اَنّا نہ بن جائیں یشونت سنہا

ڈاکٹر قمر تبریز

یشونت سنہا نے ایک بڑا اعلان کیا ہے۔ دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک پریس کانفرنس بلا کر انھوں نے میڈیا کے توسط سے اپنے من کی بات ملک کے سبھی باشندوں سے شیئر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ’راشٹر منچ‘ یعنی ’قومی پلیٹ فارم‘ کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں، جس میں ان تمام لوگوں کا خیر مقدم ہے جو جمہوریت کی خستہ ہوتی صورتحال کو لے کر فکر مند ہیں۔ یہ تشویش صرف یشونت سنہا کی ہی نہیں ہے، بلکہ ملک سے سچی محبت کرنے والے ہر ہندوستانی کی ہے۔ لیکن، اس سے بھی بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ انا ہزارے ہوں یا پھر یشونت سنہا، ان لوگوں کو جمہوریت کی فکر صرف اسی وقت کیوں ستاتی ہے، جب ملک میں عام انتخابات کی تاریخیں قریب آنے لگتی ہیں۔

یشونت سنہا نے ابھی ’راشٹر منچ‘ کا اعلان کیا ہی ہے، اس لیے ابھی سے ان پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ تاہم، مذہب اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ مومن کو ایک ہی بل سے دو بار سانپ نہیں کاٹ سکتا۔ اس کے علاوہ ہماری بول چال میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ ’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘۔ یشونت سنہا کے بیک گراؤنڈ پر اگر جائیں، تو ان کی اب تک کی زندگی ایک سیاسی لیڈر سے زیادہ ایڈمنسٹریٹو افسر کے طور پر گزری ہے۔ وہ بہار کے پٹنہ کے رہنے والے ہیں، جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی، پھر کچھ دنوں تک یہ سبجیکٹ وہاں پڑھایا بھی، اس کے بعد انڈین ایڈمنسٹریٹو سروِس میں شامل ہوئے۔ ملک و بیرونِ ملک میں اپنی خدمات متعدد حیثیتوں سے فراہم کرنے کے بعد وہ پہلے جنتا پارٹی میں شامل ہوئے، پھر جنتا دَل کے قیام کے بعد وہاں سے اپنے سرگرم سیاسی کریئر کا آغاز کیا۔ فی الحال وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہیں، لیکن موجودہ مودی حکومت کے ذریعہ لگاتار نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ہمیشہ باغیانہ تیور کے ساتھ سرخیوں میں چھائے رہتے ہیں۔

اب یہاں پر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مودی حکومت نے یشونت سنہا کو اپنی کابینہ میں کوئی معقول جگہ دے دی ہوتی، تب بھی وہ ایسا ہی باغیانہ تیور اختیار کرتے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے، کیوں کہ اٹل بہاری کی قیادت والی بی جے پی حکومت میں وہ وزیر خزانہ اور پھر وزیر خارجہ جیسے ملک کے دو سب سے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ تب بھی مرکزی حکومت کے کئی ایسے فیصلے تھے، جن پر اپوزیشن پارٹیاں ہنگامہ کر رہی تھیں، لیکن اس وقت یشونت سنہا نے ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ اپنی حکومت کا ہمیشہ دفاع کرتے رہے۔ دراصل، بی جے پی میں اس وقت کئی ایسے سینئر لیڈر ہیں جو پارٹی کے اندر کی گروہ بندی کا شکار ہوئے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی ان میں سر فہرست ہیں اور پارٹی کے اندر ان کی موجودہ حالت کو دیکھ کر وہ لوگ بھی ان سے ہمدردی جتا رہے ہیں، جو کبھی ان کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے۔ ہم ہندوستانیوں کی یادداشت بہت چھوٹی ہے۔ اگر ہم ماضی کے صفحات پر گہری نظر ڈالیں، تو پتہ چلتا ہے کہ آج جو ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس قدر نفرت کا ماحول ہے، اس کا بیج انہی لال کرشن اڈوانی نے ’رتھ یاترا‘ نکال کر پورے ملک میں بویا تھا۔ اور تب یشونت سنہا بھی ان کے ساتھیوں میں ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی بھی نہ تو اڈوانی جی کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی ’رتھ یاترا‘ نکالنے کی مذمت کی۔

تو کیا یہ مانا جائے کہ یشونت سنہا کا اس ’قومی پلیٹ فارم‘ بنانے کا اعلان اپنی سیاسی خواہش کی تکمیل کی جانب ایک قدم ہے؟ اس لیے کہ اگر یشونت سنہا کے سیاسی قد کو دیکھا جائے، تو ان کے اندر ابھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ آئندہ کسی بھی الیکشن میں اپنے دو چار نمائندوں کو کسی جگہ سے کھڑا کرکے یہ دعویٰ کر سکیں کہ جیت انہی کی ہوگی۔ اس کے علاوہ، آج دہلی کے پریس کلب میں جو لوگ ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے، وہ بھی اپنی اپنی پارٹیوں کے اتنے قد آور لیڈر نہیں ہیں، جو لاکھوں عوام کو اپنی حمایت میں لے کر چلنے کا دعویٰ کر سکیں۔ مثال کے طور پر عام آدمی پارٹی کے آشوتوش جو صحافت چھوڑ کر سیاست میں اس لیے اترے تھے کہ شاید کجریوال ان کو راجیہ سبھا بھیج دیں گے لیکن ناکام رہے، ترنمول کانگریس کے معتوب لیڈر دنیش ترویدی جن سے کبھی ممتا بنرجی نے وزارتِ ریل چھین لی تھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی مہربانیوں سے وکالت میں اپنا لوہا منوانے کے بعد راجیہ سبھا میں پہنچے ماجد میمن، اردو صحافت کی بدولت پہلے کانگریس پھر سماجوادی پارٹی ہوتے ہوئے کئی پارٹیوں میں اپنا مقام بنانے میں ناکام رہ چکے ’نئی دنیا‘ کے ایڈیٹر شاہد صدیقی، اپنوں کی ہی اندیکھی کی وجہ سے سیاست کے حاشیہ پر پہنچ چکے سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب، اور اس قسم کے درجنوں لوگ یشونت سنہا کے ’راشٹر منچ‘ میں تو شامل ہو گئے، لیکن ان سے بہت زیادہ توقعات لگانا ہماری بیوقوفی ہی ہوگی، ٹھیک اسی طرح جیسے انا ہزارے نے تمام دعووں اور وعدوں کے باوجود سب کو دھوکہ دے دیا، حالانکہ یشونت سنہا کے برعکس ان کے ساتھ لاکھوں لوگ جمع ہو گئے تھے۔

’انا نہیں یہ آندھی ہے، ہندوستان کا گاندھی ہے‘۔ یہ ایک بہت مشہور نعرہ ہے، جو 2014 کے عام انتخابات سے قبل پورے ملک میں اور خاص کر دہلی میں صبح سے لے کر شام تک سنائی دیتا تھا۔ جنتر منتر سے لے کر انڈیا گیٹ تک لوگ ہندوستانی پرچم لیے اتنی تعداد میں نظر آتے تھے، گویا ہم واقعی میں آزادی کی دوسری لڑائی لڑنے جا رہے ہیں۔ لیکن، جس انا ہزارے میں ملک کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے ’اِس دور کے گاندھی‘ کو دیکھا تھا، اس نے سب کو مایوس کیا۔ قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ اس آدمی کے اندر تو اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ وہ ملک کی موجودہ سیاست کو صحیح طریقے سے سمجھ سکے۔ لوک پال تحریک چلانے والے انا ہزارے گزشتہ تین برسوں سے قومی منظر نامہ سے غائب تھے، اور اب جب کہ لوک سبھا الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، وہ پھر سے متحرک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ 2 اکتوبر کو پورا ملک بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یومِ پیدائش مناتا ہے۔ اس دن انا ہزارے بھی اپنے گاؤں رالے گن سدھی سے چل کر دہلی کے راج گھاٹ پر پہنچے۔ اس سے کچھ دن قبل انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوک پال کو لے کر پھر سے دھرنے پر بیٹھنے والے ہیں۔ اور آج ایک بار پھر انا ہزارے کہہ رہے ہیں کہ مودی نے لوک پال نہیں بنایا، اس لیے وہ جلد ہی آندولن شروع کرنے والے ہیں۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ اس بار انا ہزارے پر کون یقین کرے گا؟

انا ہزارے کے بارے میں لوگوں کو یہ تو معلوم ہے کہ وہ فوج میں ٹرک ڈرائیور کا کام کرتے تھے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی نوکری چھوڑ کر بھاگ آئے تھے۔ وہ ہائی اسکول پاس بھی نہیں ہیں۔ انھیں مراٹھی کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی، اس لیے وہ نہ تو انگریزی کا اخبار پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہندی کا۔ انا ہزارے کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملک کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور رالے گن سدھی میں ایک مندر کے اندر فقیری کی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن، اصلیت یہ ہے کہ رالے گن سدھی کے جس مندر میں انا ہزارے رہتے ہیں، اس میں ان کے رہنے کا کمرہ پوری طرح ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ سڑک پر انا ہزارے ایس یو وی گاڑی سے چلتے ہیں، جس کی بازار میں قیمت لاکھوں میں ہے۔ انا ہزارے جو دھوتی کرتا پہنتے ہیں، اس کی دھلائی لانڈری میں کی جاتی ہے۔ گویا کہ انا ہزارے کی پوری زندگی ایک فقیر کی نہیں، بلکہ ایک وی آئی پی کی زندگی ہے۔

انا ہزارے کا دعویٰ ہے کہ ان کے گاؤں رالے گن سدھی میں شراب کی ایک بھی دکان نہیں ہے، لیکن جاننے والوں کا کہنا ہے کہ شام کے وقت اس گاؤں میں شراب کا بھی انتظام ہو جاتا ہے۔ چند سالوں قبل دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب چند صحافیوں نے انا ہزارے سے سوال کیا کہ کیا وہ مودی جی کی حمایت کرتے ہیں، جن کے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے فرقہ وارانہ فساد ہوئے، جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ تو اس کے جواب میں انا ہزارے نے بڑی معصومیت سے کہا تھا کہ انھیں اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ تو پھر انا ہزارے کس طرح خود کو ’دورِ حاضر کا دوسرا گاندھی‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ؟

لوگوں کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے جب پورے ملک میں جنتا پریوار کے نام سے بی جے پی کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس میں ممتا بنرجی، بیجو پٹنائک، چندرا بابو نائڈو، دیوے گوڑا، شرد یادو، ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو وغیرہ لیڈر شامل ہونے کو تیار تھے۔ اس کے بعد انا ہزارے کے کہنے پر ہی جب ممتا بنرجی مغربی بنگال سے چل کر دہلی پہنچی تھیں، رام لیلا گراؤنڈ میں ایک بڑی ریلی کرنے کے لیے، جس میں انا ہزارے کو اس نئے سیاسی محاذ کا اعلان کرنا تھا، پھر رام لیلا گراؤنڈ میں ممتا بنرجی کے پہنچنے کے باوجود انا ہزارے دہلی میں رہتے ہوئے کیوں اس ریلی میں نہیں پہنچے؟ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ریلی میں شامل ہونے کے لیے نکلنے سے پہلے ہی آر ایس ایس کے کسی عہدیدار نے مہاراشٹر بھون میں جاکر انا ہزارے کو دھمکی دے دی تھی اور اسی ڈر سے وہ رام لیلا میدان نہیں پہنچے۔

انا ہزارے نے اسی شخص کو بیچ راستے میں چھوڑ دیا، جس نے انھیں ’دوسرا گاندھی‘ ہونے کا پرچار کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ یعنی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروِند کجریوال۔ انا ہزارے کو یہ بات بہت بری لگی تھی کہ ان کا شاگرد ان سے بڑا کیسے بن سکتا ہے۔ حالانکہ، کجریوال حامیوں کا کہنا ہے کہ کجریوال نے انا ہزارے سے الگ ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا، کیوں کہ انا ہزارے کے قریبی لوگوں میں آر ایس ایس سے وابستہ افراد کی تعداد بڑھنے لگی تھی۔ بعد کے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ انا تحریک سے اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا، تو وہ بھارتیہ جنتا پارٹی تھی۔ اب چونکہ 2019 کا لوک سبھا الیکشن قریب آ رہا ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی راہ ہموار کرنے کے لیے انا ہزارے نے دہلی میں آکر ایک بار پھر اپنا ڈرامہ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تو پھر سوال وہی ہے، کیا یشونت سنہا اور انا ہزارے دونوں ہی آئندہ لوک سبھا انتخابات کے مد نظر پورے ملک میں بی جے پی کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان دونوں کو منظر عام پر لانے کے پیچھے کسی بڑی تنظیم کا ہاتھ ہے، جو ملک کے عوام کو دکھاتی کچھ اور ہے اور کرتی کچھ اور؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔