تجارت

عائشہ بشریٰ فائزہ

(ویشالی)

آج ارم کی ماں نے پوچھ ہی ڈالا آخر تمہارے پاس اتنے پیسے آتے کہاں سے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ارم ابھی بالکل خاموش تھی اس کی لبوں پر مسکراہٹ تھی شاید وہ کچھ بولنا نہیں چاہتی تھی۔

تبھی اچانک ارم کے چھوٹے بھائی عامر نے اپنی تشویش ظاہر کی ’’کیا ہوا کیسے پیسے کی بات ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ نہ جانے تیری بہن کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں جو آئے دن غریبوں، ضرورت مندوں میں تقسیم کرتی رہتی ہے کبھی سو کبھی پچاس لیکن آج تو اس نے حد کردی پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر بڑی آسانی سے دے دیا…‘‘!امی نے حیرت سے کہا۔

پانچ سو روپے کا نوٹ کسے دے دیا؟ عامر نے تعجب سے پوچھا..!

’’ ارے بیٹا وہ اپنے محلے کی جو بوڑھی ماں ہے نا اسی کے پوتی کی شادی ہے بہت غریب ہے نا وہ اسی سلسلے میں آج ہمارے گھر بھی آئی تھی۔ اب ہماری اوقات تو اتنی ہے نہیں کہ شادی کیلئے مدد کر سکیں تبھی ارم کے کان تک یہ بات پہنچی تو اس نے جھٹ سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر دے دیا اور بولی بوڑھی ماں میں اس سے زیادہ نہیں دے سکتی اسی سے کام چلائیں۔ بوڑھی ماں کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور اس نے ارم کے ہاتھ کو چوما اور بہت سی دعائیں دیں اور کہا بیٹی بڑے بڑے لوگوں نے تو اتنا بھی نہیں دیا۔ سب نے کہا کہ تو مکار ہے پیسے ٹھگ رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے بوڑھی ماں کی آواز بھرّا گئی اور وہ اٹھ کر جانے لگی اور جاتے جاتے ارم کو دعائیں دیتی رہی۔ ‘‘

’’لیکن امی آپی نے تو بہت اچھا کام کیا؟ ‘‘عامر نے متعجب ہوتے ہوئے پوچھا۔

’’ ہاں بیٹا لیکن میں جاننا چاہتی ہوں کی ارم غریبوں کی مدد کیسے کرتی ہے اس کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں وہ کوئی کام بھی تو نہیں کرتی…؟!‘‘ ماں نے استفہامیہ انداز میں کہا۔

’’”ارم اب تو ہی بتا اس فراخدلی کا راز کیا ہے؟ ماں نے بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا‘‘

 ارم نے آخر کاراپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا…

’’امی! میں کوئی کام تو نہیں کرتی،لیکن ہاں میں اپنے رب سے تجارت کرتی ہوں، میں اسے قرض دیتی ہوں۔ ‘‘

عامر نے چوکتے ہوئے کہا…’’رب سے تجارت؟ یہ کیسے اور اللہ کو کس چیز کی کمی جو وہ قرض لے گا…؟‘‘

 ’’ہاں عامر رب سے تجارت اور قرض.. ‘‘میں نے قرآن مجید میں یہ آیت پڑھی تھی جو کچھ اس طرح ہے۔ ارم نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:

’’ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ ‘‘

اور ہاں عامر! تمہاری طرح صحابہ بھی چونکے تھے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’حدیث پاک میں بھی ہے، کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم۔ قرآن کی آیت کو سن کر حضرت ابو الاصداح انصاریؓ نے کہا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔

دیکھو عامر یہاں قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے۔ اور ہاں اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے، اور وہ دونوں طریقوں سے ہماری آزمائش کرتا ہے، کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے، پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی تو نہیں ہوتی، اللہ تعالی اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر، کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا جو ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہے۔

’’ اچھا آپی تو یہ بات ہے۔ تو میں یوں سمجھ لوں کہ آپ نے اس بوڑھی ماں کو پیسے نہیں دئیے بلکہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے تجارت کی، واہ یہ تجارت تو بہت اچھی ہے اللہ بھی خوش اور بوڑھی ماں بھی خوش اور تو اور ان کی مدد بھی ہو گئی۔ ‘‘ عامر نے ہنستے ہوئے کہا…!

ہاں عامر اور مجھے ان کی مدد کر کے روحانی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے اور میرے پیسوں میں برکت بھی ہوتی ہے، اس تجارت میں ہمارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

ہمارا رب ہے ہی ایسا خالق جس کی خلقت میں کوئی نقص نہ ہو، ارم نے مفکرانہ انداز سے کہا۔

آپی اب سے میں بھی اللہ سے تجارت کروں گا۔ عامر نے پرجوش انداز میں کہا۔

ہاں بالکل کر سکتے ہو اور اس میں صرف پیسے ہی ضروری نہیں ہیں ہم کسی کی دل جوئی کر سکتے ہیں اور نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس سے بھی ہمارا رب بہت خوش ہوتا ہے۔ عامر بھلے ہی ہمارے پاس بہت پیشے نہ ہوں لیکن ہماری پاکٹ منی سے تو اتنے پیسے نکل ہی سکتے ہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے کاموں میں کسی کی مدد کر سکیں اور ہمیں ابھی سے یہ عادت بھی لگ جائے گی، لیکن ہاں ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھنا عامر…!

عامر نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا آپی کس بات کا خیال…؟

ہاں ہاں بتاتی ہوں سنوں تو…!

اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں ( اے ایمان والو!اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر ضائع مت کروجیسے وہ شخص ( ضائع کرتا ہے ) جواپنامال لوگوں کو دکھلانے کی خاطرخرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک صاف اور چکناپتھرہوجس پر مٹی کی تہ جمی ہوپھراس پر زور کا مینہ برساتومٹی بہہ گئی اور پتھر باقی رہ گیا جو ثواب بھی وہ کمائیں گے توبھی ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا- 2:264)

اس آیت میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ و خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا، اہل ایمان کا شیوہ نہیں، بلکہ ان لوگوں کا شیوہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں، پھر یہ کہ ایسے خرچ کی مثال صاف چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو، کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے، یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

جی آپی ان شاء اللہ میں ایسا نہیں کروں گا، نہ ہی احسان جتاؤں گا اور نہ ہی ایزا پہنچاؤں گا اور دائیں ہاتھ سے دوں گا تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوگی. ان شاء اللہ۔

شاباش عامر اللہ تمہیں اس کا بہت اچھا اجر دے گا ان شاء اللہ۔ ارم نے اسے پیار سے کہا۔

ارم کی امی ان دونوں کی باتیں سن کر حیران تھیں اور دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کر رہی تھیں، انہوں نے ارم اور عامر کو گلے لگاتے ہوئے کہا مجھے پتہ ہی نہیں چلا میرے پچے اتنے بڑے کب ہوگئے…‘‘

تبصرے بند ہیں۔