ہم نے قلم کے تقدس کو مجروح کر دیا ہے
گل بخشالوی
صحافت ایک عظیم شعبہ ہے صحافت کے کچھ اُصول وآداب ہوتے ہیں لیکن کریں تو کیا کریں ۔ ایک وقت تھا جب صحافی ہونا اور کہلانا قابل فخر تھا لیکن دورِ حاضر کی صحافت میں خود کو صحافی کہنا بھی باعثِ شرم ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کے بے لگام دانشوروں اور ٹیلیویژن میڈیا کے اینکر پرسن لوگوں نے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ صحافت کے نام پر کثافت پھیلانے والوں کا محاسبہ وقت کی ضرورت ہے۔
صحافی معاشرے کا وہ فرد ہوتا ہے جو عوام کو معلومات فراہم کرنے کیساتھ ساتھ ان کے علمی ذوق کے اضافے کا سبب بنتا ہے یعنی صحافی بننا معمولی کام نہیں یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کیلئے ایک خاص قسم کی علمیت اور سمجھ درکار ہے لیکن بدقسمتی سے ہم دورِحاضر میں نہ تو صحافی ہیں نہ دانشور، جو بھی بے روزگار ہے وہ صحافی ہے ایک شہر میں عام شہریوں کی نسبت صحافی زیاد ہ ہیں ۔ ہر دوسرا صحافی کسی نہ کسی بے نام سے اخبار کا چیف ایڈیٹر ہے یا کسی اخبار کا بیوروچیف وہ خود نہیں لکھ سکتا اور نہ صحافت بولنے کے آداب سے واقف ہے لکھنے کیلئے منشی رکھے ہیں ۔نام نہاد صحافیوں کے گروہ میں ایک خبر لکھتا ہے منشی کمپوز کردیتا ہے اور گروہ کے سبھی لوگ وہ خبر اپنے اپنے نام سے اخبارات کو ارسال کر دیتے ہیں ۔ یہ ہے دورِ حاضر کی صحافت صحافی اور صحافت کا معیار۔ کیا ہی بہترہوتا کوئی ادارہ ایسا ہوتا جو ان نام نہاد صحافیوں کو پوچھتا لیکن میرے وطن عزیز میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ اس لےے صحافت اور صحافی آزاد ہے۔ میڈیا کو مکمل آزادی ہے صحافی چاہے کسی کو بانس پر چڑھائے یا کسی کی پگڑی اُچھالے !
یہ ہی وجہ ہے کہ پرنٹ، سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر منافقت کی ایسی ہوا چلی کہ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا اب دیکھتے ہیں سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک سیاستدان کے خلاف فیصلہ دے کر سرِعام گالیاں تو سن ہی رہے ہیں توہین عدالت تو سرِعام ہے سپریم کورٹ سوچ کر فیصلہ کرے گی اگر صحافت کے خلاف بھی ایسا کوئی فیصلہ آیا تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور سپریم کورٹ کے احترام کا کیا بنے گا۔ چیف جسٹس صاحبان اس نقطے کو ضرورسوچ رہے ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں۔