے بجائے اس کو اصل نصاب تعلیم و تربیت کا کلیدی جزو بنایا جائے۔ عصری جامعات کی بے بصیرت تقلید ممکن ہے مسلمانوں کی معاش کا مسئلہ کسی درجے میں آسان بنا سکے لیکن وہ نہ ملت کی تعمیر اور تجدید میں کوئی امتیازی رول ادا کرسکتے ہیں اور نہ اخلاق و دیانت سے محروم اور خود غرضی، نفسیات اور مادہ پرستی پر مبنی ہندستانی سماج کی کوئی امتیازی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے بعض مخلص دانشور اور مصلحین مسلمانوں کی علمی ترقی کیلئے جدید تعلیمی ماڈل اور پیٹرن (Pattern) کو اختیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان اس مادہ پرستانہ دوڑ میں کارگر رول ادا کرسکے جو جدید دنیا کی خصوصیت بن چکا ہے۔

 مگر دینی مدارس اور جامعات اس جدوجہد کے سرخیل بن سکتے ہیں؛ بشرطیکہ ملت اسلامیہ ہند کے درد مند مصلحین اور مخلص دانشور ان جامعات پر کم از کم اتنی توجہ دیں جو وہ جدید کالج اور انسٹیٹیوت کے قیام پر دے رہے ہیں۔ ان جامعات کا مسئلہ صرف اتنا ہی نہی ہے کہ ان کا طرز تعلیم اور ان کا نصاب عصری ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے یا یہ کہ اس میں کسی اہم تبدیلی کی مخالفت کی جاتی ہے بلکہ اس سے اہم تر مسئلہ یہ ہے کہ یہ جامعات وسائل کی حد درجہ کمی کا شکار ہیں۔ ان میں مالی اور افرادی دونوں طرح کے وسائل شامل ہیں۔ ان کے مالی وسائل کا مدار امت کی خیرات اور صدقات پر ہے، جس کی کمی کی وجہ سے وہ تعلیمی اور تدریسی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ عصری پروفیشنل ادارے قائم کرنے کیلئے تو ملت کے دانش ور کروڑوں کے منصوبے بناتے ہیں لیکن ان کو اس جدوجہد سے خارج سمجھتے ہیں۔

آج کے ہندستان میں دینی مدارس اور جامعات کی ایک بڑی تعداد اصولاً عصری تقاضوں کا لحاظ کرنے کیلئے آمادہ ہے، لیکن وہ قلت وسائل کی وجہ سے اہل اور ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دینی مدارس کے اساتذہ بالعموم نہایت قلیل مشاہروں پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان پر اتنا تدریسی بوجھ ہوتا ہے کہ جس کا تصور بھی عصری کالجوں کے اساتذہ کیلئے محال ہے۔ اگر ملت اسلامیہ کو اپنا دینی اور ثقافتی تحفظ عزیز ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کو اس کی معاشی بے چارگی سے نجات بھی دلانا چاہتے ہیں تو ان کو ان مدارس کو مالی وسائل اور افرادی قوت فراہم کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ پہلے سے موجود قابل قدر سرمایہ کو نظر انداز کرنا اور ان کو اپنی بے بصیرتی سے ضائع کر دینا، نہ حکمت ہے اور نہ دانش وری۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔