جب آخری اور سب سے بڑا زلزلہ رونما ہوگا

زمین زندگی کے حالات و واقعات نکال کر باہر ڈال دے گی

ترتیب: عبدالعزیز

          ابھی چند روز پہلے جو زلزلہ ہندستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہوا اس سے ایک سال پہلے25 اپریل 2015ء میں جو شدید زلزلہ نیپال سے شروع ہوا اور ہندستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اس سے ہندستان کے کچھ شہروں اور گاؤں زلزلہ کے جھٹکے سے متاثرہوئے، جس سے ہر طرف سراسیمگی پھیلتی چلی گئی۔ ماہرین نے بتایا کہ ایک بڑا زلزلہ (Big earthquake) آئے گا۔ یہ بڑا زلزلہ کیا ہے اس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب سورۃ الزلزال میں کیا ہے۔ قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں اس کی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں ’’موت کے بعد دوسری زندگی اور اس میں ان سب اعمال کا پورا کچا چٹھا انسان کے سامنے آجانا جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ سب سے پہلے تین مختصر فقروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہوگی اور وہ انسان کے لئے کیسی حیران کن ہوگی۔ پھر وہ فقروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کئے ہیں اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اس کے افعال کی گواہی دے گی، اس روز اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کر دے گی کہ کس وقت کہاں اس نے کیا کام کیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمل اور مفصل ہوگی کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آجائے۔ پانچ فقروں میں آخری اور سب سے بڑے زلزلہ کی تصویر کشی درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

          ترجمہ: ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی، [1]  اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، [2]  اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے، [3] اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی، [4] کیوں کہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے، [5]  تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں، [6] پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ [7]  (الزلزال)

          تشریح:  [1]  اصل الفاظ ہیں  زلزلت الارض زلزالھا۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں۔ پس زلزلت الارض کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دے کر شدت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا۔ اور چوں کہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدت کو ظاہر کرنے کے لئے زلزالھا کا اس پر اضافہ کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ’’اس کا ہلایا جانا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اس جیسے عظیم کرے کو ہلانے کا حق ہے، یا جو اس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدت ہوسکتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا ہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا، یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہوجائے گی اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا، لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیوں کہ بعد کا سارا مضمون اسی پر دلالت کرتا ہے۔

          [2] یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ انشقاق، آیت 4 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ والقت ما فیھا و تخلت ’’اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی‘‘۔ اس کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مرے ہوئے انسان زمین کے اندر جہاں جس شکل اور جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے ان سب کو وہ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور بعد کا فقرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت ان کے جسم کے تمام بکھرے ہوئے اجزا جمع ہوکر از سر نو اسی شکل و صورت میں زندہ ہو جائیں گے، جس میں وہ پہلے زندگی کی حالت میں تھے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ کیسے کہیں گے کہ زمین کو یہ کیا ہورہا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف مرے ہوئے انسانوں ہی کو وہ باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہ کرے گی بلکہ ان کی پہلی زندگی کے افعال و اقوال اور حرکات و سکنات کی شہادتوں کا جو انبار اس کی تہوں میں دبا پڑا ہے اس سب کو بھی وہ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اس پر بعد کا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ زمین اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات بیان کرے گی۔ تیسرا مطلب بعض مفسرتین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سونا، چاندی، جواہر، اور ہر قسم کی دولت جو زمین کے پیٹ میں ہے اس کے بھی ڈھیر کے ڈھیر وہ باہر نکال کر رکھ دے گی اور انسان دیکھے گا کہ یہی ہیں وہ چیزیں جن پر وہ دنیا میں مرا جاتا تھا، جن کی خاطر اس نے قتل کئے، حق داروں کے حقوق مارے، چوریاں کیں، ڈاکے ڈالے، خشکی اور تری میں قزاقیاں کیں، جنگ کے معرکے برپا کئے اور پوری پوری قوموں کو تباہ کر ڈالا۔ آج وہ سب کچھ سامنے موجود ہے اور اس کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے لئے عذاب کا سامان بنا ہوا ہے۔

          [3]انسان سے مراد ہر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ زندہ ہوکر ہوش میں آتے ہی پہلا تاثر ہر شخص پر یہی ہوگا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے، بعد میں اس پر یہ بات کھلے گی کہ یہ روزِ حشر ہے۔ اور انسان سے مراد آخرت کا منکر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ جس چیز کو وہ غیر ممکن سمجھتا تھا وہ اس کے سامنے برپا ہو رہی ہوگی اور وہ اس پر حیران و پریشان ہوگا۔ رہے اہل ایمان تو ان پر حیرانی و پریشانی طاری نہ ہوگی، اس لئے کہ سب کچھ ان کے عقیدہ و یقین کے مطابق ہو رہا ہوگا۔ ایک حد تک اس دوسرے معنی کی تائید سورۂ یٰسین کی آیت 52 کرتی ہے، جس میں ذکر آیا ہے کہ اس وقت منکرین آخرت کہیں گے کہ من بعثنا من مرقدنا ’’کس نے ہماری خواب گاہ سے ہمیں اٹھا دیا؟‘‘ اور جواب ملے گا ہٰذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون ’’یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں نے سچ کہا تھا‘‘۔ یہ آیت اس معاملے میں صریح نہیں ہے کہ کافروں کو یہ جواب اہل ایمان ہی دیں گے، کیوں کہ آیت میں اس کی تصریح نہیں ہے، لیکن اس امر کا احتمال ضرور ہے کہ اہل ایمان کی طرف سے ان کو یہ جواب ملے گا۔

          [4] حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا ’’جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ’’وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی‘‘۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، عبد بن حمید، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب)… حضرت ربیعۃ الخرشی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیوں کہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا‘‘۔ (معجم الطبرانی)… حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے روز مین ہر اس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو‘‘ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں۔ (ابن مردویہ)- بیہقی) … حضرت علیؓ کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہل حقوق میں تقسیم کرکے اسے خالی کر دیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے ’’تجھے گواہی دینی ہوگی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کر دیا‘‘۔

          زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کرے گی، قدیم زمانے کے آدمی کے لئے تو بڑی حیران کن ہوگی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علوم طبیعی کے اکتشافات اور سنیما، لاؤڈ اسپیکر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیپ ریکارڈر، الکٹرانکس وغیرہ ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے بات کی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دُہرواسکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں۔ اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر پر نقش ہوچکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کیلئے اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں۔ یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔

          حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہ راست خود جانتا ہے، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کرکے دے گا۔ اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس کو ایسی مکمل شہادتوں سے ثابت کر دیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ سب سے پہلے تو وہ نامۂ اعمال ہے جس میں ہر وقت اس کے ساتھ لگے ہوئے کراماً کاتبین کے ایک ایک قول اور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں۔ (ق  ٓ، آیات 17، 18۔ الانفطار، آیات 10 تا 13)… یہ نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامۂ حیات، اپنا حساب لینے کیلئے تو خود کافی ہے۔ یہ نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامۂ حیات، اپنا حساب لینے کیلئے تو خود کافی ہے۔ (بنی اسرائیل: 49)… انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو۔ (الکہف: 49) …اس کے بعد انسان کا اپنا جسم ہے جس سے اس نے دنیا میں کام لیا ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے، اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کیا کام اس نے لئے۔ (النور: 24) … اس کی آنکھیں شہادت دیں گی، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ وہ حیران ہوکر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے میرے خلاف گواہی دے رے رہے ہو؟ اس کے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بول رہے ہیں۔ (حٰم ٓالسجدہ: 20 تا 22) … اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اور اس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گے جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے، اور اپنی حرکات کی ہو بہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کئے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیئے جائیں گے، جیسا کہ آگے سورۂ عادیات میں آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے قطعی اور صریح اور ناقابل انکار ثبوت سامنے آجانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے لئے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا۔ (المرسلٰت، آیات 35، 63)۔

          ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی، [1]  اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، [2]  اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے، [3] اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی، [4] کیوں کہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے، [5]  تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں، [6] پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ [7]  (الزلزال)

          تشریح:  [5] اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا، خاندان، جتھے، پارٹیاں، قومیں، سب بکھر جائیں گے۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ انعام میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ ’’لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا‘‘۔ (آیت 94)  اور سورۂ مریم میں فرمایا ’’یہ اکیلا ہمارے پاس آئے گا‘‘۔ (آیت 80) اور یہ کہ ’’ان میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا‘‘۔ (آیت 95) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزارہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے، جیسا کہ سورۂ نبا میں فرمایا گیا ’’جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج آ جاؤگے‘‘۔ (آیت 18) اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسرین نے بیان کئے ہیں ان کی گنجائش لفظ اَشْتَاتاً میں نہیں ہے، اس لئے ہمارے نزدیک وہ اس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں، اگر چہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن و حدیث کے بیان کردہ احوالِ قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

          [6] اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں، یعنی ہر ایک کو بتایا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کرکے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے۔ اگر چہ یہ دوسرے معنی بھی لِیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ کے لئے ہوسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے لِیُرَوْا جَزَآئَ اَعْمَالَھُم (تاکہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِیُرَوْا اَعْمَالَھُم (تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ) فرمایا ہے۔ اس لئے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں، خصوصاً جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافرو مومن، صالح و فاسق، تابع فرمان اور نافرمان، سب کو ان کے نامۂ اعمال ضرور دیئے جائیں گے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الحاقہ، آیات 19 و 25، اور الانشقاق، آیات 7 و 10) ظاہر ہے کہ کسی کو اس کے اعمال دکھانے اور اس کا نامۂ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی، اس کا پورا نقشہ بھی سب کے سامنے آجائے گا، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لئے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلے میں کیا کیا حرکتیں کیں۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لاکھ رکھ دیا جائے۔ حق پرستوں پر باطل پرستوں کے ظلم اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدانِ حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

          [7]اس ارشاد کا ایک سیدھا سادا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہوگی جو اس کے نامۂ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو، اسے وہ بہر حال دیکھ لے گا، لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزا و سزا دیکھنالیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی۔ دوسرے اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا۔ یہ دنوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں، اور عقل بھی اسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے۔ عقل کے لحاظ سے دیکھئے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں۔ اسی طرح یہ بھی عقلاً ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بے شمار احسانات ہوں، وہ آپ سے غداری اور بے وفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو نظر انداز کرکے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک خدمت کی، خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو، الگ جزا دیں۔ اب رہے قرآن و حدیث، تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن، منافق، کافر، مومن صالح، مومن خطاکار، مومن ظالم و فاسق، محض کافر، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔

          اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے:         اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال (یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے) ضائع کردیئے گئے، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پاسکیں گے۔ ان کا اگر کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147۔ التوبہ 67-17 تا 69۔ ہود 16-15۔ الکہف 105-106۔ 105-104۔ النور 39۔ الفرقان 23۔ الاحزاب 19۔ الزمر 65۔ الاحقواف 20۔

          دوم یہ کہ بدی کی سزا اُتنی ہی دی جائے گی جتنی بدی ہے، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر اس سے 10 گنا ہے، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا اجر بڑھا کر دے۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261۔ الانعام 160۔ یونس 27-26۔ النور 38۔ القصص 84۔ سبا 37۔ المؤمن 40۔

          سوم یہ کہ مومن اگر بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ النساء 31۔ الشوریٰ 37۔ النجم 32۔

          چہارم یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا۔ العنکبوت 7۔ الزمر 35۔ الاحقاف 16۔ الانشقاق 8۔

          احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کر دیتی ہیں۔ اس سے پہلے ہم سورۂ انشقاق کی تفسیر میں وہ احادیث نقل کرچکے ہیں قیامت کے روز ہلکے حساب اور سخت حساب فہمی کی تشریح کرتے ہوئے حضورؐ نے فرمائی ہیں۔ (تفہیم القرآن، جلد ششم، الانشقاق، حاشیہ6) حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ! کیا میں اس ذرّہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھوں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اے ابوبکر دنیا میں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انھیں اللہ آخرت میں تمہارے لئے محفوظ رکھ رہا ہے‘‘۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، بیہقی فی الشعب، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، عبد بن حمید) حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے بھی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا‘‘۔ (ابن مردویہ) قتادہ نے حضرت انسؓ کے حوالہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں کرتا۔ دنیا میں اس کی نیکیوں کے بدلے وہ رزق دیتا ہے اور آخرت میں ان کی جزا دے گا۔ رہا کافر، تو دنیا میں اس کی بھلائیوں کا بدلہ چکا دیا جاتا ہے، پھر جب قیامت ہوگی تو اس کے حساب میں کوئی نیکی نہ ہوگی‘‘۔ (ابن جریر) مسروق حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ عبداللہ بن جُدعان جاہلیت کے زمانے میں صلۂ رحمی کرتا تھا، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا، مہمان نواز تھا، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا۔ کیا آخرت میں یہ اس کیلئے نافع ہوگا؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ، ’’میرے پروردگار، روزِ جزا میں میری خطا معاف فرما دیجئے‘‘ (ابن جریر) اسی طرح کے جوابات رسول اللہ ﷺ نے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیئے ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں نیک کام کرتے تھے مگر مرے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے، لیکن حضورؐ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی، البتہ جہنم میں اس کو وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بدکار کافروں کو دی جائے گی۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا۔ (روح المعانی)

          تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے، یونہی نظر انداز کر دینے والی جو چیز نہیں ہے۔ اس لئے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا چاہئے، کیوں کہ ایسی بہت سی نیکیاں مل کر اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک بہت بڑی نیکی قرار پاسکتی ہیں، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہئے کیوں کہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عَدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعے سے ہو‘‘۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضورؐ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ’’کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو، خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو، یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو‘‘۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے عورتوں کو خطاب کرکے فرمایا ’’اے مسلمان عورتو، کوئی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ فرمایا کرتے تھے ’’اے عائشہ، ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اللہ کے ہاں ان کی پرسش بھی ہونی ہے‘‘۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’خبر دار؛ چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا، کیوں کہ وہ سب آدمی پر جمع ہو جائیں گے یہاں تک کہ اسے ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 53۔ جلد پنجم، النجم، حاشیہ 32)۔           (تفہیم القرآن)

لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے 1؎۔

جس روز تم اسے دیکھو گے، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی2؎، ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔ 3؎

جس روز زمیں جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گرد و غبار کی طرح اڑنے لگیں گے۔ (واقعہ 4-6)

          تشریح:  1؎یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہوگا جب کہ زمین یکایک الٹی پھرنی شروع ہوجائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے علقمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ یکون ذلک عند طلوع الشمش من مغربھا، اور یہی بات اس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو ابن جریر اور طبرانی اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نفخ صور کے تین مواقع ہیں۔ ایک نفخ فزع، دوسرا نفخ صعق اور تیسرا نفخ قیام لرب العالمین، یعنی پہلا نفخ عام سراسیمگی پیدا کرے گا، دوسرے نفخ پر سب مرکز گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہوکر خدا کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپؐ بتاتے ہیں کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہوگی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑرہے ہوں۔ اس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے، مثلاً :

          ’’پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیئے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آجائے گا‘‘۔ (الحاقہ)

          ’’جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے، جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور          اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی‘‘۔    (النازعات:10)

          ’’جس روز زمین جھجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے‘‘۔  (الواقعہ: 4تا6)

       ’’اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچوگے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا‘‘۔ (المزمل:17 تا 18)

          اگر چہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مردے زندہ ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ قرآن اس کا وقت بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہوگا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہوچکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کیلئے کھڑا ہوگا، لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگر چہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔

          2؎  آیت میں مرضع کے بجائے مرضعہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مرضع اس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو اور مرضعہ اس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لئے ہوئے ہو، پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔

          3؎  واضح رہے کہ یہاں اصل مقصود کلام قیامت کا حال بیان کرنا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلاکر ان باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہے، لہٰذا قیامت کی اس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔  (تفہیم القرآن)

          قیامت کے زلزلے کی تصویر: اصلاح کے اس بنیادی حوالے کے باعث اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا کہ لوگو! اپنے رب سے ڈرو، اس کی قوت بے پناہ اور اس کی قدرت احاطۂ تصور سے ماورا ہے۔ اس کا علم ہر غلطی سے پاک اور اس کے کارکنان ہر تساہل سے محفوظ ہیں۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک عمل اس کی عدالت میں محفوظ ہے۔ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ جس دن جوابدہی کا وہ دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو گزرے گی وہ تو بعد کی بات ہے لیکن اس سے پہلے اس دن کا اعلان تین مرحلوں میں ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی طویل حدیث میں ان مراحل کو تین نفخوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت اسرافیل تین مرتبہ صور پھونکیں گے۔ پہلی دفعہ صور پھونکنے کو نفخۃ الفزع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کی ہمہ گیر تباہی سے پہلے اس طرح کی صورت حال پیدا کر دی جائے گی جس سے ہر شخص اور ہر مخلوق پر گھبراہٹ طاری ہوگی اور اسے یہاں زلزلۂ عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ زلزلہ کی تعبیر بھی اس دن کی ہولناکی کو پوری طرح واضح نہیں کرسکتی۔ البتہ! ہمارے فہم کے قریب کرنے کے لئے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کیونکہ ہر ملک کے رہنے والے اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے زلزلے کی تباہیوں سے واقف ہیں۔ زلزلہ کیا ہے، ہر پستی کا بلندی میں بدل جانا اور ہر بلندی کا پستی میں ڈوب جانا۔ پہاڑوں کا اپنی جگہ چھوڑ دینا، سمندروں میں نئے جزیروں کا نکل آنا، پرانے جزیروں کا غائب ہو جانا اور بعض دفعہ مکمل شہروں کا چشم زدن میں نابود ہوجانا۔ غالبا 1935ء کے زلزلۂ کوئٹہ میں 51 ہزار انسان لقمۂ اجل بنے۔ جاپان میں 1924ء میں 16 لاکھ انسان اچانک موت کا شکار ہوئے۔ 2004ء میں پاکستان میں آنے والا زلزلہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسانی جانوں کی ہلاکت کا باعث بنا۔ کئی شہر زمین بوس ہوگئے۔ بعض جگہ جھیلیں نکل آئیں اور پہاڑوں نے اپنی جگہ بدل لی۔ بعض زلزلوں سے پہاڑ پھٹ جاتے ہیں اور ان سے ابلتے ہوئے لاوے کا ایک دریا بہہ نکلتا ہے اور انسان ان حادثات کے مقابلے میں اس قدر بے بس ہے کہ وہ آج تک انھیں روکنے کی کوئی سبیل نہیں سوچ سکا۔ علمائے زمین شناس کا نظریہ یہ ہے کہ آج سے لاکھوں سال پہلے جب زمین سورج سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجۂ حرارت سورج کے برابر تھا۔ یہ حرارت آج بھی بطن زمین میں موجود ہے اور لاوے کا درجۂ حرارت وہی ہے جو آغاز میں زمیں زمین کا تھا یعنی 12 ہزار فارن ہائٹ۔ اب اگر کسی زلزلے سے سارا لاوا باہر آجائے تو سطح زمین ایک کھولتے ہوئے جہنم میں بدل جائے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ زمین کی تباہی کے لئے اس کو پیدا کرنے والے نے کس قدر امکانات پیدا کر رکھے ہیں اور جہاں تک اور جہاں تک فضاء خلاف اور آسمانوں کا تعلق ہے اس کی تباہی کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھ میں آنے والی نہ ہو۔ خلاء میں کروڑوں بلین ستارے حیرت انگیز رفتار سے محو پرواز ہیں۔ ان میں سے بعض زمین سے دس گنا اور بعض ایک کروڑ گنا بڑے ہیں۔ ان کا نظام پرواز اتنا مکمل ہے کہ آج تک کوئی ستارہ دوسرے سے متصادم نہیں ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ طاقت جس نے ان ستاروں کو بنایا اور پھر ان کی راہیں متعین کیں اس بات پر قادر نہیں کہ انھیں باہم ٹکرا دے اور سب کچھ تبادہ کردے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ نظام عالم کی پوری گاڑی جس انجن سے چل رہی ہے وہ گرم آفتاب ہے جس کی گرمی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ اب سائنسدانوں نے اندازہ لگانا شروع کر دیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ انجن بالکل ٹھنڈا ہو جائے گا اور ساری گاڑی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یہ بات بھی سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ پورا نظام کائنات کشش ثقل کے ستون پر قائم ہے اور یہ کشش ثقل بھی روز بروز مدھم پڑتی جارہی ہے۔ چنانچہ ایک دن آئے گا کہ تمام کُرّے ایک دوسرے کے قریب ہوکر ٹکرا جائیں گے اور یہ تصادم ان کو چور چور کر دے گا۔ اور ممکن ہے کہ یہی وہ زلزلہ ہو جس سے قیامت کا آغاز ہو۔

          حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمین جھٹکے کھانے لگے گی اور جس طرح کشتی سمندر میں ہچکولے کھاتی ہے اور چاروں طرف سے موجیں اسے تھپیڑے مارتی ہیں اور یا جس طرح کوئی لٹکی ہوئی قندیل آندھی میں حرکت کرتی ہے، یہی حال اس وقت زمین کا ہوگا، اغلب یہ ہے کہ زمین کا یہ حال اس وقت ہوگا جبکہ زمین یکایک الٹی پھرنی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے علقمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ یکون ذٰلک عند طلوع الشمس من مغربھا اور زمین کی آبادی پر کیا گزرے گی قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

قیامت کی ہولناکی کی مزید وضاحت:

          سابقہ آیت میں جس دن کو زلزلہ قرار دیا گیا ہے یہ اسی کی ہولناکی کی تصویر ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیفیت پہلے نفخۃ کے وقت ہوگی جبکہ گھبراہٹ کا عالم یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے بچے کو دودھ پلانا بھول جائے گی۔ ماں کی مامتا سب سے زور دار جذبہ ہے اور یہ جذبہ بچے سے محبت کا دوسرا نام ہے۔ ماں سب کچھ بھول سکتی ہے لیکن اپنے بچے کو نہیں بھول سکتی لیکن اس دن کی ہولناکی کا عالم یہ ہوگا کہ ماں اپنے بچے کو بھی بھول جائے گی۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ آیت کریمہ میں مرضع کی بجائے مرضعۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ مرضع تو دودھ پلانے والی عورت کو کہتے ہیں لیکن مرضعۃ اس وقت بولتے ہیں جبکہ ماں بالفعل اپنے بچے کو دودھ پلانے میں مصروف ہو اور بچہ کا پستان منہ میں لئے ہوئے ہو۔ اس دن کی ہولناکی کا عالم یہ ہوگا کہ ماں دودھ پلانے میں مصروف ہونے کے باوجود اس دن کی ہولناکی کے باعث بچے کو بھی بھول جائے گی اور دودھ پلانے کو بھی بھول جائے گی۔ لوگ دیوانوں کی طرح بھاگے پھریں گے۔ ہر شخص نشے میں مدہوش محسوس ہوگا۔ ایسا لگے گا جیسے اس نے نشہ آور چیز پی لی ہو حالانکہ وہ کسی نشے میں نہیں ہوگا بلکہ اس دن کی ہولناکی نے اسے حواس باختہ کردیا ہوگا۔

          ہمارے مفسرین نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں جس میں زلزلۂ قیامت کا ذکر ہے اور جس ہولناکی کی تصویر کشی کی گئی ہے کیا اس کا تعلق قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد سے ہے یا اس سے پہلے۔ قرآن کریم کے سیاق و سباق اور بعض دوسری آیات سے جن کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق نفخۃفزع سے ہے جو قیامت قائم ہونے سے پہلے ہوگا اور جسے قیامت کی آخری علامت سمجھا جاتا ہے لیکن بعض حضرات نے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ زلزلہ حشر و نشر اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ قیامت سے پہلے زلزلہ آنا آیت قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اور حشر و نشر کے بعد ہونا اس حدیث سے ثابت ہے جو حدیثِ آدم علیہ السلام کے نام سے معروف ہے۔ البتہ! اس پر اشکال یہ ہے کہ حشر و نشر اور قیامت قائم ہونے کے بعد یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو یا کوئی حاملہ حمل ڈال دے تو اس اشکال کی توجیہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت اس دنیا میں حالت حمل میں مری، قیامت کے روز اسی حالت میں اس کا حشر ہوگا اور جو دودھ پلانے کے زمانے میں مرگئی، وہ اسی طرح بچے کے ساتھ اٹھائی جائے گی۔ (کما ذکرہ القرطبی)  (تفسیر روح القرآن)

’’جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا۔ جو کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ نگاہیں ان کی سہمی ہوں گی‘‘۔ (سورہ النازعات:6-9)

          تشریح:  [1]   پہلے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا اور دوسرے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جس کے بعد تمام مردے زندہ ہوکر زمین سے نکل آئیں گے۔ اسی کیفیت کو سورۂ زُمر میں یوں بیان کیا گیا ہے: ’’اور صور پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں وہ سب مرکر گر جائیں گے سوائے ان کے جنھیں اللہ (زندہ رکھنا) چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے‘‘۔ (آیت:68)

          [2]     ’’کچھ دل‘‘ کے الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے صرف کفار و فجار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہول طاری ہوگا۔ مومنین صالحین اس ہول سے محفوظ ہوں گے۔ سورۂ انبیاء میں ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘۔ (آیت:103) (تفہیم القرآن)

’’اس دن سے ڈرو جس دن ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا۔ اور اس کے پیچھے آئے گا ایک اور جھٹکا‘‘۔ (النازعات:6-7)

          وقوعِ قیامت کی تصویر: اس میں وقوع قیامت کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ پہلے جھٹکے سے مراد نفخۂ اولٰی ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا۔ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور دوسرے جھٹکے سے مراد نفخۂ ثانیہ ہے، یعنی جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو سب اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور میدانِ حشر کی طرف چل پڑیں گے۔

’’کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ نگاہیں ان کی سہمی ہوئی ہوں گی‘‘۔ (النازعات:8-9)

          قلوب پر قیامت کا اثر: آج جس قیامت کے ذکر سے قریش اور دیگر اہل مکہ خوف زدہ اور فکر مند ہونے کی بجائے محظوظ ہوتے اور اسے مذاق بنالیتے ہیں۔ کوئی اس کے بارے میں کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے، لیکن جب یہ قیامت بپا ہوجانے کے بعد میدان حشر میں کھڑے ہوں گے تو ان پر ایک ہول طاری ہوگا، چہروں پر وحشت چھائی ہوئی ہوگی، دل کانپ رہے ہوں گے اور آنکھیں جھکی ہوئی سراسیمہ اور سہمی ہوئی ہوں گی، کوئی لفظ منہ سے نہ نکل سکے گا اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہ ہوگا، لیکن جن مسلمانوں کا دنیا میں یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں سورۃ انبیاء، آیت 103 کی شہادت کے مطابق وہ اس انتہائی گھبراہٹ میں بھی ذرا پریشان نہیں ہوں گے اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

          ابصارھا … اس میں ضمیر مونث کا مرجع کیا ہے؟ اس کے بارے میں خلجان ہے، کیونکہ ذکر ان لوگوں کا کیا جارہا ہے جو قیامت کے وقوع کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے اور اس کی طرف سے بالکل بے فکر تھے۔ قیامت کے دن ان پر جو کچھ گزرے گی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ دل ان کے کانپ رہے ہوں گی اور آنکھیں ان کی جھکی ہوئی ہوں گی۔ اس لحاظ سے یہاں ضمیر مونث کی بجائے ضمیر مذکر ہونی چاہئے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ ضمیر کا مرجع قلوب ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ آدمی کے اندر دل ہی وہ چیز ہے جس سے اس کی شخصیت عبارت ہے۔ اور آنکھ وہ چیز ہے جس کے آئینہ میں اس کے دل کی مخفی کیفیت بھی جھلکتی ہے۔ دل کے ساتھ آنکھوں کے اس تعلق کے سبب سے ان کی اضافت دل کی طرف کر دی گئی ہے۔  (تفسیر روح القرآن)

تبصرے بند ہیں۔