جنوں جب چاہتا ہے راہ پیدا کر ہی لیتا ہے
محمد شاہد خان
اگر انسان کے اندر لگن ہو ، جذبہ ہو اور تڑپ ہو تو وہ کوئی بھی معرکہ سر کرسکتا ہے اور پھر اسکے لئے کوئی بھی چیز نا ممکن نہیں رہ جاتی اسکے برعکس بزدلوں اور پست ہمتوں کا کبھی کوئی شمار نہیں ہوتا، ان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی اور تاریخ انھیں فراموش کردیتی ہے ۔
لیکن انسانی تاریخ ایسے نمایاں کرداروں سے جگمگا رہی ہے جنھوں نے انتہائی سخت اور سنگین حالات کو اپنے حوصلہ کی قوت سے بدل ڈالا اور تاریخ نے ان کا نام سنہرے الفاظ میں ہمیشہ کیلئےاپنے سینے میں محفوظ کرلیا اور رہتی دنیا تک لوگ اس سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
ایسی ہی ایک کہانی میرے وطن صوبہ اترپردیش کے ضلع بلرامپور کے ایک گاؤں ، منکاپور ‘ سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ‘ شبنم ‘ کا ہے
اس کی کہانی بھی ملالہ یوسف زئی سے ملتی جلتی ہے جس نے تعلیم کی خاطر تعلیم کے دشمنوں سے جان کی بازی لگائی تھی اسی طرح شبنم نے بھی انتہائی سخت حالات سے پنجہ آزمائی کی وہ ایک انتہائی غریب گھرانہ میں پیدا ہوئی ‘اسکے والدین کو تعلیم کی اہمیت کا ٹھیک سے اندزہ بھی نہیں ،علاقہ بھی انتہائی پسماندہ ہے جو کسی بھی اچھے تعلیمی ادرہ اور دیگر ترقیات سے یکسر محروم ہے ، گاؤں میں درجہ پانچ تک روایتی مکتب کی تعلیم ہوتی ہے ، مکتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شبنم نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن ماں باپ تیار نہ ہوئے اور اسے گھریلو کام کاج پر مجبور کیا تبھی اسوقت گاؤں میں آئی کئر انڈیا نامی NGO کی ایک خاتون فریدا خان تک اس نے رسائی حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن ان کے سمجھانے بجھانے کے باوجود بھی والدین راضی نہ ہوئے ( کیونکہ وہ مالی اعتبار سے تنگدست بھی ہیں ) اسکے بعد اس بچی نے گاؤں سے 6 کیلومیٹر دور کستوربا گرلس جونیر ہائی اسکول میں خود سے ایڈمیشن لیا اور وہیں پڑھنے لگی یہاں تک کہ چھٹیوں میں بھی گھر آنے کے بجائے اپنی سہیلیوں کے گھر چلی جاتی تھی اسے تعلیم حاصل کرنے کی لگن جنون کی حد تک ہے اس نے آٹھویں نوویں اور دسویں کلاس میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اور اس وقت انٹرنیڈیٹ کے مرحلہ میں ہےاسوقت مذکورہ NGO ہی اسکی تعلیمی اخراجات برداشت کررہی ہے۔
اس کی اس لگن اور جذبہ کی کہانی سات سمندر پار امریکہ تک پہونچ گئی ہے اور وہاں کی مشہور میگزین ‘ گلیمر glamour ‘ اب اسکی اسٹوری چھاپنے جارہی ہے اسی بچی کی وجہ سے ‘ کیئر انڈیا ‘ کوتعلیم سے محروم بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے 31500 ڈالر ( انڈین کرنسی میں اسکی مالیت 20 لاکھ 18 ہزار 249 روپئے ہوتی ہے ) کی پہلی امداد بھی ملی ہے۔
آج یہ بچی اپنی لگن سے اپنے ماں باپ اور علاقہ کا نام روشن کررہی ہے اور یہ ان لوگوں کیلئے مشعل راہ بن گئی ہے جو حالات کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں، یہ ان والدین کیلئے بھی ایک روشن مثال ہے جو کمزور بہانے تلاش کرکے اپنے بچوں کو روزی روزگار میں لگا دیتے ہیں۔
آج ہندستانی مسلمان ہر طرح کی پسماندگی کا شکار ہیں اور ان کی کامیابی واحد فارمولہ یہی ہے
تعلیم ۔۔ تعلیم اور تعلیم!!!
تبصرے بند ہیں۔