عالمی حالات کا چیلنج اور اُمتِ مسلمہ

ڈاکٹر محمد رفعت

اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں، ان کی بِنا پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ فطری طورپر وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان حالات نے ان کے سامنے جو چیلنج پیش کیاہے، اس کامقابلہ کرنے کی کیا تدبیر ہے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے ہمیں اسلام کے بارے میں چند بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین کامل ہے وہ زندگی کے ہر معاملے میں ہدایت دیتاہے اور یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہے۔ اس ہدایت کو سمجھنے کے لیے ہم کو قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اپنی عقل کااستعمال کرکے ہدایت الٰہی کا فہم حاصل کرنا چاہیے۔ زندگی کے بعض شعبوں میں اللہ کی ہدایت مفصل ہے اور بعض میں صرف بنیادی رہنمائی کی گئی ہے اور اصول بتائے گئے ہیں ۔ ان اصولوں کو کیسے ہم حالات پر منطبق کریں ؟ اس کے لیے عقل استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

دوسری حقیقت جو اسلام کے بارے میں ذہن میں تازہ رہنی چاہیے یہ ہے کہ یہ ایسا دین ہے جو افراد کو انفرادی طورپر بھی ہدایت دیتاہے اور پورے معاشرے کی بھی رہنمائی کرتا ہے۔ جب مسلمان دین کی اس وسعت پر نظر نہیں رکھتے بلکہ اس کے کسی ایک پہلو تک ان کی توجہ محدود ہوجاتی ہے، یا اس اعتدال اور توازن کو وہ ملحوظ نہیں رکھتے جو دین کا تقاضا ہے تب وہ بہت سی الجھنوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے اِن حقائق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

حالات کا مقابلہ امتِ مسلمہ کو کرنا ہے۔ چنانچہ امت مسلمہ کے بارے میں بھی چند بنیادی باتیں ہمارے ذہن میں رہنی چاہییں ۔ ایک بات یہ کہ یہ امت کسی ایک ملک میں محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے وابستہ افراد کسی ایک زبان کے بولنے والے یا ایک علاقے کے باشندے نہیں ہیں ، بلکہ مختلف زبانوں کے بولنے والے اور مختلف علاقوں کے رہنے والے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان دیگر جغرافیائی اختلافات موجود ہیں ۔ جس چیز نے ان سب کو جمع کیاہے وہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے۔ امت مسلمہ کے بارے میں غور کرتے ہوئے پوری امت کو سامنے رکھنا چاہیے، چاہے کسی ایک ملک کے مسلمانوں کے امور زیربحث ہوں۔ اس لیے کہ امت کا ہر حصہ دوسرے حصے کو متاثر کرتا ہےمسلمانوں کے حالات میں جو تبدیلی آتی ہے، اچھی ہو یا بری، اس میں کچھ نہ کچھ رول امت کے ہر حصے کا ہوتاہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ امت جس طرح ملکوں اور علاقوں میں بٹی ہوئی امت نہیں ہے۔ اسی طرح زمانے کے لحاظ سے بھی بٹی ہوئی نہیں ہے، پچھلے زمانے میں بہت سے صالحین اللہ کے دین پر عمل کرتے تھے۔اسی طرح آئندہ بھی اہلِ ایمان دین پر عمل کریں گے۔ نماز میں ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتے ہیں کہ ’’ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا۔‘‘ گویا جو ہم سے پہلے گزرچکے اُن کو ہم یاد رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ امت مسلمہ زمانے کے اعتبار سے بٹی ہوئی امت نہیں ہے۔ اس امت کو جوڑنے والی شے اللہ کا دین ہے۔ اس بنیادی رشتے کو یاد رکھنا چاہیے۔

دوسری بات جو امت کے بارے میں قابل توجہ ہے،یہ ہے کہ اس امت کی ایک تاریخ ہے۔ ہم جن موجودہ حالات کے چیلنج کاتذکرہ کررہے ہیں وہاں تک ہم ایک تاریخی دور سے گزرکر پہنچے ہیں ۔ ہمارے نزدیک امت کا مثالی دور وہ ہے جو نبیﷺ اور آپ کے بعد خلفاء راشدین کا دور تھا۔ جب ہم موجودہ حالات کے چیلنج کا تذکرہ کرتے ہیں تو اُس کا محرک یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ حالات تبدیل ہوں ان میں بہتری آئے۔ ہمارے لیے مثالی نمونہ بہرحال نبی ﷺ اور خلافت راشدہ کا دور ہے۔

موجودہ حالات تک امت کیسے پہنچی اور کن مرحلوں سے گزری۔ اس پر مختصر سی نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ خلافت راشدہ کے زریں دور کے آخر میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ مختلف قبیلوں کے درمیان عصبیت ابھرنے لگی۔ حالانکہ نبی کریمﷺ نے اس عصبیت کو مٹادیاتھا، جو عرب جاہلیت میں رائج تھی۔ بہرحال عصبیت دوبارہ شروع ہوئی، خصوصاً بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان اختلافات اور جھگڑے پیدا ہوئے وہ حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے مابین جنگ کی نوبت آئی اور بالآخر خلافت راشدہ کا نظام قائم نہ رہ سکا۔

قبائلی عصبیت کے علاوہ ایک دوسری وجہ بھی تھی جس نے منفی اثر ڈالا۔ مسلمانوں کی فتوحات کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی تعلیم و تربیت کی کوششوں کے باوجود وہ سارے کے سارے مسلم سماج میں جذب نہ ہوسکے۔ ان کی ویسی معیاری تعلیم و تربیت نہ ہوسکی جیسی مطلوب تھی۔ بہرحال دنیا میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کے کچھ اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ اسباب پر قابو پانے کی لوگ کوشش بھی کرتے ہیں ۔ لیکن ضروری نہیں کہ کوششیں کامیاب ہوجائیں ۔ خلاف راشدہ کابنیادی قاعدہ تھا کہ جو حکمراں ہووہ عام مسلمانوں کی مرضی سے حکمراں بنایاگیا ہو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرفاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت کے انعقاد کے لیے اسی قاعدے پر عمل ہوا۔ لیکن خلافتِ راشدہ کے بعد اس قاعدے پر عمل ہونا ختم ہوگیا۔ بہ الفاظ دیگر خلافت کے نظام کا بنیادی اصول باقی نہ رہا، اس کے بجائے بادشاہت شروع ہوگئی۔ اس بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بادشاہت کا آغاز خلافت راشدہ کے بعد ہوا۔ بادشاہوں کے ساتھ مسلمان کیا رویہ اختیار کریں ، اس بارے میں مسلمانوں کے اہلِ فکرو نظر کےدرمیان اختلاف رہا ہے۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت کہ خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت کی ابتدا ہوگئی، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ حالات میں بنیادی تبدیلی تھی جوواقع ہوئی۔ یہ تبدیلی ایسی تھی جس نے مسلمانوں کو گوناگوں مسائل سے دوچار کیا۔ مسلمانوں کے صالح افراد کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ خلافت راشدہ کے نظام کو دوبارہ واپس لایا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کےزمانے میں ایک مختصر سا دور ایسا ہے جس میں وہ نظام دوبارہ واپس آیا۔ لیکن پھر بادشاہت عود کر آئی۔ اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ مختلف ادوار سے گزری، جس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دوسری بڑی تبدیلی دوسو سال قبل کی ہے، جب مسلمان آزاد نہ رہے بلکہ یوروپ کی طاقتوں کے غلام ہوگئے۔ یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا جو مسلمانوں کی تاریخ میں پیش آیا۔

خلافت راشدہ کے خاتمے سے لے کر یورپ کی غلامی تک جو دور گزرا، اس میں مسلمانوں کے اندر بہت سی کمزوریاں پیدا ہوئیں ،اِن کمزوریوں کی بنا پر وہ یوروپ کی طاقتوں کے سامنے شکست سے دوچار ہوئے۔ سیاسی اور تہذیبی طورپر مغرب کے غلام ہوگئے۔ پون صدی قبل تیسرا دور شروع ہوا، جس میں مسلمان ممالک (جنھیں عالم اسلام کہاجاتاہے) سیاسی طورپر آزاد ہوگئے مگر عملا ًوہ آزاد نہیں ہیں ۔ یہ اُمت کی تاریخ کا مختصر جائزہ ہے۔ موجودہ حالات یقیناً مسلمانوں کے لیے چیلنج ہیں ، جب مسائل زیادہ سنگین شکل اختیار کرتے ہیں تو امت کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں ۔ فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت ہو یا عراق میں مسلمانوں کے درمیان کش مکش ہو یا عالم اسلام میں امریکہ کی مداخلت ہو یہ سب سنگین قسم کے واقعات ہیں جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں ، لیکن ان واقعات کو صرف علامت سمجھنا چاہیے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت تاریخ میں زوال کے دو بڑے مراحل سے گزری ہے۔ ایک خلافتِ راشدہ کا خاتمہ۔ دوسرے مسلمانوں کی سیاسی اور تہذیبی آزادی کاخاتمہ۔

بہرحال اب چیلنج امت کے سامنے ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔  اس پر اہلِ فکرو نظرکوغور کرنا چاہیے۔ پورے دورِ زوال میں مسلمانوں کے افراد، تنظیمیں ، تحریکیں اور علماء، یہ سب کچھ نہ کچھ کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ بلاشبہ ماضی میں بڑی تاریکی نظرآتی ہے۔ خلافت راشدہ کے خاتمے سے لے کر مسلمانوں کے دورِ غلامی تک پورا دور زوال کا دور ہے۔ لیکن اسی دور میں اصحابِ بصیرت ، علماءو دانشور اور عظیم الشان تحریکیں بھی نظرآتی ہیں جو پورے عالم اسلام میں اٹھتی رہی ہیں ۔ انھوں نے اصلاح کاکام کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم مثالی دور واپس نہ لاسکے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ اس پوری تاریخ میں جامد نہیں رہی۔ بلکہ مسلسل اس کے اندر زندگی اور حرکت و حرارت باقی رہی۔ اس لیے امت کی پوری تاریخ ’زوالِ محض‘ کی تاریخ نہیں ہے بلکہ زوال سے کش مکش کی تاریخ بھی ہے۔ موجودہ دور میں بھی ہمیں مسلم ممالک میں ایسےخطے نظر آتے ہیں جہاں محسوس ہوتاہے کہ امت مسلمہ بتدریج تعمیرِنو کی طرف جارہی ہے۔ ایران، ترکی اور ملیشیا جیسے ممالک کے حالات کا مجموعی رخ مثبت ہے۔ ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کی صورت حال اتنی دگرگوں نہیں ہے جو دیگر ممالک میں ہے۔

موجودہ حالات میں امت کے سامنے جو چیلنج ہیں وہ فکری اور نظریاتی بھی ہیں اور عملی بھی۔ اِس ہمہ گیری کو سامنے رکھنا چاہیے۔ بعض مسلمانوں پر جذبہ عمل کا غلبہ ہوتاہے۔ تو وہ چاہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کریں ، لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ نتیجہ خیز عمل کے لیے سوچنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ سوچنے پر توجہ کرتے ہیں لیکن وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ اس سوچ کے نتیجے میں عمل بھی سامنے آنا چاہیے۔

امت مسلمہ کے لیے زندگی کا اصل سرچشمہ قرآن و سنت ہے۔ امت مسلمہ کی تعمیر نو اور حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں رہنمائی قرآن و سنت سے حاصل کرنی چاہیے۔ کوئی قوم، کوئی امت یا کوئی گروہ کام کرتاہے تو اس کام کی بنیاد سوچ اور فکر ہوتی ہے۔ اب اگر فکر وہ ہے جو اس گروہ کے بنیادی تصورات و معتقدات کے مطابق ہے تو وہ گروہ ترقی کرتاہے۔ اگر فکر، بنیادی تصورات کے مغائر ہے تو وہ ترقی نہیں کرپاتا۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کو ایک چیلنج ماضی میں پیش آیاتھا، اس وقت حکومت ان کے پاس تھی۔ہوا یہ کہ مسلمانوں نے بنی اسرائیل کی روایات کا مطالعہ کیا اور اُن سے اچھا خاصا اثر قبول کیا۔ اس کے نتیجے میں دین کے بہت سے تصورات کے اندر بگاڑ آگیا، جس کو دور کرنے کے لیے مخلص افراد کو بڑی محنت کرنی پڑی۔ آج بھی اسرائیلی روایات کے چیلنج کے مقابلے کی ضرورت باقی ہے۔ جن لوگوں نے قرآن مجید کی تفسیر اس مسئلے کے ادراک کے ساتھ کی انھوں نے اسرائیلی روایات سے بچنے کی کوشش کی۔ یہ ایک مثال ہے اس امر کی کہ جب امت قرآن وسنت کے علاوہ کسی اور منبع ہدایت کی طرف رجوع کرتی ہے تو الجھنوں سے دوچار ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ بڑا مسئلہ وہ تھا جو یونانی علوم سے ربط کے نتیجے میں سامنے آیا۔ اِن علوم نے مسلمانوں پر اپنے اثرات ڈالے۔ مسلمانوں نے مختلف ممالک کے علوم سیکھے اور ان کی کتابوں کے ترجمے کیے۔ یہ جو کچھ تھا غلط نہیں تھا اس لیے کہ سیکھنے کا کام قرآن وسنت کی روشنی میں کیاجارہا تھا۔ جو چیزیں قابل قبول تھیں انھیں قبول کیاجاتا اور جو چیزیں قابل رد تھیں انھیں رد کیاجارہاتھا۔ لیکن یونان کا فلسفہ جس عظیم الشان دعوے کے ساتھ سامنے آیا تھا اور اس نے استدلال کا جو پُرکشش طریقہ پیش کیاتھا، اس سے مسلمانوں کا ایک گروہ بہت زیادہ متاثر ہوا، بلکہ مرعوب ہوا۔ اس مرعوبیت کے نتیجے میں انھوں نے قرآن وسنت کے حقائق کی تشریح یونانی فلسفے کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔ اس چیلنج کا مقابلہ بھی ہمارے علماء نے کیا۔خاص طور پر امام غزالی نے یونانی فلسفے کے اثرات مسلمانوں کے ذہن سے مٹائے۔ اسرائیلی روایات کا چیلنج تو ذرامختصر تھا، لیکن یونانی فلسفے کا چیلنج اس کے مقابلے میں بڑاچیلنج تھا۔

آج بھی مسلمانوں کو فکری نوعیت کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ یورپ اور امریکہ کی فکر کا چیلنج ہے۔ اہلِ فکرکو واضح انداز میں متعین کرنا چاہیے کہ وہ کیا تصورات ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے ذہن پر منفی اثرات ڈالے ہیں ۔ یقیناً امت کو میدان عمل میں کام کرناہے، دعوت بھی دینی ہے، ملت کی تعمیر بھی کرنی ہے۔ انسانوں کی خدمت بھی کرنی ہے۔ مگر ان کاموں کے ساتھ ساتھ بنیادی کام ذہنوں کو ان اثرات سے آزاد کرنا ہے جو مغربی علوم کی وجہ سے مسلمانوں پر پڑے ہیں ۔ اِن منفی تصورات میں سب سے نمایاں اور سب سے زیادہ نقصان دہ تصور قوم پرستی کا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا الگ الگ قوموں میں بٹ جانا۔ گویا ایک پاکستانی قوم ہے، ایک ترکی قوم ہے،ایک ایرانی قوم ہے۔ اِس تفریق کی ایک مثال یہ ہے کہ جمال الدین عبدالناصر کے زمانے میں عرب قومیت کا نعرہ دیاگیا۔ عرب قومیت کا منشا یہ تھا کہ عرب باشندے مل کر ایک قوم ہیں چنانچہ ان کے سامنے قدر مشترک ان کا ماضی ہونا چاہیے نہ کہ اسلام!

مسلمانوں کے لیے یہ امر تباہ کن ہے کہ ان کے اندر امت واحدہ ہونے کے احساس ہونے کے بجائے الگ الگ اقوام میں منقسم ہونے کا احساس ہو۔ جس طرح یورپ میں عیسائی دنیا الگ الگ قوموں میں بٹ گئی پھر ان کے درمیان عظیم الشان جنگیں ہوئیں ، اسی طرح قوم پرستی کا مہلک جذبہ مسلمانوں میں اور خاص طور پران کے حکمراں طبقے میں پیدا ہوا۔ مسلمان عوام میں تو یہ احساس آج بھی موجود ہے کہ وہ ایک امت ہیں ۔ لیکن حکمراں طبقے پر، اہل علم پر، صحافیوں پر اور دانشوروں پر قوم پرستی کے اثرات بہت شدید ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو الگ الگ قوموں میں بٹا ہوا سمجھتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے اس اندیشے کو محسوس کرتے ہوئے کہاتھا:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کاہے وہ مذہب کا کفن ہے

یعنی وطن کو دور حاضر نے اپنا خدا بنارکھا ہے۔ مسلمانوں نے بھی اس جھوٹے خدا سے اپنی عقیدت کا اظہار شروع کردیا ہے۔

قوم پرستی اس دور کا بڑا فتنہ ہے۔ اس نے مسلمانوں کے انتشار میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اِسلامی معیار کے مطابق مثالی دور خلافتِ راشدہ کاہے چنانچہ مطلوب یہ ہے کہ وہ نظام دوبارہ قائم ہو۔ اس سے پہلے کا مرحلہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے ملکوں میں اسلامی حکومتیں وجود میں آئیں جو اگلےمرحلے میں مشترک نظام میں تبدیل ہوجائیں ۔ مدینے کی جو حکومت تھی اس کے حدود اربعہ مدینہ تک محدود تھے۔ مگر حکومت کی بنیاد اسلام تھی۔ اس طرح دورِ حاضر کی اسلامی حکومتوں کے سلسلےمیں ممکن ہے کہ ان کے جغرافیائی حدود زیادہ وسیع نہ ہوں ۔ لیکن ان حکومتوں کی بنیاد خداپرستی ہوگی۔

ابن بطوطہ جب ہندوستان آیا تو کسی نے اس سے نہیں کہاکہ تم بدیسی ہو، غیرملکی ہو بلکہ اسے یہاں چیف جسٹس بنادیاگیا۔ عالم اسلام میں یہ تصور نہیں تھا کہ مسلمان باہر سے آیا تو کہیں اور کاباشندہ ہے، بلکہ وہ سارے عالم اسلام کا بیک وقت باشندہ سمجھاجاتاتھا۔ وہ چیف جسٹس بن سکتاتھا اور سفیر بن کر یہاں سے گیا۔ ضرورت ہے کہ عالم اسلام میں یہ وحدت دوبارہ زندہ کی جائے، فکری سطح پر قوم پرستی کا رد کیاجائے۔

دوسرا فکری چیلنج مسلمانوں کے سامنے سیکولرزم کا ہے۔ سیکولرزم کا منشا یہ ہے کہ دین کی رہنمائی زندگی کے صرف بعض حصوں میں قابل قبول ہونی چاہیے۔ باقی شعبوں خاص طور پر سیاست اور حکومت کو دین کی رہنمائی سے آزاد ہونا چاہیے۔سیکولرزم کے اثرات کی ایک مثال یہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے لیے تحریک چلائی۔ لیکن کہاجاتاہے کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اسی دوران پاکستان کی ساری سیاسی قیادت نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنایاجائے۔ وہاں کے اسلامی عناصر کی کشمکش کی وجہ سے وہ ملک کے دستور کو سیکولر دستور نہیں بناسکے۔ بلکہ انھیں اسلامی دستور بنانا پڑا۔ لیکن عملاً وہاں کا نظام اسلامی نظام حکومت میں اب تک تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔

سیکولرزم کاتصوریورپ میں اس لیے پیدا ہواکہ وہاں کی عیسائیت میں شریعت کو دین سے الگ کردیاگیاتھا۔ تو ان کے پاس اس کے سواکوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ انسانی عقل کو دنیا کے معاملات چلانے کے لیے بنیاد بنائیں ۔ مگر ظاہر ہے کہ اسلام کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایسا دین ہے جو محفوظ ہے، ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے۔ شریعت اس کا جز ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے نزدیک زندگی کے معاملات کو دین سے الگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ مسلمان کیوں سوچیں کہ دین پر عمل زندگی کے صرف بعض حصوں میں ہوگا اور سیاست و حکومت کی تدبیر میں محض انسانی عقل کادخل ہوگا۔ مسلمانوں کے نزدیک دین زندگی کے ہرمعاملے میں ہدایت دیتاہے۔ سیکولرزم کے منفی اثرات مسلمانوں کی سیاست پرپڑے وہ واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اِسی طرح ابھی تک مسلمان تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مسلمانوں کا جو نظام تعلیم ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے، اس میں تعلیم اسلام کے مطابق نہیں ، بلکہ اس میں بھی وہی تعلیم دی جارہی ہے جو مغرب سے آئی ہے۔ مسلمانوں نے نہ تو ارادہ کیا اور نہ مطلوب محنت کی کہ وہ سارے علوم کو اسلام کے مطابق مرتب کرسکیں ۔

مغرب سے آیا ہوا تیسرا منفی تصور جمہوریت ہے۔ جمہوریت کا ایک پہلو سیکولرزم سے متعلق ہے، جب دین کی رہنمائی زندگی کے اجتماعی معاملات میں قبول نہ کی جائے تو سیاست میں کیا رویہ اختیار کیاجائے گا؟ اس سوال کا جواب یہ دیاگیاکہ جو قانون ہوگا وہ عوام کی مرضی سے بنے گا۔ یہ جمہوریت کے ایک معنی ہیں ۔ مگر جمہوریت کے اور معانی بھی ہیں ۔ اس کےدوسرے معنی یہ ہیں کہ ملک کے حکمراں چننے کے لیے انتخابات ہوں ، سیاسی پارٹیاں ہوں ، ان پارٹیوں کے درمیان آپس میں کش مکش ہو، ان کے امیدوار کھڑے ہوں جو لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف راغب کریں ، اس کے لیے سچ اور جھوٹ ہر ذریعے کو اپنائیں ، اس طرح حکومت بنے یا تبدیل ہو۔ یہ وہ جمہوریت ہے جو بادشاہت کے مقابلے میں دنیا میں رائج ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت غنیمت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت اسلام کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ پورے سماج کو پارٹیوں میں تقسیم کیاجائے، ان کے درمیان کشمکش ہو اور حکومت کے حصول کا بڑا ذریعہ مکرو فریب ہو۔ چنانچہ دنیا کی بڑی جمہوریت میں جو کچھ ہورہاہے، اس سے اہل نظر واقف ہیں ۔ سب سے بڑی جمہوریت ہمارے ملک میں ہے۔ یہاں کیا ہوتاہے؟ اس سے یہاں کے شہری واقف ہیں ۔ موجودہ پارلیمنٹ میں جرائم پیشہ لوگوں کی کثیر تعداد ہے۔ اس موضوع پر تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ صرف اِس امر واقعہ کا اظہار مقصود ہےکہ حاکمیتِ جمہور کا تصور اور جمہوری عمل دونوں اسلام کے تصورات سے اور اسلام کے مزاج سے ٹکراتے ہیں ۔

مسلم ملکوں کے اندر جب جمہوریت کا تجربہ کیاجاتاہے تو جو مختلف مسائل وہاں پہلے سے موجود ہیں جمہوریت ان کو اور بڑھادیتی ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان کو دیکھاجاسکتا ہے، وہاں جاگیرداری موجود ہے۔ دنیا جاگیرداری پر بہت پہلے قابو پاچکی تھی مگر پاکستان میں اب تک وہ نہیں مٹ سکی۔ وہاں جاگیرداروں کو وہی نامعقول حقوق حاصل ہیں جو دنیا میں آج سے تین سو سال پہلے حاصل تھے۔ اسی طرح وہاں مسلکی جھگڑے موجود ہیں ۔ علاقائی و لسانی عصبیت موجود ہے۔ اسی عصبیت نے پاکستان کے دوٹکڑے کرائے۔ مہاجر اور وہاں کے قدیم باشندوں کے درمیان کش مکش عروج پر ہے، اس صورتحال میں جب جمہوریت کا تجربہ کیاجاتاہے تو جھگڑے جو سماج میں موجود تھے وہ اب سیاسی پارٹیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ جمہوریت سماج میں موجودکش مکش کو مزید بڑھاتی ہے اور سوسائٹی کے مختلف اجزا کو ایک دوسرے سے توڑنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، جھوٹ اور پروپیگنڈا سارے سماج کے اخلاق کو خراب کرتا ہے۔ جو کچھ وعظ و تذکیر کے ذریعے اصلاحی کوششیں کی جاتی ہیں ، جمہوری سیاست ان کے اثرات کو ایک دن میں دھوکر رکھ دیتی ہے۔

سوال کیاجاسکتا ہے کہ اگر موجودہ جمہوریت نہ ہو، اس طرز کی پارٹیاں نہ ہوں ، اس نوعیت کا الیکشن نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ اِس سوال کاجواب مسلمان محققین کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ محض یہ بات کافی نہ ہوگی کہ موجودہ کیفیت پر تنقید کردی جائے۔ بلکہ بتانا ہوگا کہ اسلامی متبادل کیا ہے۔ اگر دین کی روشنی میں مسلمان مفکرین غور کریں تو اس کا متبادل پیش کرسکتے ہیں ۔ جس طرح مسلمان ماہرین معاشیات یہ بتاسکتے ہیں کہ موجودہ بینک کا متبادل یہ ہے کہ اسلامی اصول پر نفع اور نقصان میں شرکت ہو۔ اسی طرح اہل فکر یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ موجودہ جمہوری اداروں کا متبادل کیاہے؟ شرط یہ ہے کہ غوروتحقیق کاحق ادا کیاجائے۔اگر محض اصولی تنقید کی جائے مگر یہ نہ بتایاجائے کہ تعمیر نوکیسے ہوگی تو مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہ کام مسلمان اہل علم کے ذمہ ہے کہ موجودہ دور میں مسلمان حکومتوں کو چلانے کے لیے وہ کیا تفصیلی شکل تجویز کرتے ہیں ۔

یہ تاریخی سانحہ تھا کہ شریعت کو عیسائی دنیا نے منسوخ کردیا۔ اس لیے انھوں نے سیکولرزم کو اختیار کیا۔ لیکن مسلمانوں نے بھی زندگی کے اجتماعی معاملات میں تحقیق بند کردی، امورتحقیق کا جو دائرہ تھا وہ بہت محدود رہا۔ بلاشبہ اہل علم نے قرآن کی تفسریں لکھیں ، احادیث پر کام کیا ، لیکن زندگی کے اجتماعی معاملات پر بہت کم کام کیا۔دوسری طرف ان لوگوں نے کام کیا جنھوں نے یورپ کی شاگردی میں سیکولرانداز میں قانون پر غور کیا ، اس پر ریسرچ کی۔ اب اگر موجودہ دور میں مسائل حل کرنے ہیں ،قانون سازی کرنی ہے تو اس کے لیے ہمارے سامنے کوئی قابلِ ذکرعلمی سرمایہ موجودنہیں ۔ ہمارے سامنے جوہے وہ یوروپ کا ورثہ ہے۔

اُمت کے سامنے کچھ عملی چیلنج بھی ہیں ۔ ان کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ جن باتوں کا ذکر ہماری محفلوں میں اکثر ہوتارہتا ہے، ان کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ مسلمانوں میں اتحاد ہونا چاہیے۔ مسالک کی کیا حیثیت ہے وہ ہمارے سامنے واضح ہونی چاہیے۔ دین کی بنیاد پر ہمیں متحدہونا چاہیے۔ مسلک کی حیثیت ثانوی ہے۔ جب کہ دین کی حیثیت بنیادی ہے ۔اسی طرح یہ بات کہ مسلمانوں کے درمیان جو مختلف قسم کی عصبیتیں ہیں ان کو دور ہونا چاہیے۔ لیکن چند اور اہم باتوں کی طرف توجہ ذرا کم ہے۔ ان کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک چیز عالم اسلام کی آزادی ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ سیاسی طور پر مسلمان ممالک آزاد ہیں ، لیکن ان کا جو حکمراں طبقہ ہے وہ اب تک باہر کی طاقتوں کا غلام ہے اوران کے اشارے پر کام کرتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی دووجوہات ہیں : ایک تو یہ کہ حکمراں طبقے کی ساری تربیت مغربی افکار کے زیرِسایہ ہوئی ہے۔ اُمت نے مسلمانوں میں ایسے اہل علم اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کو پیدا کرنے میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے جو اسلامی اصولوں کو جانتے ہوں اور ان کی سیرت اور ان کا کردار بھی اسلامی ہو۔ جس تناسب سے ہم مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے میں دین کے لیے مخلص لوگوں کی تعداد بڑھا سکیں اسی تناسب سے حکمراں طبقے میں بھی ان کی تعداد بڑھے گی۔کیوں کہ یہ فطری معاملہ ہے کہ سوسائٹی کا جو اعلیٰ طبقہ ہوتاہے وہی حکومت تک پہنچتا ہے۔

یہ تو معاملہ کا ایک پہلو ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان ممالک صنعت ،ترقی،سائنس، ٹکنالوجی اور قدرتی وسائل کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں ۔آج کی دنیا میں اگر آپ اپنے ملک کو آزاد رکھنا چاہیں تو محض آزادی کا نعرہ کافی نہیں ہے ،بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنی ضروریات خود پوری کرسکتے ہوں ،خود کفیل ہوں ۔ آپ کو اناج کے لیے، ہتھیاروں کے لیے ، کتابوں کے لیے اور معلومات کے لیے باہر کی دنیا کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑتا ہو۔جو ہاتھ پھیلاتے ہیں وہ آزاد نہیں رہ سکتے۔چاہے وہ نیت اچھی رکھتے ہوں ، مخلص ہوں ۔  ایک طرف یہ دیکھنا ہوگا کہ حکمراں طبقے کی سیرت و ذہنیت کیا ہےلیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ملک ا س پوزیشن میں ہے کہ وہ آزاد رہ سکے۔اس کے اندر اتنی سکت اور قوت ہو کہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کرسکتاہو۔

یہ وہ مسئلہ ہے ،جس کی طرف مسلمان عوام ، مسلم تحریکوں اور مسلمان اہل فکر کی توجہ بہت کم ہے۔ مسلمان ملکوں کو فی الواقع اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہونا چاہیے ۔اس کے لیے  منصوبہ بندی کرنی ہوگی ، قوم اور ملک کواس کا سبق بھی سکھانا ہوگاکہ وہ اپنی ان ساری فضول خرچیوں سے اجتناب کریں جس میں حکومتیں اور اعلیٰ طبقے مبتلا ہیں ۔عالم اسلام کی آزادی کے لیے، افراد کی تربیت اور آزادی کی اسپرٹ کے فروغ کے ساتھ عالم اسلام کی ترقی بھی ضروری ہے۔یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی ضروریات خود پورا کرنے کے قابل بنے۔

 اللہ کے فضل سے مسلمان ممالک جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ایک ملک جہاں ختم ہوتاہے وہاں سے دوسرا ملک شروع ہوتاہے۔ایک ہی خطہ ہے ،جو ترکی سے افغانستان تک نظر آتاہے۔ دوسری طرف افریقہ کے شمالی حصے کے مسلم ممالک ایک دوسرے سے جڑےہیں ۔چنانچہ پورا عالم اسلام خود کفیل ہوسکتا ہے اگر تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ذرائع ابلاغ، میڈیا، سائنس ، صنعتی ترقی اور اسی طرح زندگی کی ضرو ریات کی تکمیل کے معاملے میں عالم اسلام کے ممالک کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک نے جس طرح اپنے ادارے بنائے ہیں ،ان کے درمیان فوجی معاہدے ہیں ، ناٹو مشہور معاہدہ ہے، معاشی معاہدے ہیں ۔ مختلف امور میں تعاون کے لیے ادارے ہیں ۔اِس طرح کے ادارے عالم اسلام میں نہیں ہیں ۔ اگر ہیں تو وہ صحیح ڈھنگ سے کام نہیں کررہے ہیں ۔جیسے OICموجود ہے، مگر فعال نہیں ہے۔دوسرے ادارے ثقافتی سطح پر کام کرنے کے لیے بنائے گئے ،جیسے رابطہ عالم اسلامی۔مگر ان سب کا رول بہت محدود اورکمزور رہاہے۔ضرورت ہے کہ عالم اسلام میں ایسے ادارے بنائے جائیں جو پورے عالم اسلام کے اتحادکو عملی شکل دے سکیں ۔اس طرح مسلمانوں کی ضرورتیں اسی خطے سے پوری ہو جائیں گی۔ اس کے لیے وہ باہر کے محتاج نہیں رہیں گے۔یہ وہ اقدامات ہیں جو آزادی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں ۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی صورت حال پر توجہ کی جائے ۔ عوام جو مذہب اختیار کیے ہوئےہیں وہ زوال کے دور میں پیدا ہواہے۔جو مذہب قرآن وسنت کا ہے ، اس سے لوگ واقف نہیں ہیں ،بلکہ اس مذہب سے واقف ہیں ،جس میں قبر پرستی ہے، عرس اور تعزیے ہیں ،پیری مریدی ہے، تعویذگنڈے اورجادو ٹونے ہیں ۔ان کا تعلق قرآن سے صرف اتنا ہے کہ اس سے فال نکالی جاسکے اور اس سے برکت حاصل کی جاسکے۔یہ وہ مذہب ہے ،جو بہت بڑی آبادی پر چھایا ہوا ہے۔یہ بات جو کہی جاتی ہےدرست ہے کہ ہمارے عوام کے دل میں دین سے محبت موجود ہے۔اس لحاظ سے ان کا حال حکمرانوں کے حال سے بہتر ہے۔لیکن جس دین سے ان کو محبت ہے اُس کا شعور بھی اُن کو حاصل ہونا چاہیے۔

عالم اسلام میں موجودہ حالات کے اندر ٹکنالوجی کا فروغ اتنا ہوچکا ہے کہ آپس میں بآسانی خیالات کاتبادلہ ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود محسوس یہ ہوتا ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے پرآمادہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال بدلنی چاہیے اور ہمارے درمیان بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے۔ہماری جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کرتی ہیں ۔ہمارے علماء ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں ۔اس صورت حال کو بدلنا چاہیے۔مگر اس کی بنیادی شرط ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں بات چیت ہو، رابطہ ہو۔ہمارے درمیان رابطہ کا خلاہے۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے سے سنجیدہ گفتگو نہیں کی۔ ہمارے تصورات میں کیا فرق ہے؟اس فرق کو کیسے دور کیاجاسکتا ہے، اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ہم کیسے کام کرسکتے ہیں ؟ اِن سب سوالات پرغورکی شدیدضرورت ہے ۔ممکن ہے کہ جس وقت محض دعوت و تبلیغ کاکام انجام دیا جارہاہو اس وقت ان اختلافات کی خاص اہمیت نہ ہو۔ لیکن جب دورکش مکش کا آجائے تو یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ انتشار بہت نقصان دہ ہوجاتاہے۔امت کے بہت سے طبقات ایک ہی قسم کے کام میں مصروف ہیں ۔ان کاموں کی انجام دہی کے سلسلے میں ان کے درمیان آپس میں اختلافات ہیں ۔ اس اختلاف کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے باہمی تبادلہ ٔخیال درکارہے۔

عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اس کام میں امت کا ہر جزاور ہر طبقہ حصہ لے سکتا ہے۔ماضی میں ہندوستان کا رول کلیدی رہاہے ، یہاں کے عوام اور علماء تعمیری کاوشوں میں پیش پیش رہے ہیں ۔اگر ہندوستان کے علماء اور دانش ور، عالمِ اسلام کے سامنے اپنے مشورے پیش کریں کہ فکری چیلنج کا مقابلہ کرناہے، تعمیر نو کرنی ہے اورآپس میں مشورے کی فضا کو رواج دینا ہے، تویہ فضا بنے گی۔ امت مسلمہ کے لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کریں گے اورباہم تعاون کریں گے۔ پھر حالات کا رخ اس طرح بدل سکےگا کہ دوبارہ دنیا کی تعمیر اسلام کے مطابق ہوسکے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔