21/ستمبر:عالمی یوم امن!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اقوام متحدہ نےدوہزارایک(2001) میں اکیس ستمبر کوعالمی یوم امن کے طورپر منانے کا اعلان کیا تھا اوراس فیصلےکے تحت پہلا عالمی یوم امن 21 ستمبر 2002 ء کو منایا گیا تھا ، اس موقع پراقوام عالم سے اپیل کی گئی تھی کہ یہ دن عدم تشدد اور جنگ بندی کے دن کے طورپر منایا جائے۔تب سے لےکر آج تک  21ستمبر کو ’’انٹرنیشل پیس ڈے یعنی عالمی یوم امن ‘‘کے طور پرمنایا جاتاہے جوجنگ، تشدد کے خاتمے اور عالمی امن کو برقرار رکھنے کیلئے وقف کردیا گیاہے ؛جس کا مقصدپوری دنیا کے لوگوں میں امن کی اہمیت اور جنگوں کی بربادی اور نقصان کے بارے میں آگاہی دینا  نیزبرداشت، ہم آہنگی، انسانیت کا احترام جیسی روایات کو پروان چڑھانے اور نوجوان نسل میں اس حوالےسے شعوراجاگر کرنا ہے۔

اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں حکومتی اداروں اورسول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے اور نوجوان نسل میں اس دن کی اہمیت کے حوالے سے شعور بیدار کیا جاتا ہے ۔

ایک طرف اقوام متحدہ کا عالمی یوم امن ہے اور دوسری طرف آج دنیا بھر میں متعدد ممالک بدامنی کا شکار ہیں، چوطرف منڈلاتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات، اندرونی و بیرونی جارحیت، عالمی اداروں کی بے حسی۔۔۔۔ نے امن کو ایک خواب وخیال بنادیاہےبالخصوص رواں ماہ برما کے راکھین مسلمانوں پرمسلسل جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑےگئے اور جارہے ہیں وہ  بین الاقوامی سطح پرظلم کی تاریخ کابدترین باب ہے  ۔

ویسےدہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کا فرما ہوسکتا ہے، افکار ونظریات کی ترویج کے نام پر ہونے والی جنگیں، فاشزم کی آڑ میں اٹھنےوالی تحریکیں، نظریاتی تبدیلی کے عنوان سے برپا ہونے والےخونی انقلابات اور کشور کشائی اور فتوحات کےجذبے سےہونے والی قتل و غارت گری، لوٹ مار و آبرو ریزی ، طاقت کے حصول یا معاشی اور سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرنے کی خاطر لڑی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ جنگیں۔۔۔۔ان سب کو دہشت گردی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے؟

اس دہشت گردی کی مختلف وجوہات اور محرکات ہو سکتےہیں؛لیکن میرے خیال میں کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ ہے جوزبانی طورپرتوامن و سلامتی کےلیے اپنی من پسند پالیسیاں نا فذ کرنا چاہتی ہیں؛ لیکن عملی اعتبارسےاپنے اس منشور پر قائم نہیں ۔

دہشت گردی کی اس خوف ناک فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر چشم فلک نے دیکھےہیں کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں، مظلوموں کی یہ سسکیاں، انسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا ہردل احساس کے کانوں سے بہ آسانی سن سکتاہے ۔

دہشت گردی اصطلاح پررونماہونےوالے واقعات میں جہاں خاک و خون میں تڑپتی لاشوں، ظلم وبربریت اور تباہی و بربادی کے عریاں رقص، ہلاکت و بربادی کے گھاٹ پر قربان ہوتی انسانوں کی جائداد، اموال اور مکانوں کی بربادی وغیرہ سامنے آتی ہے وہیں انسانی ذہن پر واقعات کی وہ بھیانک تصویر بھی ابھرآتی ہے جو مسلم وغیرمسلم ملکوں سے مسلمانوں، خصوصاً لکھے پڑھے اور دین دار نوجوانوں کو گرفتار کرکے، اندرونِ افغانستان وعراق اور ”گوانٹاناموبے“ کے بدنام زمانہ جیل خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ جسمانی، جنسی، ذہنی اور فکری طور پر ایسی مجرمانہ حرکتیں کی گئیں اور اذیت رسانی اور توہین و تذلیل کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے گئے جن سے حقوقِ انسانی کے نام پر ساری دنیا نے آنسو بہادیے اور جس نے سارے انسانی ضمیر کو ہلاکر رکھ دیا۔

2001 ء میں دنیا بھر کا امن تباہ کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں انسانوں کو امن کے نام پر قتل کیا، عراق میں امن کے نام پر لاکھوں افراد جنگ کی بھینٹ چڑھادیےگئے۔دوسر ی جانب شام، فلسطین، کشمیر، برما، صومالیہ، وغیرہ میں امن کے نام پر تشدد کو فروغ دینے میں مغربی ممالک کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

کیا وجہ ہے کہ آتش وآہن کی بارش مسلم ممالک افغانستان اور عراق وفلسطین پر ہی برسائی جارہی ہے، کشت و خون کا یہ سارا کھیل اور ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ مسلمان قوم کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟ دہشت گردی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں یا جنھیں کسی مقصد کے تحت برپا کیاجارہا ہے ان کی تہہ تک منصفانہ طور پر پہنچنے کے بجائے بے قصور مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے سرکیوں تھوپ دیا جاتا ہے؟ مصنوعی واقعات کے جھوٹے الزام میں کہیں سے کسی وقت بھی مسلم نوجوانوں کو کیوں اٹھالیا جاتا ہے انھیں طرح طرح کے بھیانک الزامات ومقدمات کے سہارے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے کیوں ستایا جاتا ہے۔ جیل خانوں کے جہنم نما تہہ خانوں میں انہیں کیوں رکھ کر سڑایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ درندگی و درماندگی کا سلوک اور یہ وحشیانہ رویّہ کیوں اپنایاجاتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب دیا جاسکتا ہے تو صرف یہی کہ وہ مسلمان ہیں، اسلام کا کلمہ پڑھنے والے ہیں اور وہ فرزندانِ توحید اور شمع محمدی کے پروانے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی، کا لیبل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کرنے کا کھیل عالمی سازش کا حصہ ہے؛ جس کی خاکہ سازی اور انھیں برپا کرنے کی عملی تدابیر میں عالمی صہیونیت اور اسلام دشمن عناصر یہودیت کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ جن کی چاپلوسی اور حکم برداری میں مسلم ممالک کے بعض اسلام بے زار حکمراں اور دیگر ممالک کی مسلم دشمن تنظیمیں پورے شدومد کے ساتھ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں اور وہ اسلام کو ”دہشت گرد“ مذہب اور مسلمانوں کو ”دہشت گرد“ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

یہاں ہم اس بات کو بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام، دہشت گردی کا مذہب نہیں؛ بل کہ امن وسلامتی کا پیامبر ہے ، جہاں ظلم وعدوان، ناانصافی وعدم مساوات کا نام ونشان نہیں ، جہاں باہمی تعلقات کی بنیادشرافت وحیا پر قائم ہے ، جہاں اخوت و مساوات کی حکمرانی اورمحبت ورواداری کی بالا دستی ہے ۔

اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن کریم میں ہے: ”اسی لئے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے اس نے گویا ساری انسانیت کاقتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کی عظمت واحترام کو پہچانا اس نے گویا پوری انسانیت کو نئی زندگی بخشی۔“(المائدہ:32)انسانی جان کا ایسا عالم گیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا تھا، اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ”دونوں فریقوں (مسلم اور غیرمسلم) میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے؛ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم وشرک کی ہرملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔“· (الانعام:81)

اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے وہ اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“(الاعراف:56)۔ امن ایک بہت بڑی نعمت ہے؛جس کو قرآن نے عطیہٴ الٰہی کے طور پر ذکر کیا ہے: ”اہل قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہئے جس رب نے انہیں بھوک سے بچایا کھانا کھلایا اور خوف و ہراس سے امن دیا“(القریش:4)اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس سےبھی لگایاجاسکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت (حرم مکہ) کو گہوارئہ امن قرار دیاگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اس کے سایہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہوگا۔( آل عمران:97)

عدل و انصاف کے معاملے میں اسلام میں دوست و دشمن ، مسلم و غیر مسلم کا فرق درست نہیں۔اسلام دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کو لازمی قرار دیتا ہے تاکہ اس کی بنیاد پر ایک خوش گوار معاشرہ تشکیل پائے۔ حق تعالی کا فرمان ہے۔

’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر ہرگز نہ اکسائے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑدو ، عدل کرو، عدل تقویٰ سے بہت قریب ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ :8)

ان واضح اور پاکیزہ تعلیمات کے بعد کیا اس امر کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے اسلام اپنے مخالفوں کو برداشت نہیں کرتا! ان سے جنگ و جدال کی بات کرتاہے! دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے!اور اپنا عقیدہ بہ جبر واکراہ ان پر مسلط کرتا ہے؟؟؟

آپ علیہ السلام کی صفات مبارکہ میں سے ایک صفت رواداری اور نرم دلی تھی، آپ عرب کے بدؤون اور جاھل لوگون کے ساتھ بھی رواداری اور نرمی سے پیش آتے تھے، سخت سے سخت دشمن سے بھی انتقام لینا گوارا نہیں کیا، فتح مکہ کے تاریخی کلمات پر نظر دوڑائیں “لاتثریب علیکم الیوم ” آج تم پر کوئی گناہ نہیں، آپ علیہ السلام یہ ان لوگوں سے فرما رہے ہیں جنہوں نے مکہ سے آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا، تکلیف، مصیبت، سنگ باری، دشنام طرازی اور دشمنی کا ہر طریقہ اپ پر آزمایا، لیکن آپ نے سب کو معاف فرما دیا، اس طرح کے واقعات سےتو تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، علاوہ ازیںانہیں خطوط پرآپ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین نے رواداری اورہم آہنگی کی وہ یادگار مثالیں چھوڑیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کفار کے مذہبی معاملات کے متعلق جو معاہدہ لکھوایا اس کے تاریخی الفاظ یہ تھے:“ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے، وہ قلعے اور محل نہیں گراٰئے جائیں گے جس میں وہ دشمنوں سے مقابلےاور حفاظت کے وقت پناہ لیتے ہیں، تہوار کے موقعے پر صلیب نکالنے کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ ”

غیر اسلامی ملک کے غیر مسلم افراد پر انفاق کرنا اور مصیبت و آفت میں ان کے ساتھ ہمدردی و تعاون کرنا تو مسلمانوں کا وصف خاص ہے، اس وصف خاص سے متصف فرمانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل مبارک سے مسلمانوں کو جو نمونۂ عمل عنایت فرمایا اس کی ایک مثال حاضر خدمت ہے:’’ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو درہم روانہ کیے تاکہ وہ مکہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیں۔‘‘

اسلام نے غیر مسلم افراد سے کاروبار، تجارت، لین دین اور معاملات کو درست رکھا ہے، چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح ہونے کے بعد اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہود کے ساتھ مزارعت کا معاملہ فرمایا ہے اس طرح کہ وہ زراعت کریں گے اور پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو اداکریں گے ، جب بٹائی کا وقت آتا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیداوار کا اندازہ کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کرتے۔ (ابوداؤد، کتاب البیوع، باب فی الخرص ، حدیث نمبر:2962)

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے فرماتے :جس حصہ کو چاہو لے لو ! یہود اس عدل و انصاف کو دیکھ کر یہ کہتے’’ ایسے ہی عدل و انصاف سے آسمان اور زمین قائم ہے۔ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ ان سے فرماتے : اے گروہ یہود! تمام مخلوق میں تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو، تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور تم نے اللہ پر تہمت باندھا لیکن تمہاری دشمنی مجھ کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تم پر کسی قسم کا ظلم کروں۔ (شرح معانی الاثار)

بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ کہ اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم مومن نہیں ہوسکتا، کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ () کون مومن نہیں ہوسکتا؟ فرمایا کہ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔“ (بخاری: حدیث نمبر6016)·

الغرض :اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں ظلم وجبر سے بچنے، پرامن زندگی گذارنے، دوسروں کے حقوق کی اداکرنے، فتنہ وشرانگیزی سے اجتناب کرنے ، عمل خیر میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرنے، روئے زمین میں ایک امن پسند خوشگوار اور مثبت ماحول کی تشکیل دینے، عام انسانوں کے ساتھ (خواہ وہ کسی بھی مذہب و قوم سے تعلق رکھتا ہو) فراخدلی ورواداری اور ہر مذہب و قوم کے مذہبی روایات و شخصیات کے احترام کی پرزور تلقین کی گئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔