بہار کی یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق: عروج سے زوال کا سفر

صفدر امام قادری

آزادی کے بعد شعبۂ اردو،  پٹنہ یونی ورسٹی کی نگرانی ممتاز ادیب اختر اورینوی کے حصّے میں آئی اور کم و بیش تین دہائیوں تک انھوں نے اس شعبے کو اپنی ادبی، علمی اور تنظیمی  صلاحیت سے استحکام بخشا۔ ان کے ہم عصروں میں اختر قادری نے جب مظفر پور میں بہار یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہاں کی قیادت سنبھالی۔ عطا کاکوی، شمس منیری، سید حسن،  علی حیدر نیراور فیاض الدین حیدر وغیرہ نے بھی بہار میں اردو فارسی شعبوں کی اُس زمانے میں آبیاری کی مگر اختر اورینوی کو بہر حال یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے پٹنہ یونی ورسٹی کو ہندستان کے اہم شعبہ ہاے اردو میں پہچان دلانے میں کامیابی پائی۔ کہا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد کے زمانے میں اختر اورینوی، آل احمد سرور، خواجہ احمد فاروقی اور سیّد احتشام حسین شعبہ ہاے اردو کے ایسے سرخیل تھے جنھیں دنیاوی خدا کا درجہ حاصل تھا۔ اختر اورینوی نے اپنی تدریس سے پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کو مثالی شعبہ بنانے کی کوشش کی۔بے شک انھیں جمیل مظہری جیسے رفیقِ کار اور ایک مدت تک باہر سے کلیم الدین احمد کی تدریس کا تعاون حاصل ہوا۔ اختر اورینوی نے اپنے شاگردوں کے لیے ان کی استعداد کے مطابق تحقیق کے ایسے موضوعات مقرر کیے جن کی بنیاد پر بعض ایسی تحقیقات سامنے آئیں جنھیں اب بھی مثالی تحقیق کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک اختر اورینوی کی تدریس کے معیار پر غور کریں تو اب بھی ایسے سیکڑوں کی تعداد میں غیر اردو داں مل جائیں گے جو اختر اورینوی کے طریقۂ تدریس کو ملاحظہ کرنے کے لیے پٹنہ کالج میں خصوصی اجازت لے کر فیض یاب ہوتے تھے۔ جمیل مظہری سے جن طلبہ نے اس زمانے میں مرثیہ نگاری کی تاریخ اور اس کے فن کے بارے میں پڑھ لیا، ان کے لیے وہ حرفِ آخر ثابت ہوا۔

 پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کو معیار بخشنے کے لیے اختر اورینوی نے تحقیق کے لیے غور و فکر کرکے ایک خوش گوار ماحول بنایا۔ بہار کی ادبی تاریخ نویسی پر تحقیق کا آغاز خود اختر اورینوی نے کردیا تھا اور اپنے ڈی لٹ کا مقالہ ابتدا سے ۱۸۵۷ء تک کے زمانے کو سامنے رکھ کر مکمل کیا تھا۔ قاضی عبدالودود کے تبصرے کے مندرجات بے شک درست تھے مگر اس سے اختر اورینوی کی تحقیق کی افادیت کم نہیں ہوتی۔ اختر اورینوی نے ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک کے عرصے کو سامنے رکھ کر نثر کے لیے مظفر اقبال، شاعری کے لیے کلیم عاجز کو منتخب کیا۔ مظفر اقبال کی کتاب آج ہمارے سامنے ہے: ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقا‘‘۔ مجھے یہ کہنے میں کسی طرح کا تحفظِ ذہنی نہیں کہ اس سے بہتر شعبۂ اردو، پٹنہ یونی ورسٹی میں شاید ہی کوئی تحقیقی مقالہ لکھا گیا ہو۔ یہی نہیں،  ہند و پاک کی تمام بڑی یونی ورسٹیوں میں جو اعلا پاے کے تحقیقی مقالے لکھے گئے،  ان میں ہم فخر کے ساتھ مظفر اقبال کے اس مقالے کو پیش کرسکتے ہیں۔

اختر اورینوی نے یہ ماحول بھی بنایا تھاکہ دوسرے اساتذہ بھی دبستانِ عظیم آباد کے مختلف موضوعات پر کام کریں اور اپنے شاگردوں کو اس جانب متوجّہ کریں۔ بعض اساتذہ اور تحقیق کاروں نے اس موضوع کے تحت انفرادی مطالعات پر بھی توجہ کی۔ آصفہ واسع نے بہار میں اردو ناول نگاری پر تحقیقی مقالہ لکھا اور بعض گم شدہ کڑیوں کو جوڑنے میں کامیاب ہو ئیں۔ انفرادی مطالعے کے تحت شاہ آیت اللہ جوہری، رکن الدین عشق، راسخ عظیم آبادی، مرزا محمد فدوی، رنجور عظیم آبادی، حسرت عظیم آبادی وغیرہ شعرا کے سلسلے سے کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ الگ الگ صنفوں کا انتخاب شروع ہوا اور دبستانِ عظیم آباد کے چھوٹے چھوٹے حصوں کوبھی تحقیق کا موضوع بنانے کی کوششیں بار آور ہوئیں۔

پٹنہ یونی ورسٹی کے فارغین اب بہار کے مختلف کالجوں میں پھیلنے لگے اور یہی نہیں،  بہار سے باہر بھی وہ نکلنے لگے تھے۔ کچھ فارغین تو پہلے ہی اختر اورینوی کی تربیت پاکر پاکستان پہنچ گئے تھے اور وہاں بھی درس و تدریس کے فرائض میں منہمک ہوگئے تھے۔ مظفر پورمیں اختر قادری نے بھی بہت حد تک اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ سوانح نگاری اور مثنوی نگاری جیسی اصناف پر بہار کے حوالے سے اور قومی سطح سے دونوں انداز کی تحقیقات سامنے آئیں۔ شادؔ کی نثر نگاری پر وہاب اشرفی نے بہار یونی ورسٹی سے ہی ڈگری حاصل کی۔ رانچی میں جب نئی یونی ورسٹی بنی اوراختر قادری اور اختر اورینوی کے شاگردوہاں پہنچے تو پھرنئے سرے سے یہ فیضانِ جاریہ شروع ہوا۔ کہتے ہیں،  بزرگوں کی نسل کے بعد سب سے طاقت ور شعبہ شعبۂ اردو، رانچی یونی ورسٹی ہی میں بن گیا تھا جہاں وہاب اشرفی، ابوذر عثمانی،احمد سجاد، ش۔اختر، سمیع الحق، صدیق مجیبی دیر سویر جمع ہوتے چلے گئے۔ابتدائی دور میں تحقیق کے سلسلے سے معقول پیش رفت ہوئی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کے سنہرے دور کو تو دہرایا نہیں جاسکا مگر جمشید قمر، حسن رضا اور قیصر زماں کے تحقیقی مقالوں کو معیار کے اعتبار سے کم تر نہیں قرار دیا جاسکتا۔

مگر اسّی کی دہائی کے بعد بہار کے تمام شعبہ ہاے اردو کی تعلیم و تدریس کا کام جن اساتذہ کے سپرد ہوا اور جن کے کاندھے پر اپنے اساتذہ کے اچھے کاموں کو آگے لے جانے کی ذمہ داری عاید ہوئیـ؛ ان میں سے کچھ تعلیم سے بے رخ ہوئے، کچھ تدریس سے بے رغبتی میں مبتلا ہوئے، کچھ بازار کے مدوجزر کے اعتبار سے اپنے مفاد میں الجھتے چلے گئے، کچھ سست اور کاہل ہوگئے اور کچھ اپنی آبرو سے بے فکر سرپٹ بھاگتے رہے، کچھ نے نقل نویسی کو شعار بنایا، کچھ نے اسے صنعت کے طور پر فروغ دیا؛ مگر اس دوران شاید ہی کسی کو یہ خیال آیا ہو کہ یہ اجتماعی طور پر بہار میں اردو کی اعلا تعلیم کی قبر کھودنے کا کام تھا اور بے شک اس کام کا سہرا بھی اختر اورینوی اور اختر قادری کے بعض شاگردوں کے ہی سر بندھے گا۔ مقدار کے اعتبار سے تو اتنی ترقی ہوئی کہ ہر یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں تحقیق کے فارغین کی بھیڑ کھڑی ہوگئی۔ پچاس پچاس مقالوں کی نگرانی کرنے والے کئی اساتذہ بھی سامنے آئے مگر معیار کا حال اتنا دگرگوں رہا کہ ہر بار یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم سب نے مل کر اپنے اسلاف کے بہتر کاموں پر کالکھ پوتنے کا کام خوب جی لگا کر کیا۔ موضوعات کا دہراو، لفظوں کے معمولی ہیر پھیر سے نئے عنوانات مقرر کرنے کارواج، کتابوں سے نقل، ایک جیسے موضوعات کے اگلے پچھلے مقالوں سے نقل اور پھر متعلق اور غیر متعلق اندراجات کی یکجائی نے ایسا ظلم ڈھایا کہ بہار کی ہر یونی ورسٹی کے ہر شعبۂ اردو سے صرف یہ طلب کیا جائے کہ سال بھر میں جتنی بھی ڈگریاں تقسیم ہوئیں ہوں،  ان میں سے ہر سال ایک معیاری تحقیقی مقالے کی پہچان کرکے عوام کے سامنے پیش کردے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اکثر یونی ورسٹیوں کو سال میں ایک صحیح مقالے کی تلاش کے لالے پڑ جائیں گے۔

تحقیق کا کام عبادت، ریاضت، مشقت، انہماک، یکسوئی، ہمہ جہت توجہ، مکمل ایمانداری اور علمی گہرائی سے مکمل ہوتا ہے اور اسی لیے اسے اعلا تعلیمی اداروں کے لیے تاج و افسر قرار دیا جاتا ہے۔ اسی سہارے مستقبل کا تعلیمی نظام کھڑا ہوتا ہے اور ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں۔ بہار میں شعبۂ اردو میں تحقیق کا زوال ایک دن میں نہیں ہوا۔ پالیسی کی سطح پر گڑبڑیاں اپنی جگہ مگر پچھلے تیس چالیس برسوں میں تحقیق کے لیے موضوعات کے تعیّن میں کن اساتذہ نے اختر اورینوی یا اختر قادری کی طرح منصوبہ بندی سے کام لیا؟ وہ کون سے لوگ تھے جنھوں نے اپنے طلبہ کو ان کی علمی دلچسپی کے پیش نظر موضوعات متعین کرنے میں تعاون دیا؟ وہ کون سا استاد تھا جس نے اپنے تحقیق کاروں کو باضابطہ روزانہ یا ہفتہ وار حاضر ہوکر اپنی تحقیق سے متعلق صلاح و مشورہ کرنے اور اس دوران طالب علم کی طرف سے ہوئی تحریری پیش رفت کا جائزہ لینے کے کام کو ضروری سمجھا؟ کس نگراں نے اپنے تحقیق کار کے مقالے کے ہر باب کو لفظ بہ لفظ دیکھا، اس میں اصلاحیں کیں،  ترمیم و اضافے کی گنجایشیں دیکھیں یا ضرورت ہوئی تو پورا باب نئے خطوط پر دوبارہ لکھنے کے لیے ہدایت نامہ جاری کرنا ضروری سمجھا؟ کس استاد نے اس بات کی نگرانی رکھی کہ اس کا طالب علم تحقیق کے بازاری کاموں سے الگ رہے اور اپنے علم میں اضافے کی کوشش کرے۔ کتب خانوں میں مواد کی تلاش اور آزادانہ طور پر مقالے کے ابواب تیار کرنے کے بنیادی خطوط کس نگراں نے اپنے طلبہ سے مرتّب کرائے۔ ہمارے بیچ وہ کون سا استاد ہے جس نے اپنے طلبہ کے لکھے مقالوں کے بنیادی اور ثانوی ماخذ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر طلبہ کے کام کی جانچ کی اور اسے اس کی غلطیوں پر متنبہ کیا؟ کس شعبۂ اردو نے اس سطح پر طالب علم کی نگرانی کی کہ وہ کہیں بھٹکے نہیں اور صرف اپنے تحقیقی کام پر ارتکاز قائم رکھے؟

چار پانچ برسوں سے یوجی سی کی ہدایت پر ہر یونی ورسٹی میں پی ایچ۔ ڈی۔ میں داخلہ لینے سے پہلے کورس ورک کا باضابطہ سلسلہ شروع ہواہے۔ پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں یہ کام نصف دہائی سے جاری ہے۔ چھوٹی بڑی تمام یونی ورسٹیوں نے بھی اس لازمی کام کے لیے تقریباً ایک جیسے نصاب بنائے اور تعلیم،  تدریس، امتحانات اور پھر پی ایچ۔ڈی۔ کے لیے داخلہ جیسی تمام خانہ پُریاں مکمل کرلیں مگر یہ صلائے عام ہے کہ کسی ایک یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے کورس ورک سے فارغ کسی طالب علم کے چھے مہینے کی تدریس کا جائزہ لے لیا جائے تو ہماری آنکھیں کھُل جائیں اورہوش ٹھکانے لگ جائیں۔ خاص طور سے بچوں کی کاپیوں کی جانچ کی جائے کہ انھیں ان کے اساتذہ نے کن کن موضوعات پر کتنے لکچرس دیے یا اس سے بھی آسان یہ نسخہ ہوگا کہ چھے مہینے کے کورس ورک کی مکمل ویڈیوگرافی کرالی جائے اور ہندستان کے بڑے پروفیسران کو اس کے جائزے کے لیے بھیج دیا جائے تب یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم نے کس انہماک سے ایک اچھے کام کو غارت کرنے میں اپنی مہارت ثابت کردی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ اگر اساتذہ نئے نئے موضوعات پر کام کرنے کے لیے خود کو تیار نہ کرنا چاہیں تو یوجی سی سر پیٹتی رہے، یونی ورسٹیاں چلّاتی رہیں اور قوم آہ و بکا کرتی رہے؛ ہمارے اساتذہ کا کیا بگڑتا ہے۔ شاعر پہلے ہی کہہ چکا ہے: وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، وہ اب بھی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔