انسان اور زمین کی حکومت (قسط 43)

رستم علی خان

مروی ہے کہ ایک رات فرعون نے خواب دیکھا کہ دو درخت زمین پر اگے اور وہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کی بلندی عالم بالا تک پنہچی اور عالم تمام ان کے زیر سایہ ہوا- فرعون اس عجیب و غریب خواب سے بہت حیران ہوا چنانچہ صبح اٹھ کر اپنے درباریوں اور حکیموں، نجومیوں اور جادوگروں کو بلا کر ان سے اپنا خواب بیان کیا اور کہا کہ مجھ سے اس عجیب خواب کی تعبیر بیان کرو-

ان سب نے کہا کہ ہمیں تھوڑا وقت دو تاکہ ہم دیکھ سکیں- حکمت دانوں نے کہا کہ ہم اس کی تعبیر اپنی کتابوں سے ڈھونڈتے ہیں اور نجومیوں نے کہا کہ ہم ستاروں کی چال دیکھتے ہیں اور اس خواب کی تعبیر کے بارے خساب لگاتے ہیں- اور جادوگروں نے بھی اپنے علم اور عملیات استمعال کرنے تک کا وقت مانگا- چنانچہ سب نے اپنا اپنا خساب کتاب مکمل کرنے کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے اصلاح مشورہ کیا اور پھر ان میں سے ایک آدمی نے یوں بیان کیا کہ اے فرعون ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی قوم سے ایک بچہ ایسا پیدا ہو گا کہ بڑا ہونے پر مملکت تمام تمہاری خراب کرے گا- اور تمہاری بادشاہی کو ختم کرے گا اور سب لوگ اسی کے زیر سایہ ہوں گے- ملک و مملکت اور نعمت کل اسی کے ہاتھ میں آوے گا-

یہ سن کر فرعون بڑا پریشان ہوا اور پوچھا کہ بتاو تو وہ بچہ کب پیدا ہو گا- وہ بولے اس تین رات دن میں باپ کی پشت سے ماں کی رحم میں آوے گا- فرعون نے حکم جاری کیا کہ سارے شہر میں منادی کروا دو کہ جتنے بنی اسرائیل ہیں آج سے کوئی مرد اپنی جورو کے ساتھ ہمبستر نہ ہونے پاوے- اور نہ کوئی عورت ہی اپنے شوہر سے ہمبستر ہو اور جو حکم عدولی کرے گا اسے قتل کر دوں گا- اور اپنے خاص آدمیوں میں سے ایک ایک کو بنی اسرائیل کے ہر گھر پر متعین کیا کہ عدولی حکم کسی صورت نہ ہونے پاوے- لعنتہ اللہ علیہ-

تب فرعون کے ڈر کے مارے کوئی آدمی اپنی بی بی سے مباشرت نہ کرتا- مگر تقدیر الہی کے سامنے کوئی چارہ نہ تھا- باوجود اس تنبیہہ اور تہدید کے اس تین دن کے اندر جو نجومیوں نے کہا تھا روز موعود میں وہ بچہ یعنی حضرت موسی علیہ السلام ماں کے شکم میں آئے- سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم –

شرح اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسی کی والدہ جو عمران کی بیوی تھیں- وہ بنی اسرائیل کی قوم سے تھیں- پہلے ان سے ایک بیٹا جن کا نام ہارون علیہ السلام اور ایک بیٹی جن کا نام مریم تھا تولد ہوئے تھے- عمران فرعون کے ساتھیوں میں سے تھا اور اس دن فرعون کی محل میں تھا- ادھر بی بی کو شوق مباشرت کا ہوا بہت صبر کیا لیکن جب کوئی صورت نظر نہ آئی اور صبر و قرار تمام بحکم ربی جاتا رہا تو وہ آدھی رات کے وقت اٹھیں اور گھر سے نکل پڑیں اور فرعون کے محل کے دروازے پر جا پہونچیں- مرضی الہی سے تمام دروازے محل کے کھل گئے اور تمام نگہبانوں اور دربانوں پر نیند طاری کر دی گئی- حضرت موسی کی والدہ کے دل سے اس وقت تمام ڈر خوف نکال دیا گیا- چنانچہ وہ بےخطر محل میں داخل ہوئیں- اور سیدھا فرعون کی خواب گاہ تک جا پنہچیں- تب اپنے شوہر کو دیکھا کہ فرعون کی نگہبانی میں کھڑا ہے اور سوائے ان کے تمام لوگوں پر نیند کو طاری کر دیا گیا- ادھر اللہ تعالی نے حضرت موسی کے والد کے دل میں بھی وصل کی خواہش کو اجاگر کیا- پس جب انہوں نے اپنی بی بی کو دیکھا تو صبر و قرار تمام جاتا رہا- پس دونوں میاں بیوی نے وہاں سے ہٹ کر مباشرت کی اور اس طرح مرضی الہی سے حضرت موسی علیہ السلام اسی رات کو اپنے باپ کی پشت سے ماں کی شکم میں آئے- بعد اس کے حضرت موسی کی والدہ وہاں سے نکل کر اپنے گھر کو آ گئیں اور یہ بھید کسی کو معلوم نہ ہوا سوائے رب العالمین کے کہ وہ سر باطن کی خبر رکھتا ہے- (اسی طرح کی شرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بارے بھی بیان ہوئی ہے- واللہ اعلم الصواب)

الغرض چوتھے روز صبح کے وقت فرعون نے پھر تمام نجومیوں اور حکمت دانوں کو بلایا اور پوچھا کہ کہو تو اس لڑکے کے بارے کیا کہتے ہو وہ پیدا ہوا یا نہیں- تب انہوں نے اپنے اپنے خساب کتاب لگائے اور انہیں گن جوڑ کر جواب دیا کہ وہ لڑکا شب گذشتہ کو وہ لڑکا اپنے باپ کے صلب سے ماں کے رحم میں آ چکا ہے- تب ملعون نے تمام سپاہیوں اور پہریداروں کو حکم کیا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہو اسے مار ڈالو اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دو- اور ستر درہم بعوض خون کے اس کی ماں کو دے دیجئو- اور پھر ایسا اتفاق ہوا کہ چند روپوں کے لالچ میں ماں باپ اپنے بچے کو لا کر خود فرعون کے حوالے کرتے اور اس مردود کے حکم پر اسے خود مار ڈالتے- اور اس کے علاوہ ملعون نے بنی اسرائیل کے ہر گھر میں ایک ایک قبطی کو تعینات کیا ہوا تھا جو بچے کی پیدائش پر دیکھتے اگر لڑکا ہوتا تو اسے مار ڈالتے اور اس کے خون کے بدلے ماں باپ کو ستر درہم ادا کرتے اور اگر لڑکی ہوتی تو اسے زندہ چھوڑ دیتے۔

پس بنی اسرائیل کو فرعون ملعون نے دکھ میں رکھا ہوا تھا- اور ان کے بیٹوں کو قتل کرتا اور اس کی طرف سے قبطی عورتیں آ کے بنی اسرائیل کی عورتوں کے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتیں- غیر محرم آ کے حمل دیکھتے پیٹ سے ہیں یا نہیں- چنانچہ ارشاد باری ہے؛
ترجمہ: اور جب چھڑا دیا ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، کہ دیتے تم کو بڑی تکلیف، ذبح کرتے تمہارے بیٹے، اور جیتی رکھتے تمہاری عورتیں اور اس میں آمائش ہوئی تمہارے رب کی بڑی-

فرعون ملعون کے آدمی آتے اور بنی اسرائیل کی عورتوں کے حمل دیکھتے کہ پیٹ سے ہیں یا نہیں- ادھر حضرت موسی کی والدہ حمل سے تھیں- ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ وہ روٹی بنا رہی تھیں کہ درد زچگی کا اٹھا- اور حضرت موسی علیہ السلام تولد ہوئے- مانند آفتاب منور کے کہ ان کے نور سے پورا گھر جگمگا اٹھا- جو کوئی ان کی طرف دیکھتا آنکھیں خیرہ ہو جاتیں- ادھر حضرت موسی کی ولادت ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی کہ فرعون کے لوگ آ پنہچے- تب حضرت موسی کی والدہ کو اندیشہ ہوا کہ اگر ان کو پتا چلا تو ضرور میرے بچے کو مار ہی ڈالیں گے-

اور اللہ سے دعا کر رہی تھیں کہ تو ہی میرے بچے کو ان ظالموں کے شر سے اپنی پناہ میں رکھ اگر انہوں نے دیکھا تو یہ تو مار ہی ڈالیں گے- آخر جب کوئی جگہ چھپانے کو نہ ملی تو روٹیاں بنانے کے لیے جو تنور تپایا ہوا تھا حضرت موسی کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اس جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا اور اس پر ایک خالی دیگ کو چڑھا دیا کہ دیکھنے سے یہی گمان ہو کہ کھانا پک رہا ہے- بعد اس کے فرعون کے لوگوں نے آ کے عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو کچھ اثر حمل کا نہ دیکھا- اور باقی گھر میں دیکھا لیکن تنور کو جلتا ہوا دیکھ کر خیال کیا کہ بھلا اس میں کوئی کیسے ہو سکتا ہے اور واپس چلے گئے-

اور اس کی ایک شرح یوں بیان ہوئی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے لڑکے قتل کیے جانے لگے تو قبطی فرعون کے پاس پنہچے اور عرض کی کہ اے بادشاہ اگر اسی طرح بچے قتل کرتے رہے تو قریب ہے کہ بنی اسرائیل میں لڑکے بالے ختم ہو جائیں تب ہمارے کام اور خدمت کون کرے گا- تب ملعون نے اعلان کیا کہ ایک دن پیدا ہونے والے بچوں کو چھوڑ دو اور دوسرے دن کے قتل کر دو- اور حضرت موسی کی ولادت اس دن ہوئی جس دن کو چھوڑ دیتے تھے- اور ملعون روز نجومیوں سے اس بابت دریافت کرتا جب حضرت موسی کی ولادت ہوئی تب انہوں نے بتایا کہ وہ بچہ حفاظت والے دن پیدا ہو چکا ہے- تب ملعون نے حکم جاری کیا کہ شہر میں دیکھو اور جس گھر میں نومولود بچہ نظر آئے قتل کر دو- پس جب فرعون کے لوگ جناب موسی کے گھر پنہچے تو آپ کی والدہ کو ڈر ہوا کہ یہ میرے بچے کو قتل کر دیں گے- تب انہوں نے آپ کو تنور میں ڈال دیا جو اس وقت دہک رہا تھا- واللہ اعلم الصواب-

الغرض جب فرعون کے لوگ دیکھ بھال کر اور گھر میں کسی بچے کو نہ پا کر واپس ہوئے تو حضرت موسی کی والدہ کو اپنے بچے کا دھیان آیا- تب وہ اپنے بچے کے غم میں رونے لگیں اور اپنے گال پیٹنے لگیں کہ یہ مجھ سے کیسا ظلم ہوا میں نے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دیا- اور تنور کی طرف دیکھا تو اس میں دہکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر خود سے کہنے لگیں کہ ہائے ہائے اب تک تو وہ معصوم جان جل کر بھسم ہو چکا ہو گا اور راکھ بھی نہ ہو گی- کاش اس کی کوئی ہڈی ہی مل جاتی کہ اپنے دکھی اور غمزدہ دل کی کچھ تو دوا کرتی-

اور بعد اس کے تنور پر سے دیگ اتاری کہ شائد جگر گوشے کی کوئی باقیات ہی مل جائے یا فطری طور پر ایسا کیا- اور جب دیگ اٹھائی تو دیکھا کہ بچہ بلکل حفاظت کے ساتھ آگ میں کھیل رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک سیب ہے گو کہ وہ موسم سیبوں کا ہرگز نہ تھا- پس یہ دیکھ کر حیران ہوئیں اور اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں-

بعد اس کے بچے کو آگ میں سے نکالا اور دل میں ڈرنے لگیں اور متفکر ہوئیں کہ بچے کو کہاں چھپا کر رکھوں- ایسا نہ ہو کہ فرعون کے لوگ اسے آ کر لے جائیں اور مار ڈالیں- یا کوئی اور ہی دیکھ کر روپے کی لالچ میں فرعون کو اس کی خبر نہ کر دے اور وہ ملعون اسے قتل کر دے- پس اسی فکر میں روتی جاتیں اور بچے کو چھپانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ تلاش کرتیں- تب اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا-

ترجمہ؛ پس ہم نے حکم بھیجا موسی کی ماں کو کہ اس کو دودھ پلا- پھر جب تم کو ڈر ہو اس کا تو ڈال دے اس کو دریائے نیل کے پانی میں- اور نہ خطرہ کر اور نہ غم کھا عنقریب ہم پھر پنہچا دیں گے تیری طرف اور کریں گے اس کو رسولوں میں سے- (القرآن)

یعنی اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اے موسی کی ماں غم نہ کر اسے دودھ پلاو اور اگر تمہیں فرعون کی طرف سے اس کی جان کا خطرہ ہے تو اسے دریائے نیل میں ڈال دو- ہم خود اس کی حفاظت کریں گے اور جلد ہی اسے دوبارہ تمہاری طرف واپس بھیج دیں گے اور تب تمہیں کوئی خطرہ اس کی جان کی طرف سے نہ ہو گا- کیونکہ یہ ہمارا رسول ہے اور یہی ہے جو فرعون کی مملکت کو تباہ کرے گا اور بنی اسرائیل کو حفاظت کے ساتھ فرعون کے ظلم سے نکال لے جائے گا-

پس حضرت موسی کی والدہ یہ بشارت سن کر بہت خوش ہوئیں اور کسی بڑھئی کی تلاش میں گھر سے نکلیں تاکہ ایک صندوقچہ تیار کروا سکیں جس میں رکھ کے جناب موسی کو دریائے نیل میں بہا سکتیں- تبھی حضرت جبرائیل امین بصورت ایک بڑھئی کے ان کے سامنے آئے- تب انہوں نے پوچھا کہ کیا تم صندوقچہ بنانا جانتے ہو- حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ جانتا ہوں- پس وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لیکر آئیں۔

تبصرے بند ہیں۔