جدید چیلنجز اور اہل علم خواتین

ارجمند بانو

  مختلف میدانوں میں اسلام اور کفر کی جنگ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوتے ہی اسلام کی فصیلوں میں دراڑیں ڈالنے کا ابلیسی عمل شروع ہوا جو بلا تعلل کے آج تک جاری ہے۔ حق و باطل کی اس طویل کشمکش میں جہاں اہل باطل اور اہل کفر کی سازشوں، نت نئے طریقوں سے حق کو ختم کرنے کی کوششوں، اپنے تمام تر وسائل و ساز و سامان کے ساتھ حق کو ملیامیٹ کرنے کی تگ ودو اور عسکری، فکری، علمی، سیاسی، تہذیبی اور دیگر میدانوں میں حق پر حملہ آور ہونے کی کوششی جاری  ہے، وہاں باطل کے خلاف اہل حق کی کاوشوں، حق پر ڈٹنے اور مر مٹنے کے مبارک جذبوں، غلبہ حق کے لیے جان و مال کی قربانیوں، باطل کے ایوانوں میں گر جدار للکاروں اور ہر میدان میں باطل کو منہ توڑ جواب دینے کی کوششون سے بھی انکار نہین  ہے۔ دعوت و عزیمت کی یہ صبر آزما جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ اور مایوس کن حالات میں شمع امید ہے اور دین اسلام کی حفاظت کے خداوندی وعدے کا مظہر  ہے۔

آج کی دنیا کے اختیارات کی باگ ڈور مغرب کے ہاتھ میں ہے اور سیاست، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، فلسفہ، فکر، تہذیب، غرض ہر میدان میں مغرب حاکم، امام اور کلی اختیارات کا مالک ہے یا اسے مالک مانا جا رہا ہے ۔ مغرب نے اپنی حاکمیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام پر چو طرفہ حملہ کر رکھا ہے۔ آج کے مسلمان خصوصاً اہل علم  کی ذمہ داری ماضی کے برخلاف کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ امت مسلمہ کی بقاء، تحفظ اور دینی و ایمانی حفاظت وارثین انبیاء کے کندھوں پر ہے۔ موجودہ دور کے بڑے چیلنجز سے ہر عالم و فاضل مردوخواتین کو باخبر رہنا چاہیے، اور ان کے سد باب اور توڑ کے لیے ہمہ جہت تیاری کرنی چاہیے۔ امت مسلمہ اور خاص کر ہماری خواتین اور نئی نسل کو علمی و فکری حوالے سے کءی چیلنجز کا سامنا ہے… ماضی میں جس طرح صحابیات نے اسلام کو درپیش مسائل و مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا تھا آج اہل علم خواتین کو بھی اسی رہ گزر کو اپنانا ہوگا.. درجہ ذیل بڑے چیلنجز کا سامنا امت مسلمہ کو درپیش ہے:

1۔ سیکولرزم

سیکولرزم عصر حاضر کے بڑے اور خطرناک فتنوں میں سرفہرست ہے۔ سیکولرزم کا مطلب دین کی دنیاوی معاملات، معاشرتی امور اور ریاستی مسائل سے علیحدگی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرزم دین کو محض فرد کا ذاتی، پرسنل اور پرائیویٹ معاملہ سمجھتا ہے اور اجتماعی، معاشرتی و ریاستی معاملات میں دین و مذہب کی مداخلت کا سختی سے مخالف ہے۔ جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور کامل دستور زندگی ہے، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اسلامی شریعت سے باہر نہیں ہے۔ سیکولرزم اسلام کی کاملیت، جامعیت اور ابدیت کے لیے عصر حاضر کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ آج امت مسلمہ مجموعی طور پر دانستہ یا نادانستہ سیکولرزم سے متاثر ہے۔ اور خاص كر نئى نسل اس طرف زياده كهینچ رہی ہے.اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بچوں کو عقیدہ توحید پر راسخ کیا جائے.توحید کو اس کی تمام اقسام کے ساتھ یعنی توحید ربوبیت، توحید الوہیت، توحید اسماء و صفات اور توحید حاکمیت مانا جائے اور عقیدہ توحید کی تبلیغ اپنوں میں کی جائے اور غیروں کو اس کی دعوت دی جائے..

2- الحاد 

انسانی معاشروں میں ایسے لوگوں کا وجود ہمیشہ سے رہا ہے جو مذہب اور خدا کے منکر تھے، لیکن عصر حاضر کی حیرت انگیز مادی ترقی اور سائنسی ایجادات کے بطن سے الحاد کی ایک عالمگیر تحریک نے جنم لیا ہے۔ الحاد روئے زمین پر تمام مذاہب کے انکار کا نام ہے۔ مذہب، دین، خدا، اور ایک برتر ہستی کے مطلق انکار کا نام الحاد ہے۔ ملحدین کے نزدیک سائنس نام کی دنیا ایک حقیقت ہے۔ کائنات صرف موجود اور محسوس کا نام ہے۔ غیرمحسوس، غیرمرئی، یا غیب اور روحانی دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سب انسانی توہمات اور خیالات ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق الحاد معاصر دنیا کا مقبول ترین نظریہ ہے اور روزانہ ہزاروں لوگ الحاد کی بھینٹ چڑھ کر خدا اور مذہب کے مطلق انکار کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ایجاد سے تو الحاد کا فتنہ ایک منظم اور مربوط تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نیٹ پر ملحدین کی بے شمار ویب سائٹس، فورمز اور سوشل میڈیا پر متعدد پیجز اور گروپس موجود ہیں جن میں لاکھوں لوگ شامل ہیں۔ آج کے ملحدین کا سب سے بڑا ٹارگٹ دین اسلام ہے۔اس کی اشاعت کے ذریعے مسلمانوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو بے دین و مذہب بیزار بنایا جارہا ہے. شکوک و شبہات پیدا کر کے انہیں مادہ پرست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے. اس ضمن میں ضروری ہے کہ خواتین اپنی اولاد کی تربیت اسلامی نہج کے کریں. ساتھ ہی ساتھ خواتین خاص طور پر اہل علم ایکدوسرے کی اصلاح کریں. کیونکہ الحاد کے فتنے سے زیادہ متاثر اہل علم ہی ہوتے ہیں. اس تعلق سے خصوصی مواد بھی شایع ہونا چاہیے.

3-مغربى كلچر کی یلغاریں، فیشن پرستی بے حيائى، اور عريانيت

آزادى نسوان كے نام پر فیشن پرستی بے حيائى، اور عريانيت عام هےايسى فكر نئى نسل میں اتاردی گئى ہے کہ کسی مذہبى پابندی کوآج کی نسل ماننے کو تیار نہیں۔

اہل علم خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے کو اس فتنہ سے بچایا جائے۔

اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ شریعت کی اہمیت، اصلاح معاشرے میں خواتین کاکردار، اولاد کی تربیت کے شعور کی بیداری عام خواتین میں لائی جائے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، عصری تعلیمات کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم، قرآن و حدیث کا فہم  سیرت و تاریخ اسلام سے واقفیت لازمی طور پر کی جائے.پردہ کی اہمیت اور سورہ نور کا ترجمہ و تفسیر سے روشناس کروایا جائے.

4- ارتداد

مسلم لڑکے، لڑکیاں مخلوط معاشرے میں نہ صرف ایک دوسرے کے مذہب سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بلکہ انکے غیر معمولی تعلقات بڑھ رہے ہیں اور نوبت کورٹ میرج تک پہونچ رہی ہے۔ غیر مسلم لڑکوں کے غلبے میں مسلم لڑکیاں مذہب اسلام سے مرتد ہو رہی ہے جس کے چند واقعات حال ہی میں رونما ہونے ہیں۔ اگر بچپن سے اسکول اور مدارس کالجوں میں ایمان کی صحیح معنی اور شعوری فہم، اللہ کی توحید کا صحیح تصورمسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو سمجھایا جائے اور انہیں صوم و صلوٰۃ پر پابند رکھ جائے تو اس چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔مشرکین سے نکاح ممنوع ہے اس بات کو دماغ میں راسخ کیا جائے تاکہ وہ اس حرام راستے پر جانے سے پہلے غور و فکر سے ایسے تمام راستوں کو بند کر سکیں. اسکے علاوہ مزید ایسے چیلنجز ہے جس کے لیئے امت کے اہل علم طبقہ جیسے معلمات و مدرسات کو اپنا سرگرم کردار نبھانا ہوگا۔ تاکہ معاشرے کو ایک پاکیزہ اسلامی ماحول فراہم کیا جاسکے۔

5-شادی بیاہ میں غیر اسلامی طریقے اور فضول خرچی

اس ضمن میں اصراف سے بچنا اور غیر اسلامی رسومات کا عملاً بائیکاٹ کے طرزِ عمل کو اپنانا چاہیے

6-ریسٹورانٹ کلچر

ہوٹلنگ یا گھر میں کھانا نہ بناتے ہوئے باہر سے روزانہ کی بنیاد پر کھانا منگوانا بھی فیشن کے زمرے میں آتا ہے.اس سے ریاکاری، اصراف اور تعیش پرستی میں اضافہ ہورہا ہے. ضرورت ہے کہ سادگی کو اپنایا جائے اور معاشرے میں سادگی کو رواج دیا جائے.

7-مرد و خواتین کی مخلوط تقریبات:   

  پارٹی کلچر نے بے پردگی و مخلوط تقریبات کو فروغ دیا ہے. معاشرے میں اصلاح کے لیے پردہ کی تعلیمات کو عام کرنے کی انتہائی ضرورت ہے. حکومت کے حالیہ عدالتی فیصلوں نے گھریلو فضا مکدر کرنے کی شروعات کی ہے. معاشرے کو اس بے حیائی کے طوفان سے بچانے کے لئے اہل علم خواتین کی تیاری ہونی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حیا اور پاکیزگی پر مواد کو سوشیل میڈیا اور اجتماعات کے ذریعہ عام کرنے کی کوشش کریں.

برسوں سے اصلاح معاشرہ کے تحت درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کا ایک روایتی طریقہ ہی ہمارے مدارس اور اجتماعات میں اپنایا جاتا رہا ہے۔ جسکی وجہ سے ملت کا بڑا طبقہ اس سب سے دور رہنے لگا ہے۔ اہل علم خواتین کے لئے آج یہ بھی ضروری ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کریں۔

آج عمومی طور ہمارے اھل علم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تقریر و تحریر کے جدید ذرائع سے نابلد ہیں۔ آج کے محاورے، زبان، اصطلاحات اور جدید نسل کی علمی و ذہنی سطح کے مطابق دین اسلام کے ابلاغ و تفہیم سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کمپیوٹر و ٹیکنالوجی سے مانوس نسل جب خطباء کے سامنے بیٹھتی ہے تو ان کی زبان سمجھ آتی ہے نہ ان کے طرز و اسلوب سے مانوس ہوتے ہیں جس سے دوری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ جدید علوم خصوصاً جدید علم سیاست، معیشت اور سوشل سائنسز کا بقدر ضرورت مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ ان جدید علوم سے بے خبری بسا اوقات جدید نسل کے مسائل اور معاصر فکری آرا کو سمجھنے میں غلطی کا باعث بنتی ہے، اس کے لیے اصحاب مدارس اور دین اسلام کا درد رکھنے والے مخلص جدید تعلیم یافتہ افراد کو مل کر ایک عام فہم نصاب بنانا چاہیے جن سے بقدر ضرورت واقفیت میں مدد ملے اور وہ مزید مطالعہ و تحقیق کے بل بوتے پر ان علوم میں مہارت اور گہرائی پیدا کرنے پر قادر ہوں۔

عصری علوم حاصل کی ہوئی خواتین اور بچے آج نئی ٹیکنالوجی اور شورٹ کورسیس کو پسند کرتے ہیں مزید یہ کہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سے زیادہ تعلیم ترقی پسند معاشرے کا کریز بن گیا ہے وہ دینی تعلیم، دینی مدارس، عالمیت اور فضیلتہ کے لیئے بہت وقت نہیں دے سکتے۔ کریئر اورئنٹڈ سو سائٹی میں شارٹ کٹ  کے راستے سے ہی دین کے لیئےوقت نکالنے والوں کے لیئے ایسے کورسس چلائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس سے مستفید ہو سکیں۔ اس طرح اہل علم خواتین اپنے معاشرے میں ایک اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔