احمد رشید کا افسانوی مجموعہ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘

حیات و ممات کا تخلیقی استعارہ

پروفیسر صغیر افراہیم

        افسانہ حیات و ممات کا تخلیقی استعارہ ہے۔ یہ استعارہ ہے انسانی نفسیات اور جنسیات کے پیچ و خم کا، پیکارِ حیات کے نکات و رموز جاننے کا، حیات و کائنات کے مسلسل تصادم کی فتح و شکست کی روداد سُنانے کا۔ انسان کے افعال و اعمال کے پسِ پشت جو عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی تلاش کا، فرد اور اجتماع کے ذہنی اور جذباتی رشتوں کی کہانی سنانے کا، انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں جو سماجی، نفسیاتی، تاریخی و جغرافیائی اور مذہبی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں ان پر غور و فکر کرنے کا رول افسانہ بخوبی ادا کرتا ہے۔ انسان کی شخصیت سنوارنے اور بگاڑنے میں بیرونی اثرات کے علاوہ خود اس کوورثہ میں ملی جبلّت (تواتر سے یاقدرت کی جانب سے) کی تہہ داری میں پوشیدہ رموز کی نشاندہی بھی افسانہ کرتا ہے۔ فرد کی زندگی میں جو کائنات چھُپی ہوتی ہے اس کو اجاگر کرنے کے لیے افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر آزادانہ طور پر شعوری کوشش کرتا ہے۔ اس کا دائرہ کائنات کی طرح وسیع ہے تبھی تو یہ عمل اور رد عمل پر غور و فکر کرتا ہے۔ انسان سے سر زد ہونے والاہر عمل  دراصل شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک رد عمل ہوتا ہے جس کے اسباب و علل کی جستجو افسانہ کرتا ہے۔ جہاں عام انسانوں کی نظر بغیر غور و فکر کے نہیں پہنچتی، افسانہ نگار اس کی تہہ کو کھنگال لیتا ہے۔ افسانہ، استعاروں اور علائم کے ذریعے (جو ردِعمل ہے) ردِ عمل (جو بظاہر دکھائی دے) کی ایک انوکھی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔

        احمد رشید زندگی کے مختلف پہلوؤں، مظاہر فطرت، کائنات کی رنگا رنگی، حیات و کائنات کی معنویت کو عصری سماجی تناظر میں واضح کرنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوکر دادِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔ ایسے تو اِس مجموعے کے سبھی افسانے فکری اور فنّی اعتبار سے بہت خوب ہیں لیکن افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کے علاوہ ’’ٹوٹی ہوئی زمیں بکھرے مکیں ‘‘مذکورہ مجموعے کی بے حد اہم کہانی قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ افسانہ بٹوارے کے بعد ایک ہی تہذیبی شناخت رکھنے والے انسانوں کے درمیان ہوئی جنگ کے اس منظر نامے کو پیش کرتا ہے جہاں میدانِ کارزار میں دو دوست متحیّر ہوکر جنگ کے خوفناک منظر، ہار اور جیت کے نتیجے کو بھول کر ایک دوسرے کے اندر اپنی زمین کی خوشبو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کے اِس عمل میں پتّھر کے ہو کر رہ جاتے ہیں ——-دم بخود ہونے کی اِس کیفیت کو پتّھر ہوجانے کا یہ پُر اسرار لمحہ ہماری داستانی روایت سے جُڑ جاتا ہے۔ موجودہ جنگی نظام میں جہار اور جیت کو سکندرِ اعظم ایک فاتح اور پورس ایک مفتوح کی واضح تمثیلات کے حوالے سے واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ دو پُرانے دوست اپنی زمین پر آمنے سامنے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوتے ہوئے ماضی میں ڈوب جاتے ہیں لیکن یہاں ملکی اوربین الاقوامی قوانین کے نقطۂ نظر سے انسانی جذبات بے وقعت اور انسانی اقدار بے معنی ہو گئی ہیں۔

        افسانہ انسانی زندگی سے وابستہ اور اس کے وجود کے تعلق سے احساسات اور جذبات کو پیش کرنے کا عمل ہے لیکن اس میں فکری رنگ آمیزی نہ ہو تو ہر تیسرے آدمی کے دعوائے افسانہ نگاری کی تردید ممکن نہیں۔ افسانہ معنی کی تہہ داری کے ساتھ ذہن و شعور کی نئی سطحوں کو تخلیق کرنے اور روشناس کرانے کا فن ہے۔

        احمد رشید نے بھی اپنے افسانے زندگی کی حقیقتوں کو کائنات کے عمرانی اور تہذیبی پسِ منظر سے جوڑنے کی سعی کی ہے اور اپنے عہد کے فنّی اور فکری مسائل پر بھی توجہ دی ہے۔ ’’وہ اور پرندہ‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ دونوں مجموعے تخلیقی، اسلوبی اور تکنیکی سطح پر افسانوی منظر نامے کو وسیع تر کرتے ہوئے کہانی، صرف کہانی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ہر افسانہ معنی کی تہہ داری، فکر کی بلندی، زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ایک واضح وژن کا تقاضہ کرتا ہے کیوں کہ افسانہ ادب کی ایک مخصوص اور غزل کی طرح نازک و محتاط صنف ہے۔ احمد رشید کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور افسانے کے مروجہ تکنیک سے جُڑے نہ رہنے کی جرأت بھی ہے۔ تخلیقی سفر میں اپنی زمین پر غور و فکر کے قدم جمائے رکھنے کے باوجود بیانیہ میں سمندر کا سا پھیلاؤ، اظہار میں معنی کی تہہ داری، عصری افق پر تیز نگاہوں کے ساتھ لہجے اور پیش کش کی تازہ کاری کی تفصیل ملتی ہے۔

        زیرِ نظر مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ اکیس کہانیوں پر مشتمل ہے۔ پہلی کہانی ’’کہانی بن گئی‘‘ میں افسانہ کے فن اور حیات و کائنات سے اس کے ربط و ضبط سے بحث کی گئی ہے جو اس کہانی کا موضوع بھی ہے۔ اس میں انٹر ویو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس منطقی بحث کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور افسانہ کے تئیں ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کہانی کو افسانہ نگار کا پیش لفظ خیال کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ افسانہ کے فن کے تعلق سے ان کے نظریہ کی بنیاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ’’وہ اور پرندہ‘‘میں شامل افسانہ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں الفاظ اور صوت و صدا کی وساطت سے تخلیق کائنات پر سوالیہ نشان قائم کیا گیاتھا۔ یہاں بظاہر کہانی کے ارتقائی سفر کی روداد بیان کی گئی ہے مگر ساتھ ہی انسان کے تمدنی اور تہذیبی سفر کی داستان بھی زیریں سطح پر واضح کی گئی ہے۔ کہانی کے تدریجی سفر اور انسان کے معاشرتی عمل کو فنکارانہ چابک دستی سے ایک ساتھ پرونا کہ کہانی پن شروع سے آخر تک بر قرار رہے ا ز خود افسانہ نگار کا کمال ہے۔

        انسان، تہذیب، اخلاق اور افسانہ در اصل اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی ہے۔ عام طور پر ’’افسانہ‘‘ کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کو سمجھنے کی سعی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فنی اعتبار سے افسانہ جسدِ خاکی کی مانند اکائی ہوتا ہے جس طرح انسان کی جسمانی ساخت کے عناصر ترکیبی کو بکھیر کر سمجھنا مشکل ہے اُسی طرح افسانہ کے فن کی ناپ تول اور انچی ٹیپ سے پیمائش کرنا بڑا دشوار ہے۔ اس روشنی میں احمد رشید کے افسانوں کو سمجھنے اور پڑھنے کے لیے ان کے تخلیقی شعور سے واقفیت ضروری ہے۔ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ اور ’’کہانی بن گئی‘‘ دونوں کہانیاں افسانہ کے فن پر کھری اُترتی ہیں۔ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں ایک تمثیلی کہانی ہونے کا گمان اس لیے ہوتا ہے کہ کہانی متشکل ہوکر ایک کردار کی طرح اپنی کہانی بیان کرتی ہے اور جہاں کردار ہوتا ہے وہیں واقعہ، سانحہ اور کہانی کا ناطہ اس سے جُڑتا ہے۔ اس لیے دونوں کہانیاں اپنے فطری انداز میں قاری کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھتی ہیں اور ہمیں یہ احساس کراتی ہیں کہ ہمارے سماجی نظام کی ترتیب اور ارتقاء میں نہ صرف کہانی کا وجود تھا بلکہ تہذیبی سفر کے آغازسے قبل اور خود انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ’’کہانی‘‘ کا وجود ہو چکا تھا:

’’اور کہتی ہے دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے میرا پہلا لفظ اس شکتی نے لکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ کائنات عدم تھی۔ ‘‘(کہانی کہتی ہے)

علم فلسفہ میں مرد کو ’’دائرہ‘‘ اور عورت کو ’’نقطہ‘‘ کہا گیا ہے۔ نقطہ کومرکزی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود وہ دائرہ کی محافظت میں ہے:

’’پھر اس کے درمیان ایک نقطہ محیط ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نقطہ اور دائرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ ‘‘                                  (کہانی کہتی ہے)

        ’’کہانی بن گئی!‘‘مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔ اس میں کہانی خود کردار یعنی راوی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ کہانی میں کہانی کا ارتقاء افسانوی انداز میں، تہذیبی ارتقاء کو سمیٹے ہوئے ہے۔ منظر راجستھان کا ہے۔ مرکزی کردار ایک عورت کا ہے جس کانقطۂ نظر یہ ہے کہ کہانی زندگی کے حوالے سے بنتی ہے۔ وہ روی کے نام سے لکھتی ہے اور مردبن کر ایک ایسے بڑے فنکار کا انٹرویو لیتی ہے جسے اپنی عظمت کا شدّت سے احساس ہے۔ پوری بحث اِس پر مبنی ہے کہ عمل اور اُس کا ردِّعمل بلکہ ردِّ عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے کیونکہ عمل کی تلاش علوم و فنون کے ماہرین کرتے ہیں، ردِّ عمل صرف کہانی کار کرتا ہے۔ مذکورہ افسانہ میں انٹر ویو کی تکنیک اختیار کرنے کے باوجود افسانہ کے عناصر ترکیبی کا لحاظ رکھتے ہوئے فن افسانہ اور انٹر ویو کے درمیان حد امتیاز قائم کرنا افسانہ نگار کے سنجیدہ ہونے کی دلیل ہے۔ افسانہ میں مرد اور عورت دونوں ہی تخلیق کار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوبصورت، چست ا ور با معنی مکالموں کے ذریعہ افسانہ کے تعلق سے وہ اپنے نظریات کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ نہ تو کہانی کی ساخت متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی کہانی پن پر کوئی حرف آتا ہے:

’’منظر اور پس منظر کے درمیان فن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پسِ منظر ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔ ‘‘                        (کہانی بن گئی!)

آگے دیکھئے۔

’’ایک خیال ہے کہ کہانی مرگئی‘‘!

’’جب تک کرۂ ارض پر ایک انسان بھی زندہ  ہے، کہانی مر نہیں سکتی۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف اور اس کا بیان دیگر عمر کے ایک ایک لمحہ کا اظہار از خود ایک کہانی ہوتا ہے۔ نگاہ چاہیے کہانی کی تلاش کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘                                              (کہانی بن گئی!)

        جن واقعات پر ہم سر سری نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں، ان میں جب معنی کی نئی سطح ابھرتی ہے تو ہمیں سامنے کے دیکھے بھالے واقعات بھی انوکھے اور نئے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ تو رہی بالائی سطح کی بنت، زیریں سطح پر بھی ایک اور کہانی غور و فکر کے بعد نظر آتی ہے۔ بعض کہانیوں کے آغاز سے دھندلی دھندلی فضا آخر تک قائم رہتی ہے لیکن سنجیدگی سے غورو فکر کرنے پر معنی آفرینی ایک برق کی مانند چمکتی ہے اور آہستہ آہستہ گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ اسی طرح ’’دھواں دھواں خواب‘‘، ’’چھت اُڑ گئی‘‘، ’’ ویٹنگ روم‘‘، ’’مداری‘‘اور’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی کہانیاں ما بعد جدید تصور ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادہ کی خبر دیتی ہیں۔

        ’’دھواں دھواں خواب‘‘ میں ایک طرح سے اُن خوابوں کی منطق بیان کی گئی ہے جو سوتے میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ڈراؤنے، سہمے ہوئے ہوتے ہیں اور بے حد حسین و رنگین بھی۔ پہلی شکل بُرائی کی اور دوسری نیکی کی قرار دی جا سکتی ہے۔ نفسیاتی گرہوں کو کھولنے والے خواب کو بیان کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ ان میں کائنات اور آخرت گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ بچپن سے سُنے گئے شعوری یا لا شعوری واقعات، حادثات خواب میں نئی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ افسانہ کی پوری فضا میں خواب کی سی کیفیت طاری ہے۔ جہاں سائے سے لے کر جنت اور جہنم تک آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ EROTICعنصر بھی اپنی جگہ بنتا نظر آتا ہے۔ موت اور زندگی کی حرکی کیفیتیں اس افسانہ کو ایک نیا منظر نامہ عطا کرتی ہیں۔ خواب کے منطقی ربط کو قائم کرتے ہوئے کہانی پن بر قرار رکھنا اور آخر میں کہانی کا حقیقی زندگی میں لوٹنا احمد رشید کے فنّی دسترس کا غمّاز ہے۔

        ’’مداری‘‘اور’’ حاشیہ پر‘‘ سیاسی موضوعات پر مبنی کہانیاں ہیں۔ ان میں سیاسی مکاریاں، فریب اور سیاست دانوں کے ڈھونگ کو تمثیلی انداز میں پیش کیاگیا ہے۔ ’’مداری‘‘ میں عوامی زبان کا بر محل استعمال ہے۔ بین السطور میں رتھ یاترا کا واقعہ ایک نظریے کو لیے ہوئے اس طرح در آیا ہے کہ کہانی کے اندر کہانی چلتی رہتی ہے۔ مداری کا کام اپنے کرتب دکھا کر گھر گرہستی کو چلانا اور سیاستدانوں کو اپنی بساط پر جمے رہنے کا ہے۔

’’ایک کالی داڑھی والا آگے بڑھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ہمیں بکرا نہیں چاہیے جموڑا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکرا تو ہم خود بنا لیں گے۔ ‘‘               (مداری)

’’تماش بینوں کی بھیڑ میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تماشہ کا یہ منظر کہ کرشن کی مرلی پر ہنومان ناچے ایک نیا اور انوکھا منظر ہے۔ ‘‘

’’ آگے کہانی میں —–مداریوں کی ایک ایسی جماعت بنالی تھی کہ تماش بینوں کے درمیان اس نئے منظر کو دُہرا دُہرا کر رامائن اور مہا بھارت کا ایک جُز بنا دیا تھا۔ ‘‘(مداری)

دوسری کہانی (حاشیہ پر) میں تین کردار (معلم، ڈاکٹر، وکیل) ہیں جو بہت واضح یا متحرک نہیں ہیں۔ پلاٹ بھی مضبوط نہیں ہے۔ فضا، ماحول یا کسی بھی معمولی واقعہ سے شروع ہونے والے منظر اورپس منظر کے درمیان ایک ٹرین چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس میں ہوَ نّقوں کی طرح بیٹھے، سہمے ہوئے کردار صورتِ حال کو اور بھی بوجھل کرتے ہیں تاہم ایک مخصوص طبقے کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔

        احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتدا ء اور ارتقاء کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائیت، مذہبی اور اساطیری فضا دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنّی چابکدستی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے افسانے روایتی افسانے کی طرح صرف کہانی بیان نہیں کرتے۔ زندگی کے تلخ حقائق، اقدار کی شکست اور جبریت و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ ’’مداری‘‘ میں فسطائی طاقتوں نے جو سیاسی ڈھونگ رچایا ہے اس کو تمثیلی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

        آزادی کے بعد اقلیتی طبقے کے ساتھ جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں، نفسیاتی، معاشی اور سیاسی طور پر جس طرح سے اقلیت خصوصی طور سے مسلمانوں کا فسطائی طاقتوں نے استحصال کیا ہے۔ ان کو ایک خوف زدہ اور مخدوش زندگی جینے پر مجبور کر دیا ہے، ان کو مین اسٹریم (Main Strean)سے ہٹا کر احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی جو سازشیں رچی گئیں اس کا حقیقی اظہار ’’حاشیہ پر‘‘ میں ملتا ہے۔ ٹرین کے سفر میں، تین مسافر جو الگ  الگ پیشے سے تعلق رکھتے ہیں مذہبی رشتہ کی بنیاد پر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں پھر بھی ایک دوسرے پر اپنا اپنا نام ظاہر کرنے سے گُریز کرتے ہیں۔ ان کے اندازِ گفتگو اور افعال و حرکات سے خوف و ہراس اور مجبوری کا اظہار ہوتا ہے۔

        ’’بی بی بول‘‘، ’’ ایک خوبصورت عورت‘‘ اور ’’سہما ہوا آدمی‘‘ کابنیادی موضوع فساد ہے۔ ان افسانوں میں روایت سے بغاوت، حالات کی جبریت، عصری تناؤ، ایک مخصوص قوم کے تباہ و برباد کیے  جانے کی داستان رقم کی گئی ہے۔ اقلیت کا فسادات کا شکار ہونااور اکثریت کی سفاکی ان کہانیوں میں اس طرح ابھرکر سامنے آئی ہے کہ قاری اپنے گھر سے ہوتا ہوا، گلی، سڑک، شہر، ملک، بارود، دھماکے، دہشت، پولس کے بُوٹوں کی خوفناک آوازوں میں گِھر جاتا ہے۔

’’وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگنے لگا۔ فضا میں کالا اور سفید دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ٹائیں ٹائیں۔ ۔ ۔ ۔ پٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پٹ۔ ۔ ۔ ۔ مارو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارو کی آوازوں سے زمین دہل رہی تھی اور آسمان خاموش تھا۔ زن۔ ۔ ۔ ۔ زن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کار سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں۔ ‘‘                  (سہما ہوا آدمی)

        افسانہ ’’سہما ہوا آدمی‘‘ کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے ’’پورا شہر بارود کے ڈھیر پر تھا، ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔ زندگی موت کا تعاقب کر رہی تھی یا موت زندگی کا؟ تاحدِ نظر دُور اڑنے والے مکروہ پرندے سرخی مائل آسمان کو اپنے پروں سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

        فسادات میں عورتوں کے ساتھ جس طرح کے ہولناک ظلم و ستم ہوتے ہیں اسے دیکھ کر شیطان کی روح بھی کانپ جاتی ہوگی۔ حیوانیت کا ایسا ننگا ناچ کہ انسانیت شرمسار ہوجائے۔ عورتوں کا جنسی استحصال، ان کے ساتھ جسمانی اذیتیں اور اخلاق سوز حرکتیں اب عام ہو چکی ہیں :

’’مجھے اپنی کائنات میں لے چلو جہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جائے۔ ان ہیجڑوں کی دنیا سے میں تنگ آچکی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں گئو کشی کی مذمت اور انسان کشی کی حمایت کی جاتی ہے۔ جہاں مصلحت اور تقاضوں کے درمیان مرد، نامرد ہوجاتے ہیں اور عورت رنڈی بنادی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا فساد میں سب کچھ لٹ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘  (ایک خوبصورت عورت)

اسی طرح ایک اور طنزیہ لب و لہجہ جس میں سیکولرزم کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی کہ رنڈی کو سیکولرزم کی علامت قرار دیا گیا ہے:

’’وہاں صرف عورت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتیہ ناری نہیں ہوتی جس کی عزت لٹ جائے!؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوری دنیا اس کا گھر ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ کوئی سرحد، نہ بٹوارہ۔ ۔ ۔ ۔ برائی بھلائی سے دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف ایک مقصد اور ایک منزل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایسی جمہوریت جہاں پائجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیکولرزم؟‘‘

                                                (ایک خوبصورت عورت)

        احمد رشید کو تخلیق کائنات کے موضوع سے بہت دلچسپی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کائنات کے آفاقی اور اسطوری کردار عصری اور سماجی تناظر سے مربوط کرنے کی ان کے یہاں بامعنی کوشش ملتی ہے۔ بقول شافع قدوائی ’’تخلیق کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی متھ کی معنویت عصری سماجی تناظر میں واضح کرنا احمد رشید کے افسانوں کے فن کا بنیادی رمز ہے۔ ‘‘

         ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘میں استحصال کو دکھانے کا طریقہ الگ ہے۔ مکمل طور سے عورت کے گرد گھومنے والی اس کہانی میں حدیث کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ عورت آدم کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور افسانہ نگار نے یہیں یہ سوالیہ نشان بھی قائم کیا ہے کہ روزِ اول سے اُس کی سماجی حیثیت کیا رہی ہے۔ بے پناہ ترقیوں کے باوجود بھی کیا وہ آج مکمل طور سے آزاد ہے؟ عدم مساوات کے سبب ہم کو صنعتِ لف و نشر کی طرح خیال و خواب میں تحلیل کر دیا گیا ہے۔ منظر اور پس منظر دونوں کا راوی عورت ہے۔ استعاراتی انداز میں لکھے گئے اس افسانہ کی ابتدا عالمِ ارواح کے اس تاریخی مکالمہ سے ہوتی ہے جو رب العزّت اور ملائکہ کے درمیان پیش آیا۔ تخلیق کائنات سے پہلے جہاں ارض و سماویٰ اور کائنات کی ہر شے کا وجود عدم تھا کا منظر خوبصورت اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے مختلف تہذیبوں میں سماج کے مختلف ادوار میں عورت کی کیا حیثیت اور مقام رہا ہے کو تاریخی شواہد کی روشنی میں واضح کرنا اورStory line کو اس طویل کہانی میں آخر تک قائم رکھنا، مصنف کا افسانہ کے تئیں تخلیقی اور اختراعی صلاحیت کی نشان دہی کرتا ہے۔ افسانہ یہ بھر پور تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب ہے کہ روزِ ازل سے مادّی دور تک عورت اپنی آزادی اور وقار کے لیے کوشاں رہی ہے۔        ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں تہذیبی شناخت کی تلاش کے لیے فلیش بیک تکنیک کے ذریعے مختلف ادوار کے لحاظ سے زبان و بیان اور طرزِ نگارش کا بدلتا ہوا انداز کہانی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مثلاً ولادت نبوی کا منظر، روئے ارض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کی آمد کے واسطے سے جو زبان اختیار کی گئی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہے۔ پُر شکوہ لب و لہجہ، الفاظ کی شان و شوکت خوبصورت زبان و بیان سے لبریز اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ دوسرے ماضی کی تاریخ میں واپسی کے لیے جو استعاراتی، تمثیلی جملے استعمال ہوئے ہیں وہ دادِ تحسین کے قابل ہیں۔ مثلاً

’’روشنی کی کشتی پر سوار خلا کے اس پار‘‘’’روشنی کی کشتی لنگر انداز تھی‘‘’’اڑن طشتری پر سوار تمام عالم کی سیر‘‘        وغیرہ

ولادتِ نبوی کا منظر دیکھئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’پوری کائنات بقعہ نور بن گئی، چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی، مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب بس نور ہی نور از بس سارا عالم بحرِ نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نورِ مجسم پر سایہ بن گیا اور وہ نورِ مجسم سارے عالم پر سایہ بن گیا۔ ‘‘

        افسانہ’’ فیصلے کے بعد‘‘بھی عورت کی آزادی کے تعلق سے خلق کیا گیا ہے۔ مرکزی کردار شفق آزادیٔ نسواں کی لڑائی لڑتی ہے اور آفتاب کُھلا ذہن رکھنے کے باوجود صورتِ حال سے متفق نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں حق بجانب محسوس ہوتے ہیں پھر بھی الگ ہو جاتے ہیں۔ کہیں کوئی تصادم، تناؤ نہیں۔ لگتا ہے کہ واقعات بنائے نہیں گئے ہیں بلکہ خود بخود سب کچھ ہوتا چلا گیا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’وہ لمحہ‘‘ میں عورت کی اہمیت اور وجود سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کائنات میں وہ برابری کی حقدار ہے۔ آسمان و زمین کی وہ آدھے کے مالک ہونے کے باوجود اپنے حقوق سے محروم رہی، ہمیشہ مردوں کے ظلم و ستم اور استحصال کا نشانہ بنتی رہی ہے اور ایک طرح سے سماج میں اس کی حیثیت دوئم درجہ کی بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنیاد پرfeminismنے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں عورت حصولِ آزادی اور کائنات میں اپنا مقام اور وقار کے لیے بے چین رہی ہے مذکورہ تینوں افسانے اس پر دال ہیں۔ یہاں تانیثیت اور نسوانیت کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش بھی ملتی ہے۔

        ما بعد جدیدیت تخلیقی آزادی کا کھلا رویہ ہے۔ ادبی جبر توڑنے کا، معنی کے چھپے ہوئے رخ کو دیکھنے دکھانے کا، تقافتی صداقت اور تہذیبی حقیقت کو تلاش کرنے کا عمل ہے۔ ادب کو انسانی کلچر سے جوڑنے کا غالب رجحان ما بعد جدید افسانہ نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔

        احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماروائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتداء اور ارتقاء کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائیت ہے تو دوسری جانب زمینی مسائل سے ارتباط فنی چابک دستی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موصوف کی کہانیاں پسِ ساختیات، ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیقی سطح کا پتہ دیتی ہیں۔ ’’چھت اڑ گئی‘‘ میں مذہبی اعتقادات کا ایک ایسا شعور ملتا ہے۔ جس میں کائنات کو ایک خوبصورت مردہ عورت کی علامت دے کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان اس خوبصورتی کے نشہ میں اس قدر بد مست ہو جاتا ہے کہ تمام احساسات ساکت ہو جاتے ہیں۔ شادی کی رات مرکزی کردار خوب نشہ کرتا ہے اور بہکتا ہوا گھر کی طرف جاتا ہے۔ تصور میں بیوی کے کمرے میں داخل ہوتا ہے مگر حقیقتاً وہ قبرستان میں پہنچ جاتا ہے اور ایک کُھلی ہوئی قبر میں جاکر لیٹ جاتا ہے۔ مُردہ عورت کو اپنی بیوی سمجھتا ہے۔ نشہ کی حالت میں اُس کے حُسن و جمال کی تعریف کرتا ہے اور اسی حالت میں سو جاتا ہے مگر آنکھ کُھلنے پر:

’’ وہ سوچنے لگا شاید چھت اڑ گئی، چند لمحے بعد نظریں آسمان سے زمین پر اترنے لگیں اور اجنبی کی طرح قبروں پر گھومنے لگیں۔ وہ فوراً ہی کھڑا ہو گیا اور بغل میں پڑی ہوئی عورت کی لاش پر اس کی آنکھیں جم کر رہ گئیں۔ ‘‘    (چھت اڑ گئی)

یہ کائنات نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود مُردہ عورت کی طرح ہے۔ شاید اسی کی وضاحت کے لیے پلاٹ سجایا گیا ہے۔ منظر نامہ پر دُلہن نہیں لیکن پس منظر صرف اور صرف اُسی کا ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک اور صیغۂ واحد متکلم میں۔ حیات و کائنات کی بے ثباتی کا اظہار ’’ویٹنگ روم‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ کائنات ویٹنگ روم اور اُس کے باہر کا منظر جنت، دوزخ کا تصور ہے۔ موضوع کو کردار سے ملانے اور ذہنی کیفیت کو اُجاگر کرنے کے لیے جزئیات کا سہارا لیا گیا ہے۔ اسٹیشن کی منظر کشی، انسانوں کی چہل پہل، ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظاریہ سب کچھ ریل کے سفر کی تصویر کشی ہے لیکن حقیقت میں زیریں سطح پر انسانی زندگی اور کائنات کے فنا ہونے کی آتی جاتی لہریں، انسان اور اس کی تہذیبی تاریخ کی منہ بولتی تصویریں ہیں جو مذکورہ کہانی کا جزو لازم بن جاتی ہیں :

’’جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا۔ اسے ویٹنگ روم عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ روم کے فرق کو جاننے کے لیے دماغ کھپانے لگا؟‘‘

        انسان کے اندر ایک بے رحم حیوان کی موجودگی، دوسرے معاشی بد حالی ساتھ ہی لالچ خود غرضی نے اعلیٰ اقدار کی شکست کا بحران اتنا طویل کر دیا ہے کہ معاشرہ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ رشتوں کی عظمت و اہمیت کے زوال نے انسان کو ضمیر فروشی پر مجبور کر دیا ہے تب ہی ’’ ہاف بوٹل بلڈ‘‘، ’’اندھا قانون‘‘ اور ’’ رینگتے کیڑے‘‘ جیسی کہانیاں تخلیق ہوتی ہیں۔ جہاں ڈاکٹر اپنا فرض منصبی اور پولیس اپنے فرائض کو چند سکوں کے عِوض بیچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔

        واقعات کے نہاں خانہ میں احساسات و کیفیات کی شدت اور ان کی دھیمی دھیمی رفتار —-ساتھ ہی یہ واقعات عورت و مرد کے تصادم سے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جو جدائی۔ طلاق۔ وصل، نکاح، انتظار، بے قراری، ایذا رسانی، بے وفائی اور جنم جنم کے ساتھ اور فریب زندگی کے عمل اور ردّ عمل سے ظاہر ہوتے ہیں ’’کرب کا سمندر‘‘، ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’وہ لمحہ‘‘ اور ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘ اس کی اچھی مثال ہیں۔ خصوصاًافسانہ ’’نیلم‘‘ میں جنس کے نفسیاتی پہلو کے حوالے سے زندگی کی تہوں کو ابھارنے کی کامیاب سعی ہے۔

         موضوعات کے تنوع، اظہار کی تیز ترین دھار، الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے  احمد رشید اپنے ہم عصروں میں ما بعد جدید افسانہ نگاروں کے درمیان معتبر آواز بن گئے ہیں۔ سماجی مسائل کو سننے سے زیادہ دیکھنا، محسوس کرنا، معاشرتی ناہمواریوں سے الجھنا اور ان سے بے باک ہوکر باتیں کرنا نیز انھیں فنّی طور پر پیش کرنااُن کا طُرۂ امتیاز ہے۔

        احمد رشید نے اپنے افسانوں کو اعتدال کی راہ دی ہے جن میں بھر پور افسانویت، تخلیقی ذائقے، علامتوں اور استعاروں پر گرفت، ترسیل اور ابلاغ کی آسانیاں ملتی ہیں۔ زندگی کے خارجی مظاہر کے توسط سے انسان کے متضاد ذہنی رویوں کی تفہیم و فرد کی نفسیاتی بے چینی نے ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے افسانوں کو بھی ’’وہ اور پرندہ‘‘ کی طرح توجہ کے قابل بنا دیا ہے۔ دراصل مصنف کے دونوں مجموعوں کے افسانے ہیئتی و تکنیکی تجربوں اور موضوعات کے تنوع کے سبب معاصر افسانوی منظر نامے کو وسیع تر کرتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ اُن کا ہر افسانہ اپنا موضوع، اپنی تکنیک لے کر صفحۂ قرطاس پر فطری انداز میں وارد ہوا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔