لمحے

سالک جمیل براڑ

آج سکول آف تھیٹر کی 50ویں سالگرہ کے موقع پرایک بہترین پروگرام منعقد کیاجارہا تھا۔ دیش بھرسے تھیٹر سے جڑے لوگ کلاکار اورڈائریکٹر وغیرہ جمع ہوئے تھے۔ پروگرام کی صدارت بین الاقوامی شہرت یافتہ اسٹیج ڈائریکٹر پروفیسر پی۔ سی۔ ٹھاکر فرمارہے تھے اور سی۔ ایم (C.M)ایچ۔ سی۔ ناگربطور مہمان خصوصی تشریف لائے تھے۔

رات کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ سکول آف تھیٹرکاہال کھچاکھچ بھراہواتھا۔ پروگرام کا آغاز ون ایکٹ ڈرامے سے ہوا۔ اس کے بعدکئی رنگارنگ پروگرام پیش کئے گئے۔ اگلے پروگرام میں ان ہستیوں کو سنمانت کیا جاناتھاجنھوں نے پچھلے کچھ سالوں میں اسٹیج ڈرامے کی دنیامیں خوب نام کمایا تھا۔ یہ رسم پروفیسر پی۔ سی۔ ٹھاکر اور چیف منسٹر صاحب کے ہاتھوں سے انجام دی جارہی تھی۔ پروگرام کے آخری مرحلے میں تھیٹر کی دنیاکے کلاکارتالیوں کی گونج میں ایوارڈ حاصل کر رہے تھے۔ اسٹیج سیکریٹری کی آواز گونجی۔

اب میں انجلی ناگرصاحبہ کو آوازدے رہاہوں۔ کہ وہ آئیں اور اپناایوارڈ حاصل کریں۔ انجلی ناگر اسی باغ کی ایک کھلتی کلی کانام ہے۔ جس باغ نے تھیٹرکی دنیاکو پی۔ سی۔ ٹھاکر جیسا سایہ دار پیڑ عطاکیا۔ یعنی انجلی ناگربھی اسی کالج کی پیداوار ہے۔ جس کالج میں پروفیسر پی۔ سی۔ ٹھاکر صاحب نے اپنی تھیٹر کی زندگی کا آغازکیا۔ اورپھروہیں پربطور پروفیسر20سال تھیٹر کی سیوا کی۔ تالیوں کی گونج کے ساتھ ایک خوش پوش، خوبصورت عورت اسٹیج پرآئی اور پروفیسر ٹھاکر کے ہاتھو ں ایوارڈ حاصل کیا۔ ایوارڈ تقریب ختم ہوتے ہی ٹھاکر صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ان کے چہرے پرایک دم مایوسی کی گھنی گھٹاچھاگئی۔ ایک ہی سانس میں انھوں نے پورا پانی کا گلاس حلق سے نیچے انڈیل لیا۔ ایسے لگ رہاتھاجیسے وہ اپنے اندرجل رہی آگ کوٹھنڈاکرناچاہتے ہوں۔ پھر چند منٹوں بعد ہی انہوں نے اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے معافی مانگتے ہوئے منتظمین کا شکریہ ادا کیااورگھرچل دیے۔

پروفیسرٹھاکر جن کی عمر70سال کے قریب تھی۔ اسٹیج کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔ آپ نے طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنی تھیٹر کی زندگی کا آغازکیاتھا۔ آپ سرکاری کالج راج گڑھ کی ٹیم کے بہترین ایکٹرمانے جاتے تھے۔ آپ نے قومی سطح کے ڈراموں میں حصّہ لیا۔ اور راج گڑھ سرکاری کالج کانام روشن کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ وہیں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ پھرآپ نے ڈرامہ ڈائریکشن کے فیلڈمیں قدم رکھا۔ اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر آپ نے کچھ ہی سالوں میں اسٹیج کی دنیامیں اپنا سکّہ جمادیا۔ پھرلگاتار پانچ سال آپ کی ڈرامہ ٹیم آل انڈیا ونر(Winner)رہی۔ اس دوران آپ کوکئی فلم ڈائریکٹر وں نے دعوت دی۔ لیکن آپ نے کوئی آفرقبول نہ کی۔ زمیندارگھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اس لیے پیسے کی بھوک نہ تھی۔ آپ توصرف کلاکے پجاری تھے۔

لیکن اچانک ایک دن انہوں نے لیکچرآر شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ اور چنددن بعدہی ہندوستان چھوڑکرانگلینڈچلے گئے۔ وہاں پرآپ نے اسٹیج ڈرامے پر خوب کام کیا۔ اور انٹر نیشنل سطح پرشہرت حاصل کی۔ کئی انگریزی فلمیں بھی ڈائریکٹ کیں۔ اورآسکر ایوارڈ حاصل کر کے ہی دم لیا۔ آپ اسٹیج کے ایسے جوہری تھے کہ پتھر کو بھی ہیرابنادیتے تھے۔ برسوں بعدکچھ دن پہلے ہی وہ انگلینڈ سے واپس آئے تھے۔ اورآج سکول آف تھیٹر کی50ویں سالگرہ کی صدارت فرما رہے تھے۔

پھرآپ کو’’بابائے تھیٹر‘‘ کے ایوارڈ کے ساتھ نوازاگیا۔ منتظمیں آپ کو بڑے احترام کے ساتھ کارتک چھوڑنے آئے۔ آپ نے ہاتھ جوڑ کرمسکراتے ہوئے اُن اجازت لی اورکار میں سوار ہوگئے۔ اورکاراُن کے آبائی شہرراج گڑھ کی طرف دوڑنے لگی۔

پروفیسر ٹھاکر ایک ہارے ہوئے سپاہی کی طرح کارکی سیٹ سے ٹیک لگاکربیٹھ گئے۔ اور اپنی گردن کو دائیں طرف موڑکر کارکی کھڑکی سے باہراندھیرے کوگھورنے لگے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے عیاں ہورہاتھا۔ جیسے ان کے ماضی کا کوئی زخم دوبارہ رسنے لگا ہو۔ انہوں نے اپنا دائیاں ہاتھ ماتھے پررکھ لیااورآنکھیں موندلیں۔ اور ماضی کے کھنڈرات میں کھو گئے۔ ان کے ذہن کے پردے پرکچھ دھندلے عکس ابھرنے لگے۔ ان کا 25سال پرانا سرکاری کالج راج گڑھ سے جڑا ماضی زندہ ہوگیاتھا اوریادیں تازہ ہوگئیں۔

اس دن وہ کالج کے آڈیٹوریم میں اپنے طالب علموں کے ساتھ ڈرامے کی تیاری میں مصروف تھے۔ وہ نیشنل ڈرامہ مقابلے کی تیاری میں جٹے ہوئے تھے۔ مسلسل ایک ماہ کی ریہرسل کے بعد آج انہوں نے سبھی سٹوڈینٹس کو رول بانٹ دیئے تھے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایک لڑکی جس کی آنکھوں میں اپنی ناکامی کے آنسو تھے۔ اس ڈرامے میں کوئی رول حاصل نہ کرسکی تھی۔ پروفیسر صاحب نے اس پربہت محنت کی تھی۔ وہ اس کے شوق کودیکھتے ہوئے اسے کسی بھی طرح ڈرامے میں شامل کرناچاہتے تھے۔ لیکن یہ اس لڑکی کی بدقسمتی تھی کہ وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ دل شکستہ انجلی سے انہوں نے بڑے پیارسے کہا۔ ’’دیکھوبیٹا……یہ ڈرامہ اس کالج کاآخری ڈرامہ نہیں …  اورپھرانسان توگرگرکے سنبھلتاہے……اگرآپ کو اس بارموقعہ نہیں ملاتواگلی بار سہی … … انسان کو امیدکادامن نہیں چھوڑناچاہیے۔ ‘‘پروفیسر ٹھاکرنے ناکام بچّوں کو ہمیشہ حوصلہ دیاتھا۔

سبھی لڑکے لڑکیاں جاچکے تھے۔ لیکن وہ معصوم سی لڑکی اب بھی ضد کررہی تھی۔ ’’سرپلیز ……آپ مجھے صرف دومنٹ کا رول دے دیں ………میں ایک باراسٹیج پر آناچاہتی ہوں ……‘‘لڑکی نے ایک بارپھرالتجا کی تھی۔

’’دیکھو بیٹا!………یہ ٹیم ورک ہے……… ایک سوراخ پوری کشتی کو ڈبو دیتا ہے۔ ………آپ محنت کریں ……دیکھناایک دن کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ‘‘

پروفیسر صاحب اس لڑکی کا دل نہیں توڑناچاہتے تھے۔ کیونکہ ان کے تجربے کے مطابق کلاکاربنایانہیں جاتابلکہ کلاکارتوپیدائشی کلاکار ہوتے ہیں۔

اگلے دن شام کے تقریباً چھ بج رہے تھے۔ پروفیسر صاحب سیرکرکے گھرواپس آرہے تھے۔ وہ اپنے گھر کے آنگن میں پرنسپل صاحب کوبیٹھے دیکھ کر حیران ہوگئے۔ نمستے کرتے ہوئے ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔

’’سر……کوئی ضروری کام تھا۔ ‘‘

’’ہوں ……بہت ضروری کام ہے……تبھی توآپ کے پاس چلاآیا… … پہلے یہ بتائیے…… ڈرامے کی تیاری کس طرح چل رہی ہے۔ ‘‘

’’سرآپ گھبرائیں مت…بھگوان نے چاہاتواس باربھی ہم نیشنل جیت کرہی آئیں گے۔ ‘‘

’’بھائی……وہ ہمارے ایم۔ پی ناگرصاحب کی بیٹی ہے……کیانام ہے اس کا… …‘‘پرنسپل صاحب نے ذہن پرزورڈالتے ہوئے پوچھا۔

’’جی……انجلی ناگر‘‘پروفیسر صاحب نے لڑکی کانام بتایا۔

’’ہاں تو………آپ نے انجلی کو ہرحالت میں ڈرامے میں ایڈجیسٹ کرناہے۔ ‘‘

’’لیکن سر‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں ……اگرآپ نے ایسانہ کیا………تو……آپ کا  تبادلہ بھی……‘‘یہ کہتے ہوئے پرنسپل صاحب چل دیے۔

ساری رات پروفیسر پی۔ سی۔ ٹھاکر کونیند نہ آئی۔ وہ رات بھرسوچتے رہے اورسگریٹ پھونکتے رہے۔ جھکنا اورڈرناتواُن کی فطرت میں تھا ہی نہیں۔ نوکری تووہ شوق کے طورپر کررہے تھے۔ آخر ان کی رگوں میں بھی ٹھاکر گھرانے کا خون دوڑ رہاتھا۔ اگلی صبح انہوں نے اپنااستعفیٰ کالج بھیج دیا۔ پرنسپل اور دوسرے پروفیسرساتھیوں نے انھیں بہت سمجھایا۔ مگروہ نوکری چھوڑنے کے فیصلے پر اَڑے رہے۔

کاراندھیرے کوچیرتی ہوئی سنسان سڑکوں سے ہوتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پروفیسر صاحب نے ایک آہ بھرتے ہوئے انگڑائی لی اور ڈرائیور سے پوچھا۔

’’کیوں بھئی!………کتناٹائم اورلگے گا۔ ‘‘

’’جی……ساب آدھا گھنٹہ……‘‘

چندلمحوں بعدپھران کا ماضی ان کے ذہن پر سوارہوگیا۔ ان کے ذہن کی دیوارپرایک کے بعدایک چہرہ ابھرنے لگا۔ یہ سبھی چہرے ان کے لائق شاگردوں کے تھے۔ جن کو وہ آج 25 سال بعدبھی نہ بھول پائے تھے۔ اقبال، اجے، اصغر، اشوک، کاجل، عائشہ، آرتی، سے ہوتے ہوتے آخرانورکاچہرہ ان کے دماغ پرچھاگیا۔ بلاکاذہین ایکٹرتھا۔ آل انڈیا اسٹیج ڈرامے کے فائنل میں اس نے کس کمال سے ہیجڑے کا رول ادا کیاتھا۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد تماشائی ہیجڑے کو ملنے کے لیے بیتاب تھے کچھ لوگ اسے اصلی ہیجڑا ہی سمجھ بیٹھے تھے۔ پروفیسر صاحب یہ سوچتے ہی زیرلب مسکرائے۔ وہ بکریوں والے کلّوکے رول میں کتنا اموشنل ہوگیاتھا۔ کہ پورے ہال میں ایک دم سناٹاچھاگیاتھا۔ اورکلّو بکریوں والے کے ساتھ پوراہال رورہاتھا۔ پروفیسر صاحب کو انورکے بارے میں کی گئی پیش گوئی آج بھی یادتھی۔

’’بیٹاانور!……یہ بات تم لکھ لو……کہ ایک دن تم تھیٹرکی دنیاکابڑا سٹاربن کے ابھروگے‘‘یہ الفاظ پروفیسرصاحب نے اسے تیسری بار نیشنل ایوارڈجیتنے کے موقع پرکہے تھے۔

وہ سوچنے لگے۔ ضرور انورنے فلم انڈسٹری کارخ کیاہوگا۔ آج وہ ایک منجھاہوا ایکٹریا ڈائریکٹر ہوگا۔ ہوسکتا ہے تھیٹر کی ایم۔ اے۔ وغیرہ کرکے کہیں لیکچرار لگ گیاہو۔

پروفیسر صاحب کو پیاس کی شدت محسو س ہوئی۔

’’ارے بھائی……مجھے Mineral water کی بوتل چاہیے……اگرکوئی دوکان آئے تو گاڑی روک لینا‘‘انہوں نے اپنے ڈرائیور کو ہدایت کی۔

اب وہ راج گڑھ کی سرحدپرپہنچ چکے تھے۔ رات کے تقریباً دوبج رہے تھے۔ اردگردکی دوکانیں اور ڈھابے بندہوچکے تھے۔ صرف ایک چائے کی دوکان کھلی تھی۔ ڈرائیورنے اس کے آگے جاکرکارروک دی اور دوکان مالک کوMineral water کی بوتل دینے کے لیے کہا۔ اور ایک ادھیڑ عمرآدمی بوتل لے کرکار کی پچھلی کھڑکی کی طرف بڑھا۔ بوتل پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں دیتے ہی وہ انھیں غور سے دیکھنے لگا۔ پروفیسر صاحب نے دس روپے کا نوٹ نکال کراسے دے دیا اور بوتل کی سیل توڑنے لگے۔

کچھ لمحوں کے بعد وہ بولا۔ ’’………سر………آپ‘‘

پروفیسر صاحب نے اپنی کمزور سی نظروں سے اس کی طرف دیکھااوراسے چندلمحے گھورنے کے بعد بے ساختہ بولے۔

’’انور‘‘

’’جی……سر‘‘اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’’بیٹا! ………تم یہاں۔ ‘‘

’’جی……یہ دکان میری ہی ہے……سر……میری اپنی دکان …  ؟‘‘

پروفیسر صاحب کبھی اس کی طرف توکبھی بوتل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ لیکن وقت بے آواز قدموں سے گذرتاجارہاتھا۔

تبصرے بند ہیں۔