سوڈانی مسلم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی کے افکار کا مطالعہ (قسط 2)

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

        نظریے کی تعبیر نو

        روایتی اسلامی مفکرین کے بہ نسبت آزاد خیال اور اصلاح پسند نظریات کے حامل متجدد مفکرین پر ترابی کے افکار کا اثر زیادہ نمایاں نظرآتاہے۔ ترابی کے افکار وخیالات بیک وقت جہاں ایک طرف روایتی اسلام کی تنظیم وتجدیدِنوپر مصر، بنیاد پرست ناقدین میں سے آزاد خیال طبقے(Liberl Critique of Fundamantalists) کا مرکز توجہ بنے ہیں، وہیں فکر ِ اسلامی کی تشکیل جدید کے حامی معذرت پسند مسلم مفکرین نے بھی ان کواپنی تحریکی ودعوتی سرگرمیوں کا نقطۂ آغازبنایا ہے۔ چونکہ قدرتی طور سے ملکی وعالمی سیاسی حالات کے تحت ترابی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک بنیاد پرست تحریک کے لیڈر کی حیثیت رکھنے کے باوصف، قدرے لبرل اورمتوسع افکار و نظریات کے حامل سمجھے جاتے تھے۔

         1988ء میں وزارتِ عدل اور ’’جنرل اتاشی‘‘ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ترابی نے اسلامی نظامِ قضا وفوجداری پر اپنے خیالات کاکھل کر اظہار کیا۔ عورت کے حقوق اور مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کی شرعی حیثیت اُس زمانے میں ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ جون 1988ء میں ایک ٹی وی مباحثے کے دوران اُن کے افکار و نظریات کو علی الاعلان چیلنج کیا گیا، اس مباحثے میں ان کے اِس نظریے کو بھی رد کیا گیاتھا جس کی رو سے عصرِ حاضرکے مسلم اقلیتی ممالک میں نفاذِ شریعت یااقامتِ دین کی کوششیں کرناضروری نہیں ہوتا۔ اسلامی حکومت میں عورت اور غیر مسلم کو اعلیٰ ترین منصب کی اہلیت و لیاقت کا حامل بتانے والے اُن کے نظریات کو بھی زیربحث لایا گیا۔

        ترابی کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں، کیوں کہ اُن کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم اقوام کے باہمی تعلقات سر تا سر طرفین کی جانب سے باندھے گئے معاہدات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس قسم کے معاہدوں میں مندرج ومقرر اشیاء کو شرعی اعتبار حاصل ہوجاتاہے، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ واقعیت پسندانہ موقف اسلام کی روح اور اولین مسلم معاشرے(عہدِ رسولﷺ وعہدِصحابہؓ) سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ترابی نے قتالِ کفار کے جمہورالمسلمین کے نظریے کو بھی ہدف ِ تنقید بنایاہے، ان کا استدلال ہے کہ قدیم انسانی دنیا کی عالمی صورتِ حال اس قسم کے احکامات کی متقاضی تھی، لیکن عصر حاضر میں متفق علیہ بین الاقوامی قوانینِ امن و سلامتی کی موجودگی میں اب جہاد وقتال کو شرعی باور کرانے والے احکامات کی ضرورت چنداں باقی نہیں رہی ہے۔

        روایت پسند دینی حلقوں کی جانب سے ترابی کے ان نظریات پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ مثال کے طور پر مصر کے روز نامہ ’’ الایام‘‘ 30؍جون 1988ء میں شائع شدہ ’’عبداللہ فضل اللہ عبد اللہ‘‘ کا مضمون ملاحظہ کیا جائے۔ مضمون نگار نے ترابی کو شریعت کی واضح تعلیمات کی مخالفت اور بے اصل اور گمراہ کن نظریات پھیلانے کا ملزم ٹھہرایا ہے۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ عورت کے منصف اور حاکم بننے پر بعض قدیم اسلامی مکاتب فکر کی تائید کا ترابی کا دعویٰ سراسر بے بنیاد ہے۔ ترابی کے اس دعوے سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ بڑے فقہی مذاہب میں سے کوئی اس کا قائل ہے، درآں حالیکہ یہ بعض شاذ اور گمنام آرا ء ہیں، جن کاکبار مذاہبِ اربعہ سے کوئی لینا دینا نہیں، اور انہی مبنی برشذوذ اقوال پرترابی نے اپنے اس نظریے کی اساس رکھی ہے۔

         عصر ِحاضر میں ’’جہاد بالسیف‘‘ کی منسوخیت کا ترابی کا دعویٰ تمام ائمۂ اسلام کے اجماع کے منافی ہے۔ فقہائے اسلام کے مابین سرکش وظالم کفار سے بلا مداہنت جنگ کرنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتاہے۔ فقہِ اسلامی کا یہ قاعدہ سوڈان کے غیرمسلم قبائل پر بھی صادق آتاتھا جن کو ترابی بہر صورت اسلامی مملکت کا ایک جزو بنانے پر مصر ہیں۔

         اسی طرح ترابی کا یہ نظریہ کہ غیر مسلم افراد نے ماضی میں اسلامی مملکت کے اعلیٰ ترین مناصب حاصل کیے تھے، قدامت پسند اور آزاد خیال دونوں قسم کے مسلم مفکرین کے نزدیک غیر مستندوغیرمدلل ہے۔ مولانا مودودیؒوغیرہ دیگر تحریکی مفکرین نے اپنی تحریروں میں اس بات کی مفصل وضاحت کی ہے کہ اسلامی مملکت میں کوئی غیر مسلم کلیدی عہدوں کااہل نہیں مانا جاسکتاہے، اورنہ ہی پوری اسلامی تاریخ میں انتخابِ خلیفہ کے لیے کبھی غیر مسلموں سے استصوابِ رائے کیا گیاہے، لہٰذا اسلامی مملکت میں مسلم و کافر میں مساوات ِ حقوق کا ترابی کا نظریہ نا قابلِ قبول ہوجاتا ہے۔

         1988ء کے اخیر اخیر میں سوڈان کی مجلسِ قانون ساز کے سامنے نئے مسودۂ قوانینِ اسلامیہ کے تئیں ترابی کے حلف برائے وفاداری نے دوبارہ اعتراضات کا منہ کھول دیاتھا۔ ناقدین کے نزدیک یہ مسودۂ قوانین، شرعی ہدایات وتشریحات کے بجائے لا دینی اصولوں پر تیار کیاگیا تھا، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی رو سے آئینی طورپراسلامی مملکت میں مسلم و غیر مسلم سب کو مساوی حقوق کا اہل قرار دیا گیا ہے۔

        ترابی نے اپنے ان نظریات کی تائید میں آیت کریمہ: { فَإِن جَآؤُوکَ فَاحْکُم بَیْْنَہُم أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ وَإِن تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَن یَضُرُّوکَ شَیْْئاً وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ}[المائدۃ:42] سے استدلال کیا تھا۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ کے رسولﷺ کو غیرمسلموں کے معاملات میں فیصل بننے اور نہ بننے کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن واضح رہے کہ جمہوراعلام مفسرین کے نزدیک آیت کی یہ’ ترابیانہ‘ تشریح غلط ہے۔ ان کے نزدیک یہ آیت کریمہ اپنی ما بعد آیات میں مذکورہ شرائط کی روشنی میں منسو خ مانی گئی ہے۔ ناسخ آیت یہ ہے: {وَأَنِ احْکُم بَیْْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَن یَفْتِنُوکَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّہُ إِلَیْْکَ} [المائدۃ:48]

        اسی طرح ترابی نے اپنے استدلال کی خاطر مدینہ منورہ میں تشکیل پانے والی اولین اسلامی ریاست کو ایک اتحادی مملکت (Federal State) سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بقولِ ترابی، اس میں یہودِ مدینہ اور مسلمانوں کی مساوی حیثیت تسلیم کی گئی تھی، حالانکہ ترابی کا یہ استدلال بھی غلط ہے۔ کیوں کہ تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ہجرتِ رسولﷺکے معاً بعدکیے جانے والے مدینہ منورہ کے اولین انتظامات کی نوعیت ایک معاہدے کی سی تھی، کسی ریاست کی تشکیل سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اورحقیقتِ واقعہ بھی یہی ہے کہ اس معاہدے کی رو سے یہود ِ مدینہ کو مسلمانوں پر کسی قسم کی قانونی بالادستی نہیں دی گئی تھی۔

        مخصوص نظریات وافکار کے پہلو بہ پہلو ترابی نے اپنی کتاب ’’ تجدید الفکر الاسلامی‘‘ میں تجدید واحیائے اسلام کے عملی طریقوں (Methodological Proposels) کا ایک خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ لیکن شامتِ اعمال کہ ان کے اس تجدیدی منصوبے نے بھی روایت پسند دینی حلقوں میں ان کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ہی کیا۔ اس ہنگامہ خیزی میں ابھی کچھ کمی نہیں آئی تھی کہ ترابی نے ایک اور نیا نظریہ یہ پیش کردیا کہ قرآنِ کریم کی جملہ قدیم تفاسیر اپنے اپنے عہد اور معاشرے کی روح کی عکاس اور حالات کی ترجمان رہی ہیں، اور اب قرآن کودوبارہ از سر نو تفسیر وتدبرکاموضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ جمہور علمائے دین نے ان کے اس نظریہ کو کافرانہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی بھی گمراہ کن نظریے کو مان لینے کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کے لازوال تشریعی سرچشمے کو حالات وتغیرا ت کے تابع قرار دے دیا جائے۔

         ترابی کے ایک اور دعوے نے بھی جدید مسلم فکر کو بیحد متأثر کیا ہے۔ ان کا کا ماننا ہے کہ اسلام جو ایک کائناتی وآفاقی دین ہے، کبھی اپنی کامل صورت میں روئے زمین پر زیرِ عمل وزیرِ نفاذ نہیں آسکتاہے، بلکہ ہوگا یہ کہ مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس میں ہمہ وقتی وہمہ جہتی ترقی وارتقاء ہوتا رہے گا۔ ناقدین نے اس کو اسلام کی تعبیر نو کے بجائے ایک نئے دین کی تاسیس کے ہم معنی قرار دیا۔ اس نظریہ کی رو سے اسلام کا اولین عہد کسی لحاظ سے بھی اسو ہ اور قابل اتباع نہیں رہ جاتا ہے۔ یہ نظریہ جمہور المسلمین کے اس عقیدے کی بھی نفی کرتا ہے، جس کی رو سے مستقبل کی تمام مسلم نسلوں کے لیے اولین اسلامی معاشرہ رول ماڈل کی حیثیت رکھتاہے۔

        ترابی نے اپنی کتاب میں اس اصلاحی منصوبے کو ’’تطویر الدین‘‘ یعنی دین کے ارتقاء و ترقی سے تعبیر کیا ہے اور اس کو تجدیدِ دین یعنی دین کے احیائے نو سے ممیز وممتازبتلایا ہے۔ ترابی کے نزدیک تجدیدِ دین کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کے طریقہ ہائے فکر و عمل کا احیاء کیا جائے، جب کہ ’’تطویرِ دین‘‘ کا مطلب دین کو نئے مراحلِ حیات سے ہم رنگ و ہم آہنگ بنانا ہے۔ اس قسم کی ناروا تشریحات سے ہمیں کسی حد تک ترابی کے تخریبی عزائم سے آگاہی ملتی ہے۔ ترابی کا اصرار ہے کہ مذہب کے ابدی اصولوں کو حقائقِ زندگی کے تابع اور اس سے سازگار بنانا ضروری ہے، نہ یہ کہ اس کے برعکس حقائقِ زندگی کو اصلاح و تہذیب کے ذریعہ موافقِ مذہب بنالیا جائے۔

        عورت اور غیر مسلموں سے متعلق منحرف افکار ونظریات کی ترویج واشاعت اور ظہورِ مہدی یا نزولِ عیسیٰؑ سے متعلق صحیح احادیث و اخبار کی تنقید وتردید کے ذریعے ترابی اپنے تصور ِ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقبلِ قریب یا بعیدمیں اگر فیشن اور ضروریات ِ حیات مزید آزادئ نسواں کے داعی ہوجائیں توقرآن وحدیث کے واضح احکامات کو برطرف کرکے ہمیں ترقی کا ساتھ دینا پڑے گا۔ اسی طرح اگر غیر مسلم حضرات کوصدر مملکت ِاسلامیہ کے مناصب تفویض کرنے کا چلن ہوجائے تو ہمیں مذہب کو تراش خراش کرکے اس سیاسی مظہرے(Phenomenon) کے موافق بناناہوگا اور اگر جہاد فی سبیل اللہ کوبہ تقاضائے عصرِ حاضر منسوخ مان لیا جائے تو اس مقدس فریضے کوبھی تاقیامت متروک قرار دے دینا چاہیے۔

        ترابی نے اپنی تحریروں میں متعدد مقامات پر مذہب کے ناقابلِ تغیر وتبدل ابدی اصول واقدار اوران کے بالمقابل حالات وضروریات کے تحت متغیر ہونے والے ان کے مخصوص استعمالات و طریق ہائے اظہار کے مابین فرق بیان کرنے کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ بذات خود باعث فکر وتشویش ہے۔ ترابی کے اس فکری واہمے کوقبول کرلینے کے بعد، بیشتر لا دینی و الحادی مفکرین کا یہ عقیدہ کہ کسی بھی دین کی ظاہری اشکال اورہیئتیں وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اپنے اندر کوئی نکارت رکھتا نظر نہیں آتا۔

        ترابی اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ہر علاقے اورہر قوم کو اپنے مناسب ِ حال طریقہ ہائے عبادت اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ وہ بدلتے حالات میں روایتی عقائد واعمال کی بتدریج اصلاح و تجدید کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے قدیم روایتی ڈھانچے کو پوری جرأت مندی اور انتہا پسندی کے ساتھ مسمار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں ماضی کے ورثے کو حرزِ جاں بنانے والے تنگ نظر، متحجر مزاج(Rigid) اور بزدل ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ حسن ترابی اسلا ف کے تاریخی ورثے کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست شریعت کے اصل مصادر سے استفادے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف ِ صالحین کی علمی میراث کسی طور بھی فیصلہ کن نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ ان کے مخصوص حالات وظروف کا انعکاس بھر ہے۔ شاید یہی کچھ ایک عام قاری کی طرف سے حسن ترابی کی ان بے سر و پا تشریحات کے رد میں بھی کہاجا سکتاہے، یعنی یہ لغو مباحث وافکار محض ترابی کے مخصوص حالات وکوائف کا انعکاس بھر ہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت ووقعت نہیں۔

        ترابی کے اصلاح و ترقئ دین کے منصوبے اور عملی طریقۂ کار کی تخریب پسندی وہلاکت خیزی سے متعلق جو رہے سہے شکوک وشبہات تھے وہ اس منصوبہ کو روبہ عمل لانے کے بعد یقین و مسلمات میں بدل گئے۔ ترابی کا صنفِ نازک کو آزادانہ اختلاط کی دعوت دینا اور حکومتی اداروں میں اعلیٰ مناصب پر خواتین کی تقرری کی وکالت کرنا صریح شرعی احکامات کے خلاف ہے۔ شریعت صنفِ نازک کے لیے گھر کی چہار دیواری کوہی میدانِ عمل قرار دیتی ہے اورصرف انتہائی مجبوری میں کامل علیحدگئ زن و مرد جیسی شرائط کے ساتھ اس کو زندگی کی گہما گہمیوں سے نبرد آزما ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ ترابی آزادئ نسواں کے اپنے مفروضے کو صحیح قرار دیتے ہوئے ابتدائے اسلام سے آج تک چلے آرہے علمائے اسلام کے اجماع کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کی عظیم الشان دلیل کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ آزادئ نسواں کا نظریہ بہر حال دنیا میں غالب ہورہا ہے اور غالب ہوکر ہی رہے گا، تو کیوں نہ اسلامی شریعت کو اس کی موافقت میں ڈھال دیاجائے۔ بہ ظاہرا یسا لگتا ہے کہ ترابی کے نزدیک امتِ مسلمہ کاقدیم معاشرتی واجتماعی نظامِ زندگی کچھ اس قدر لاچار و مجبور واقع ہوا ہے کہ وہ خود اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔