انسان اور زمین کی حکومت (قسط 44)
رستم علی خان
چنانچہ حضرت جبرائیل امین بصورت ایک بڑھئی کے حضرت موسی کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر آئے اور ایک صندوقچہ اللہ کے حکم سے ایسا تیار کیا کہ جس میں حضرت موسی کو کوئی تکلیف یا پریشانی کسی قسم کی نہ اٹھانی پڑے- پس حضرت جبرائیل صندوقچہ تیار کر کے وہاں سے نکلے اور یہ بھید سوا اللہ کسی کو معلوم نہ ہوا-
اور ایک شرح اس کی یوں بیان ہوئی ہے کہ، جب حضرت موسی کی والدہ بڑھئی کو لیکر گھر آئیں تو یہ بات کسی کو معلوم نہ پڑی مگر ایک ہمسائے نے آپ کو دیکھ لیا- پس وہ پیچھے ہوا اور گھر میں ایک بچے کی موجودگی کے بارے جان گیا اور اس راز سے واقف ہو گیا- تب حضرت موسی کی والدہ کو یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ اس راز کے بارے فرعون یا اس کے لوگوں کو نہ بتا دے لہذا اسے اپنے پاس سے ستر دینار بطور رشوت ادا کئیے اور اسے قسم دے کر کہا کہ خبردار اس بات کا ذکر بھی نہ کسی سے کیجئو- اور بڑھئی کو بھی ستر دینار بطور اجرت ادا کر کے رخصت کیا-
اس ہمسایہ نے بی بی سے بھی ستر روپیہ لے کر کھا لیا اور شیطان نے اس کے دل میں خیال پیدا کیا کہ اگر تو اس بارے فرعون کو خبر کرے گا تو یقینا وہ ایک اچھی خبر دینے کے عوض تجھے اور بھی انعام دے گا- اور تجھ پر اپنی نعمتوں اور نوازشوں کو بڑھائے گا- پس وہ اس نیت سے فرعون کے محل کی طرف چلا کہ اسے لڑکے کے بارے خبر دے اور کچھ انعام حاصل کرے اور فرعون لعین کی خدمت اور نعمت سے سرفرازی حاصل کرے- چنانچہ جب فرعون کے پاس پنہچا اور چاہا کہ اسے بتاوے تبھی اللہ نے اس کی زبان بند کر دی اور وہ گونگا ہو گیا- لہذا واپس آ گیا- جب باہر نکلا تو زبان پھر کھل گئی اور پھر چاہا کہ جا کے بتاوے- جب فرعون کے سامنے پنہچا تو زبان پھر گونگی ہو گئی- پھر جب باہر آیا تو زبان کھل گئی- اور نقل ہے کہ اسی طرح سات مرتبہ قصد کیا کہ جا کے بولے اور سات دفعہ زبان بندی ہوئی- تب وہ سمجھ گیا اور اس حرکت سے باز آیا اور سچے دل سے توبہ کی اور ایمان لایا اور دوبارہ یہ بات کسی سے نہ کہنے کا عہد کیا اور اس پر قائم رہا- واللہ اعلم الصواب
الغرض حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ نے انہیں دودھ پلایا اور بعد اس کے انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر صندوقچے میں بند کیا اور پھر اس صندوقچے کو دریائے نیل میں بہا دیا- اور اپنی بیٹی یعنی حضرت موسی کی بہن مریم کو کہہ دیا کہ؛ اے بیٹی تو اس صندوقچے کو دیکھتی ہوئی اس کے ساتھ دریا کے کنارے پر جا ایسا نہ ہو کہ کوئی اس صندوقچے کو دیکھے- اور پھر آ کے خبر کرئیو- جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے؛
ترجمہ: اور کہہ دیا اس کی بہن کو اس کے پیچھے چلی جا- پھر وہ دیکھتی رہی اس کو اجنبی ہو کر اور ان کو خبر نہ ہوئی-
یعنی حضرت موسی کی بہن اس صندوقچے پر نظر رکھے ہوئیں تھیں لیکن انداز ایسا تھا جیسے وہ کسی اور جانب دیکھ رہی ہوں اور ایسا اس وجہ سے کہ کوئی اس طرح انہیں دیکھتے ہوئے دیکھ کر صندوقچے کی طرف متوجہ نہ ہو جائے- لہذا اس طرح کسی کو اس بارے کچھ خبر نہ ہوئی سوائے اللہ کے کہ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے-
روایت ہے کہ فرعون نے ایک محل عالیشان دریائے نیل کے کنارے بنایا ہوا تھا- نام اس محل کا "عین الشمس” تھا- اس پر ایک حوض بنا کر دریا کے پانی کو کاٹ کر ایک نہر اس حوض پر جاری کی تھی- اور اس پر چار ستون سونے کے بنائے تھے- اس طرح کہ حوض کے کنارے سے عمارت کی بلندی سے اوپر نکل جاتے تھے- اور دو درخت حوض کے کنارے ایسے تھے کہ جن میں سے ایک میں سے روغن زرد نکلتا اور دوسرے میں سے روغن سرخ نکلتا اور افادیت ان کی یہ بیان ہوئی کہ وہ روغن جس بیمار آزاری کو دیتا وہ خدا کے فضل سے شفایاب ہوتا- تب فرعون ملعون انہی درختوں کے سبب دعوی خدائی کرتا- اور ربویت کی دلیل ان دو درختوں سے دیتا کہ میری ربویت کی یہ دلیل ہے- پس خلق اور بھی ان درختوں کی کرامت سے اور بھی فرعون کی ربویت کی قائل ہو کے گمراہ ہوتی چلی گئی-
الغرض حضرت موسی کا صندوقچہ دریائے نیل میں بہتا ہوا اسی نہر کی طرف مڑ گیا جو فرعون نے اپنے محل کے حوض کی طرف بنائی ہوئی تھی- اور اس نہر میں بہتا ہوا فرعون کے محل میں بنے ہوئے حوض میں جا ٹھہرا۔
پس جناب موسی کی ماں فرعون کے محل پر آئیں اور دیکھا کہ بہت ساری دائیاں کھڑی ہیں لیکن حضرت موسی کسی سے دودھ نہیں پی رہے اور نہ ہی خوش ہو رہے ہیں- چنانچہ جیسے ہی آپ کی والدہ نے آپ کو گود میں لیا تو حضرت موسی اسی وقت چپ ہو گئے- بعد اس کے جب دودھ پلایا تو وہ بھی پینے لگے- پس وہاں موجود سب دائیاں اور باقی لوگ حیران ہو کر دیکھنے لگے- تب حضرت موسی کی ماں نے خوش کر فرعون اور باقی سب کو بتانا چاہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میں ہی اس کی ماں ہوں اس لیے میرے پاس خوش ہوتا ہے- لیکن اسی وقت اللہ کی طرف سے ان کے دل پر وحی ہوئی کہ، اے خاتون خبردار یہ بات ہرگز کسی سے نہ کیجئو- اور کسی کے سامنے بھی یہ راز نہ کھولنا اور نہ بتانا کسی کو کہ یہ تمہارا بیٹا ہے- پس والدہ آپ کی چپ رہیں-
ہامان ملعون جو فرعون کا وزیر تھا وہ بھی اس وقت وہیں موجود تھا- اس نے جناب موسی اور ان کی والدہ کی شباہت سے اور دوسرا عورت کے بچے کو سنبھالنے کے قرینے سے کچھ شک اور قیاس کیا- لہذا کہنے لگا کہ، اے عورت یہ بچہ تیرے ہی بطن سے معلوم ہے- کہ تمہارا اسے سنبھالنے کا سلیقہ الگ ہے- تب بی بی نے کہا کہ نہیں یہ میرے بطن سے نہیں ہے اور نہ مجھے کچھ معلوم ہی ہے اس کے بارے- ہاں یہ میرے دودھ سے بہت خوش ہوا ہے- پس میں چاہتی ہوں کہ میں اسے بادشاہ کے لیے پالوں-
تب فرعون نے کہا کہ اب سے تم ہی اس بچے کو دودھ پلانا اور اپنے دودھ پلانے کی اجرت روزانہ ایک دینار ہم سے وصول کر لیا کرنا- تب حضرت موسی کی والدہ تیس دینار اجرت مہینہ کی فرعون سے لیا کرتیں اور اپنے بچے کو دودھ پلاتی- اللہ تعالی فرماتا ہے؛
ترجمہ: پھر پنہچا دیا ہم نے موسی کو اس کی طرف کہ ٹھنڈی رہے اس کی آنکھ اور غم نہ کھاوے اور جان رکھے کہ وعدہ اللہ کا سچا ہے لیکن اکثر اس کو نہیں جانتے- (القرآن)
اسی طرح حضرت موسی فرعون کے محل میں ہی پل رہے تھے اور آپ کی والدہ روزانہ آپ کو دودھ پلانے آتیں اور دیکھ کر آنکھیں اور سینہ ٹھنڈا کرتیں-
اسی طرح کچھ عرصہ گزرا کہ ایک دن فرعون حضرت موسی کو کھیلتے اور ہاتھ پاوں مارتے دیکھ بہت خوش ہوا- اور انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور پیار کرنے لگا- جب وہ آپ کے منہ پر بوسے دے رہا تھا تبھی جناب موسی نے ایک ہاتھ سے فرعون کی داڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا-
تب ملعون نے اسی وقت غصے میں آ کر مار ڈالنے کا قصد کیا اور کہا کہ ہو نہ ہو یہی وہ بچہ ہے جو میری مملکت تباہ کرے گا- اور جس کے ہاتھ سے میری حکومت اور تحت و تاج تمام تاراج ہو گا- اور قریب تھا کہ وہ حضرت موسی کو قتل کرتا حضرت بی بی آسیہ نے ملعون کو روکا اور کہا کہ، کیا تم نہیں جانتے کہ وہ ایک بچہ ہے اور دودھ پیتے بچے ایسے کام کرتے ہی رہتے ہیں اور ان میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی کہ نفع نقصان کے بارے سمجھ سکیں- اور نہ ہی اچھے برے میں تمیز ہوتی ہے- اور جو تم خیال کرتے ہو کہ یہ بچہ تمہاری مملکت تباہ کرے گا تو یہ کیسے ممکن ہے جبکہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا نہیں ہے بلکہ یہ تو کہیں اور سے دریا میں بہتا ہوا آیا ہے- اور بنی اسرائیل کے تمام لڑکوں کو تو تم نے مار ڈالا ہے- سو اس بات پر اسے قتل نہ کرو کیونکہ جو عمل اس سے سرزد ہوا وہ نا سمجھی اور طفولیت کی وجہ سے ہوا ہے نا کہ دانستہ یا جان بوجھ کر ایسا کیا ہے-
تب فرعون ملعون نہ مانا اور کہا کہ میں آزمانا چاہتا ہوں کہ آیا کہ ایسا واقعی ناسمجھی میں ہوا یا یہ بچہ ہی وہ ہے جو میرا ملک برباد کرے گا- پس واسطے آزمائش کے ہامان ملعون نے دو تھال بڑے منگوائے جن میں سے ایک میں یاقوت سرخ یا پھول تھے اور دوسرے میں دہکتے ہوئے کوئلے رکھے تھے- پس کہا ہامان نے کہ اگر یہ کوئلوں کو پکڑے گا تو مطلب اس کا یہ کہ یہ بنی اسرائیل سے نہیں ہے اور جو اس نے کیا وہ ناسمجھی اور طفولیت کے باعث ہوا- اور اگر دوسرے تھال سے یاقوت یا پھول اٹھائے تو مطلب کہ یہی وہ بچہ ہے جو ہمارق دشمن ہو گا اور اس نے دانستہ ایسا کیا اور اشارہ دیا-
پس جب تھال سامنے رکھے گئے تو جناب موسی نے چاہا کہ یاقوت اٹھائیں لیکن اللہ تعالی نے جبرائیل کو حکم کیا کہ فورا جاو اور موسی کا ہاتھ انگاروں کی طرف لے جاو- چنانچہ حضرت موسی نے ایک دہکتا ہوا کوئلہ اٹھایا اور اسے اپنے منہ میں رکھ لیا- تب اس کی وجہ سے آپ کے ہاتھ کا کچھ حصہ اور زبان جل گئی جس کی وجہ سے بعد میں آپ کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی اور آپ کو صاف طرح سے اپنی بات بیان کرنے میں مشکل پیش آتی-
الغرض جب ایسا ہوا تو بی بی آسیہ نے فرعون سے کہا کہ میں نہ کہتی تھی کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں اور برے بھلے کی تمیز ان کو نہیں ہوتی- اور نہ وہ نفع نقصان ہی سمجھتے ہیں- پس تب یقین ہوا فرعون کو ان کی باتوں کا اور حضرت موسی کو گود میں اٹھایا اور پیار کیا- اور بعد اس کے ان کی ماں کے حوالے کیا کہ انہیں دودھ پلائے اور خوش کرے۔
تبصرے بند ہیں۔