علی گڑھ سے طلوع ‘فکرِ نَو’!

عالم نقوی

اس زمانے میں کہ جب اُردو کے قاری با لخصوص سنجیدہ قاری مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں علی گڑھ سے ایک نئے ماہانہ  علمی جریدے کے اِجرا  کی ہمت اگر باعث حیرت ہے تو بلا شبہ قابل داد و مبارکباد  بھی  اِس لیے  ہے کہ اُس کے بانی  ایڈیٹر ،پرنٹر پبلشر پروفیسر ریاض ا لرحمن شروانی  ماشا اللہ عمر عزیز کی آٹھویں دہائی پار کر چکے ہیں اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نائب صدر کی حیثیت سے اُس کے ترجمان جریدے ماہنامہ ’ کانفرنس گزٹ ‘کے ’’مستقل مُدیر ِمعنوی ‘‘بھی ابھی تک  وہی رہے   ہیں !جس میں شایع اُن کے  وقیع اور قیمتی اِداریوں کا  ایک ضخیم مجموعہ’’شذرات ِریاض شروانی ‘‘ کے نام سے  طبع شدہ  موجود ہے ۔اگلے مہینے17 اکتوبر 2017 کو  سر سید کی ولادت کے دو سو سال پورے ہورہے ہیں ۔ صرف  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی  میں نہیں کم و بیش پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اِس مادر علمی کے اَبنائے قدیم موجود ہیں یہ سال (اَز 17 اَکتوبر 2016 تا 17 اَکتوبر 2017) خصوصی پروگراموں اور یادگاری مجلوں کی خصوصی  اشاعتوں سے عبارت رہا ہے ۔

اسی پس منظر میں ’فکر نَو ‘ کے بنیادی نظریات کا اِحاطہ کرتے ہوئے پروفیسر شروانی  اُس کے دوسرے شمارے (ستمبر 2017) میں لکھتے ہیں کہ’’اِس کا پہلا مقصد سر سید احمد خان کی سائنٹفک سوچ کا اِحیا ہے۔ سائنٹفک سوچ کا مطلب ہے مسائل کو عقل کی روشنی میں حل کرنا اور روایت کا پابند ہو کر نہ رہ جانا ۔مسائل مَرُور ِ اَیّام کے ساتھ بدلتے  رہتے ہیں۔ جو مسائل سر سید کے زمانے میں تھے اب وہ نہیں ہیں ۔۔لیکن سر سید کا مجوزہ نسخہ آج بھی اُتنا ہی کارگر ہے جتنا اسوقت تھا (کہ) اس کے لیے مسلمان نوجوانوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کرنا ضروری ہے جو اُن میں عقل و فہم کی نشو و نما کر سکے اور اُنہیں رَوشَن خیال بنا سکے۔۔ سر سید ۔۔کے بعض اَفکارو اَعمال پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اَن پر فرقہ پرستی کا الزام کبھی عائد نہیں کیا جا سکا ۔۔اس پس منظر میں (یہ نیا ماہانہ جریدہ ) ’فکر ِ نَو ‘ فرقہ پرستی اور ذات پات کے بھید بھاؤ سے ہمیشہ بالا تر رہے گا ۔اِس کا مسلک بس اِنسانیت دوستی ہے ۔‘‘

بزرگ محترم ریاض ا لرحمن شروانی نے نیشنلزم  اور سیکولرزم کے تعلق سے جو باتیں لکھی ہیں وہ دلچسپ ہی نہیں ،بطور حکمت عملی ،قابل ِغور بھی ہیں ۔اُن سے علمی ،فکری یا اُصولی اِختلاف کی(حکمت عملی کی نہیں ) گنجائش ہونے کے باوجود، ہم اپنے ذہین و با خبر قارئین کی صواب دید پر چھوڑتے ہوئے ذیل میں سرِِ دَست، اُسے بلا تبصرہ، مِن وَ عَن ،نقل کیے دے رہے ہیں ۔ کیونکہ عدم ِبرداشت ،غیر رَوَادَارِی اور تنگ نظری  بلکہ فکری و عملی  دہشت گردی اور فسطائی ڈکٹیٹرشپ کے معنوی و عملی احیا  کے  اِس عہدِ نافرجام  میں ، ہم ،بہر حال و بہر صورت ،’آزادی اظہار ‘ اور رائے کی آزادی کے قائل اور مؤید ہیں ۔  وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔

’’سیکولرزم کی اصطلاح سر سید کے دور میں کیا ،حصول ِ آزادی سے قبل تک ہمارے ملک میں رائج نہیں تھی ۔ جسے اب سیکولرزم کہتے ہیں اُس وَقت (اُسے ) نیشنلزم کہتے تھے ۔ وہ نیشنلزم نہ ’’وطنیت ‘‘ (وطن پرستی ) تھا اور نہ آر ایس ایس کا ثقافتی نیشنلزم ۔ مولانا ابو ا لکلام آزاد نیشنلسٹ مسلمانوں کے امام تھے ۔ اُن کا، 1940 کا، کانگریس کا خطبہ صدارت ،پڑھ لیجیے آپ کو نیشنلزم کا مفہوم بخوبی معلوم ہو جائے گا ۔ ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ۔ اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ، اُس کی تعلیم ،اُس کی تہذیب، اُس کی روایات میرا ورثہ ہیں اور میں تیار نہیں کہ اُس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ ضایع ہونے دوں لیکن اُسی کے ساتھ زندگی کی حقیقتوں نے مجھ پر یہ واضح کر دیا ہے کہ میں ہندستانی ہوں ۔ میں نے ہندستان کے کھیتوں میں اُگا ہوا اَناج کھا کر ،اُس کے دریاؤں میں بہتا ہوا پانی پی کر ،اُس کی ہواؤں میں سانس لے کر زندگی گزاری ہے ۔‘‘(اس لیے اُس کے بھی مجھ پر حقوق ہیں ) یہ تھا  1947 سے پہلے کا ’سیکولرزم ‘!اُس وقت بڑا مسئلہ’ ملک کی سالمیت ‘ کا تھا ۔نیشنلسٹ وہ تھے جو (اِس) سالمیت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے یعنی (اُس وقت ) نیشنلزم یا سیکولرزم مذہبی زندگی میں (کسی بھی طرح ) مانع نہیں (تھے نہ ) ہیں البتہ سیاسی زندگی میں اُن کا عمل دخل ضروری ہے ۔ مولانا آزاد نے اپنے اِس خطبے میں یہ بھی بتا دیا تھا کہ مسلمان جو لباس پہنے ہوئے اور جو زبانیں بولتے ہوئے یہاں آئے تھے آج وہ تاریخ کا حصہ ہیں ۔ ۔اس کا مطلب ہے(  کہ )لباس ،غذا ،زبان ،رہن سہن کا تعلق مذہب سے نہیں ،جغرافیائی حالات اور زمانے کے بدلتے ہوئے طور طریق سے ہوتا ہے ‘‘

نیشنلزم اور سیکولرزم کی اِس دلچسپ لیکن معنی خیز تعریف وتوجیہ اور تشریح و تفسیر کے بعد پروفیسر ریاض شروانی ’فکر نَو‘ کی پالیسی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔۔’’ثقافتی اُمور میں فکر ِ نَو کا یہی رجحان ہوگا ،اور اُس کا سیاست سے راست تعلق نہیں ہوگا لیکن ،اُس کے صفحات سیاسی فکر کے لیے کھلے رہیں گے ۔مذہب کی طرف بھی اُس کا یہی رویہ ہوگا ،مسلکی اختلافات سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم دوسرے کے معبودوں کو برا نہ کہو تاکہ وہ تمہارے معبود کو  برا نہ کہیں ۔ اس کا مطلب مذہبی رواداری ہے اور (ماہنامہ ) فکر نو مذہبی رواداری کے ساتھ کسی نوعیت کے نظریات و عقائد کے خلاف زبان ِ طعن ،دراز  کرنا پسند نہیں کرے گا البتہ ،وہ ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنے میں (کبھی ) تَاَمُّل نہیں کرے گا ۔۔وہ قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا کہ تم (سچی ) گواہی دو چاہے وہ اپنے بزرگوں کے یا خود اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو ۔ اللہ تعالی  کے اس حکم میں مذہب و ملت کا کوئی امتیاز نہیں ہے ۔فکر نو دوسرے ممالک کے مسائل و معاملات پر اظہار خیال کر سکتا ہے لیکن اس کا حقیقی تعلق خود اپنے ملک کے مسائل سے ہوگا ۔‘‘

ہم اپنے وسیع ا لنظر اور بیدار مغز قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کی خریداری اور اشتہارات کی فراہمی کے ذریعے فکر نو سے   حسبِ اِستطاعت ،اِمکانی تعاوُن   ضرور فرمائیں ۔اس کاپتہ ’حبیب منزل ،میرس روڈ ،علیگڑھ ‘ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔