کیا روہنگیا میں انسا ن نہیں!

سید شہا ب الدین

آج ملک کی گو دی میڈیا میں ایک بحث بڑی شدت اختیا ر کی ہو ئی ہے اور حکو مت ہند بھی اپنی بے پنا ہ وسعتوں اور بے پنا ہ وسا ئل کے با وجود پریشان ہے کہ برما میں جا ری انسا نو ں کے قتل و خو ن کے بعد وہاں سے بھا گے روہنگیا ئی انسا ن دیش کی سرحدوں کو سر کرتے ہو ئے بھا رت میں دا خل ہو رہے ہیں۔حکو مت ہند کو یہ پریشا نی ستا ئی ہو ئی ہے کہ وہ لو گ اگر بھا رت کی سرحدوں کو عبور کرتے ہو ئے ملک میں دا خل ہوئےتو یہا ں سیکیو ریٹی کا مسئلہ درپیش نہ ہو جا ئے اس بنا ئ پر مختلف النو ع حیلے بنا کر سپریم کو رٹ کے فیصلےکی منتظر ہے کہ کب فیصلہ آئے اور کب یہا ں سے روہنگیا ئی انسا نوں کو بھگا یا جا ئے ۔

اعداد و شما ر کے مطا بق برما سے آئے ہو ئے روہنگیا کی تعداد ہما رے ملک میں 40000ہے۔جبکہ وہ مملک جو جغرا فیا ئی اعتبار سے بڑے چھو ٹے معلو م ہو تے ہیں،اس میں با لخصوص بنگلہ دیش،پا کستان،ملیشیا ،انڈو نیشیا،تھا ئی لینڈ،یو اے ای وغیرہ مما لک شامل ہیں ۔ہما را ملک دنیا کا دوسرا بڑا ملک کہلاتا ہے جس کی آبادی ایک اندازے کے مطا بق 130کروڑ بتا ئی جا تی ہے ۔کبھی آبادی کا بڑھتا تنا سب ہما ری حکو متو ں کے لئے خطرہ نہیں رہا ،ہما رے لئے تبت سے آئے ہو ئے پنا ہ گزین ملک کی سیکیوریٹی کا ئو نسل کے لئے خطرہ ثا بت نہیں ہو ئے،افغا نستان سے آئے ہو ئے پنا ہ گزینوں کو ہم نے جگہ دی ۔پھر40000روہنگیا ئی انسا ن کیسے ہما رے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔

ملک بھا رت کی تا ریخ پر طا ئرانہ نظر ڈا لیں تو معلو م ہو گا کہ ہما را ملک پنا ہ گز ینو ں کی آما جگا ہ ہے ہر وقت ہما رے ملک کی آبا دی پنا ہ گزینو ں سے آباد ہو ئی بعض لو گ ملک میں تجا رت کی غرض سے آئے بعض اپنے مما لک سے نکا لے گئے ،لیکن اس کے با وجود ہما رے ملک کی تہذیب رہی ہے کہ سے جب بھی کسی نے پنا ہ ما نگی ہم نے اسے پنا ہ دی ہے،لیکن حکو مت ہند کا یہ جواز پیش کرنا کہ وہ دہشت گرد ہے کہنے سے صا ف معلو م ہو تا ہے کہ آپ ایک مخصوص عینک سے انہیں دیکھ رہے ہیں جسے ’’مسلما ن‘‘کہتے ہیں۔ جو پنا ہ گز یں بھارت میں دا خل ہو ئے ہیں ان کے پاس ٹھیک سے ایک وقت کی روٹی کھا نے کے لئے سا ما ن مہیا نہیں ہے۔سر میں درد ہے تو دوا کے لئے پیسے نہیں ہے۔

ایسے وقت میں حکومت ہندی کی نا قص سوچ یہ بتا تی ہے کہ حکومتی سطح پر انسا نیت با قی نہیں رہی ہے ۔ کم از کم انسا نی بنیا دوں پر دیکھا جا ئے کہ روہنگیا سے آنے والی مخلوق انسا ن ہے جا نور نہیں ہے انہیں سہا رے کی ،پنا ہ کی ضرو رت ہے اگر یہ پنا ہ ہم نہیں دے پا ئے تو دنیا ہنسے گی اور کہیگی کہ انسا نیت مر چکی ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک شخص سمندر کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ,
    کوئی شخص نیچے جھکتا ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے,

    ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی ہیں .
    شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹکا تھا..
    اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
    اسے اس شخص کی بیوقوفی پر ہنسی آگئی اور ہنستے ہوئے اسے کہا : اس طرح کیا فرق پڑنا ہے ہزاروں مچھلیاں ہیں کتنی بچا پاؤ گے ۔۔۔ ؟

    یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا ، ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی پھراس نے سکون سے دوسرے شخص کو کہا ’’ اسے فرق پڑا نا,,-
    یہ کہانی ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات تبدیل نہ ہوں مگر کسی ایک کے لیے وہ فائدے مند ثابت ہو سکتی ہے ۔
    لہذادل بڑا رکھیں اور اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق اچھائی کرتے رہیں, اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کی اس کوشش سے معاشرے میں کتنی تبدیلی آئی ؟
    بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے حصے کی اچھائی کا حق کتنے حد تک ادا کیا؟

    شکوہ ظلمت شب سےتوکہیں بہترتھا
    اپنےحصےکی شمع کوجلاتےجاتے..

تبصرے بند ہیں۔