سہراب الدین انکاونٹر معاملہ اور حکومت و عدالت کا رویہ

سہیل انجم

’’جمہوریت میں اگر ایک شخص کا قد بہت اونچا ہو جاتا ہے تو یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ جیسا کہ وزیر داخلہ (امت شاہ) کا معاملہ ہے۔ تبادلہ، تعین اور ترقی سب اس کی مٹھی میں ہے۔ اگر کوئی اس کا کام نہیں کرتا ہے تو اس کو سائڈ پوسٹنگ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اور کوئی سائڈ پوسٹنگ پر جانا نہیں چاہتا۔ اس لیے سہراب الدین معاملے کے دوران میں نے تبادلے کی درخواست دی تھی … قانون نام کی چیز موجود ہے۔ انکاونٹر پر انکاونٹر تم نہیں کر سکتے۔ البتہ ان وزیروں کے لیے یہ سب بہت آسان ہے۔ وہ آزاد پھرتے ہیں ، ان کو دستخط نہیں کرنا پڑتا ہے۔ وہ بس زبان سے کہہ کر کام کرواتے ہیں … بات سہراب الدین کی اتنی نہیں ہے جتنی اس کی بیوی کی ہے۔ اگر سہراب الدین قانونی اعتبار سے صحیح طور پر کیے گئے انکاونٹر میں مارا گیا ہوتا تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بات تھی اس کی بیوی کی۔ اس کو کیوں مارا گیا اور وہ بھی تین دن بعد۔ ہم نے تحقیقات تب کی جب انکاونٹروں کے فرضی ہونے کی پوری کہانی سامنے آگئی۔ لہٰذا گیتا (گیتا جوہری) نے یہ تحقیقات کی‘‘۔

مذکورہ اقتباس 2002 کے فسادات کے دوران گجرات کے انٹلی جنس سربراہ اور 2005 میں ہونے والے سہراب الدین فرضی انکاونٹر کے وقت ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے پر فائز رہنے والے جی سی رائگار کے بیانات سے لیے گئے ہیں جو انھوں نے صحافی رعنا ایوب کو انٹرویو دیتے ہوئے دیے تھے۔ رعنا نے ایک فرضی خاتون میتھلی تیاگی کے نام سے تہلکہ میں کام کرنے کے دوران انڈر کور رپورٹر کی حیثیت سے سہراب الدین انکاونٹر معاملے کی تحقیقات کی تھی اور یہ پورا معاملہ ’’گجرات فائلس‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ اردو میں اسے نیوز پورٹل مضامین ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے۔

جس وقت سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی کا انکاونٹر ہوا تھا نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی اور امت شاہ وزیر داخلہ تھے۔ رعنا ایوب نے اپنی کتاب میں سہراب الدین کیس کی تحقیقات کے دوران کام کرنے والے ایک پولیس افسر وی ایل سولنکی کا بھی ایک بیان نقل کیا ہے جو انھوں نے سی بی آئی کو تحریری شکل میں دیا تھا۔ یہ بیان بعد میں فرد جرم میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ بیان یوں ہے:

’’نومبر 2006 کے پہلے ہفتے میں انھوں (گیتا جوہری آئی جی) نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا تھا اس لیے میں گاندھی نگر گیا۔ شروع میں انھوں نے انکوائری کی پیش رفت کے بارے میں مجھ سے دریافت کیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگیں کہ اس دن زبردست واقعہ پیش آیا تھا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ریاستی وزیر داخلہ امت شاہ نے ان کو ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس شری رائیگار اور ڈائرکٹر جنرل شری پی سی پانڈے کے ہمراہ اپنے دفتر میں بلایا تھا اور انکوائری کی پیش رفت کے بارے میں سب سے بات کی۔ میڈم نے مجھے بتایا کہ ریاستی وزیر داخلہ کا موڈ بہت خراب تھا۔ اس نے میرے بارے میں ان سے پوچھ گچھ کی اور کہا کہ مجھ جیسا پولیس افسر کیسے ہمت کر سکتا ہے کہ ایسی رپورٹیں تیار کرے جن کی وجہ سے شری ڈی جی ونجارا اور راجکمار پانڈیان جیسے اعلی افسران جو سہراب الدین انکاونٹر کے لیے ذمہ دار تھے، بڑی مصیبت میں پڑ سکتے ہیں ‘‘۔

 یہ دونوں اقتباسات اپنے بین السطور میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں ۔ اِس وقت چونکہ سہراب الدین انکاونٹر معاملہ سرخیوں میں ہے اس لیے ان اقتباسات پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ رائیگار نے بتایا ہی ہے کہ وہ لوگ بہت طاقتور ہیں اور زبانی حکم صادر کرکے اپنا کام کروا لیتے ہیں اور اگر کوئی افسر نہ کرے تو اسے سزا کے طور پر سائڈ پوسٹنگ پر بھیج دیتے ہیں ۔ یہ انکاونٹر اس وقت ہوا تھا جب امت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ اس معاملے میں ان کو جیل بھی ہوئی تھی اور انھیں گجرات سے تڑی پار بھی کر دیا گیا تھا۔ وہ بہت دنوں تک گجرات نہیں جا سکے تھے۔ عدالت نے ان پر یہ پابندی اس لیے لگائی تھی کہ وہ گواہوں کو متاثر نہ کر سکیں۔

آج صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ آج تو نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں اور امت شاہ برسراقتدار جماعت کے صدر اور رکن راجیہ سبھا ہیں ۔ جب ایک ریاست کا وزیر اعلی یا وزیر داخلہ بہت کچھ کر سکتا ہے تو پھر ایک وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کا صدر کیا کیا نہیں کر سکتا۔ سہراب الدین انکاونٹر کے تعلق سے ممبئی میں سی بی آئی عدالت میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ ایک دوسرا معاملہ جسٹس بی ایچ لویا کی موت سے متعلق ہے۔ یہ بھی ممبئی کی عدالت میں تھا مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے اس سے متعلق تمام فائلیں اپنی بینچ میں منگوا لی ہیں اور اب انھی کی بینچ اس معاملے کی سماعت کرے گی۔ شبہ کیا جا رہا ہے کہ جسٹس لویا کی موت کا تعلق سہراب الدین فرضی انکاونٹر سے ہے۔ جسٹس لویا کی بینچ میں یہ معاملہ زیر سماعت تھا کہ اچانک پراسرار انداز میں ان کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد جس جج کی بینچ میں اسے پیش کیا گیا اس نے امت شاہ کو اس کیس سے باعزت بری کر دیا۔ امت شاہ کو بری کیے جانے کے فیصلے کے خلاف سی بی آئی نے کوئی عرضی دائر نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سی سبی آئی کے اس قدم کے خلاف ممبئی کی عدالت میں ایک عرضداشت داخل کی گئی ہے اور اس کے اس رویے پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

اسی درمیان ممبئی کی سی بی آئی عدالت نے سہراب الدین فرضی انکاونٹر معاملے کی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی عاید کر دی تھی جس کو ممبئی ہائی کورٹ کی جج ریوتی موہیتے دیرے نے کالعدم کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اس معاملے میں کیا سماعت چل رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا سب پر نظر رکھتا ہے لہٰذا اسے اس کی رپورٹنگ سے روکا نہیں جا سکتا۔

اس درمیان اس معاملے سے متعلق ایک اور خبر آئی ہے وہ یہ کہ بہت سے گواہ منحرف ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس معاملے میں اب تک 40 گواہوں سے جرح ہو چکی ہے۔ 27 اپنے موقف سے پھر گئے ہیں ۔ جرح کے دوران پولیس والوں نے کمرہ عدالت میں اپنے ہی افسروں کو جو اس معاملے میں ملوث تھے اور اب ملزم ہیں ، پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ان کو نہیں جانتے۔ اس سے پہلے جن گواہوں نے جانچ کرنے والی ٹیم کے سامنے بیانات دیے تھے اب ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے نومبر 2005 میں سہراب الدین، کوثر بی اور تلسی پرجاپتی کو ایک بس سے اغوا کیے جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ بس کے مسافروں ، ڈرائیوں اور کلینر نے اس سے قبل اپنے بیانات میں کہا تھا کہ 23 نومبر 2005 کو ڈیڑھ بجے رات میں ایک کوالیس نے بس کو روکا تھا۔ اس میں سے تین افراد باہر آئے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں ہتھیار تھا۔ وہ بس میں داخل ہوئے تھے۔ انھوں نے دیکھا کے دو آدمیوں اور ایک عورت کو، جو برقعے میں تھی، بس سے اتارا گیا اور لے جایا گیا۔ لیکن دسمبر میں انھی گواہوں نے عدالت میں کہا کہ اس سفر کے دوران ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ دو مسافروں نے جو کہ باپ بیٹے ہیں 6 دسمبر کو بیان دیا اور ڈرائیور اور کلینر نے سات دسمبر کو۔ ان لوگوں نے ایسے کسی بھی واقعہ سے انکار کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ان کے تحریری بیانات کی روشنی میں ان سے جرح کی گئی تب بھی وہ اپنے انکار پر قائم رہے اور یہ کہتے رہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کے بیانات میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اس پر استغاثہ نے کہا کہ تم لوگ ڈر سے جھوٹ بول رہے ہو کیونکہ بس کے تین مسافر مار دیے گئے ہیں ۔انکاونٹر میں شامل پولیس والوں نے بھی ایسے کسی واقعہ سے انکار کر دیا۔ اس کی پوری تفصیل انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی 25 جنوری کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے۔

اگر اس معاملے کے گواہ اپنے بیانات سے مکر گئے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ان کے سامنے جسٹس لویا کی موت ہے، تین مسافروں کا قتل ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سی بی آئی نے امت شاہ کو بری کیے جانے کے خلاف اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کو اسی میں اپنی عافیت نظر آئی کہ وہ بھی اپنے بیانوں سے پلٹ جائیں ۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مالیگاؤں ، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس معاملوں کے گواہ بھی اپنے بیانات سے پلٹ چکے ہیں ۔ کانگریس کا یہ الزام بالکل درست ہے کہ حکومت سی بی آئی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ یہی بی جے پی ہے جو یو پی اے کے زمانے میں اس پر سی بی آئی کے ناجائز استعمال کا الزام عاید کیا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پنجرے میں بند طوطا قرار دیا تھا۔ لیکن اب نہ تو بی جے پی کو سی بی آئی سے کوئی شکایت ہے اور نہ ہی عدالت کو۔

رائیگار کا یہ بیان ذہن میں رکھیے کہ ’’جمہوریت میں اگر ایک شخص کا قد بہت اونچا ہو جاتا ہے تو یہ بڑی خطرناک بات ہے‘‘ اور پھر اس معاملے پر اور اس جیسے دیگر معاملات پر غور کیجیے، صورت حال از خود واضح ہو جائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔