روزہ: فقہی اور سائنسی نظریہ سے

اسامہ شعیب علیگ

اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے ۔ان میں سے ایک روزہ ہے ۔اس میں انسان کو مخصوص وقت تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے دور رہنا ہے جو کہ نفسِ انسانی کے لیے شاق ہے ۔ اسی وجہ سے حکمت الٰہی نے چاہا کہ انسان پر پہلے ہلکی تکالیف عائد کی جائیں تاکہ وہ اس کا عادی ہو سکے چناں چہ اس کو چوتھے نمبر پر رکھاگیا۔
روزے کی فرضیت
روزے کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ (البقرۃ:183۔184)
’’ائے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ،جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ چند مقرر ہ دنوں کے روزے ہیں۔اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو،یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ہر مسلمان ،عاقل اور بالغ پر فرض ہے الاّیہ کہ اسے کوئی شرعی عذر ہوتو وہ قضا کر سکتا ہے یا فدیہ دے سکتا ہے۔ لیکن اس کی فرضیت کا منکر کافر، بلا عذر ترک کرنے والا فاسق اورگناہ گار ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اتنی سخت بات کے باوجود بعض مسلمان روزہ نہیں رکھتے ہیں۔موجودہ دور میں اگرچہ ان کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ آخرت کی سزا دنیاوی سزا سے کئی ہزار گنا زیادہ سخت ہے۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔(البقرۃ :185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینہ کو پائے ،اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزہ رکھے‘‘۔
ہر سال کی طرح امسال بھی رمضان المبارک کا مہینہ رحمت و مغفرت اور نیکیوں کا پیغا م لے کر ہمارے درمیان موجود ہے۔بڑے خوش قسمت اور قابل مبارک باد وہ لوگ ہیں جو اس مہینہ میں اپنے پچھلے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت اس طرح سے کرتے ہیں گویایہ ان کا آخری رمضان ہے۔
روزہ کا مقصد
روزہ کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقوی پیدا کرنا ہے۔ اس سے لوگوں میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ، بندوں کے حقوق کی ادائیگی ، زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے اور برائیوں سے بچنے اور جسمانی اعضاء کو گناہوں سے بچانے، خاص کرنئی نسل کے لیے فلمیں دیکھنے، میچ دیکھنے، انٹرنیٹ اور موبائل پر فیس بک یا چیٹنگ کے ذریعے’ٹائم پاس‘ کرنے سے اجتناب کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہو رہا ہے تو روزہ عبادت نہیں بلکہ بھوک اور پیاس کی لاحاصل مشقت ہے۔
حدیثِ نبوی ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتااورکتنے ہی (رمضان ) تراویح پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی تراویح میں سوائے رات جاگنے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔(ابن ماجہ:1690)
اسی ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ایسا جذبہ ا س وقت پیدا ہوتا ہے جب غذا میں کمی کی جائے ۔نفسانی خواہشات کا بھی زو راسی وقت زیادہ ہوتا ہے جب انسان کا پیٹ بھرا ہو۔ عموما ہم لوگ ایک وقت کا کھانا کیا چھوڑتے ہیں کہ شام سے صبح تک مختلف النوع اورتوانائی بخش غذائیں اورانرجی ڈرنکس وغیرہ پیٹ میں انڈیلتے رہتے ہیں ۔اس سے تو روزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیوں کہ بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوتا ہے۔
روزہ کی نیت
ہر دن روزے کی نیت کرنا واجب ہے۔بہتر ہے کہ سحری کے بعد ان الفاظ میں روزے کی نیت کی جائے:
بصوم غدا نویت من شہر رمضان۔
’’میں کل رمضان کے روزے کی نیت کرتا ہوں‘‘۔
روزے نہ رکھنے کے شرعی عذر
(1) بیماری ،سفر اور بڑھاپا:جو مرد یا عورت بیمار ہوں یا سفر میں ہوں تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں لیکن صحت یابی اور مقیم ہونے کے بعد اس کی قضا واجب ہے اور جوبہت بوڑھے ہوں یا دائم المریض ہوں تو ان کے لیے اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں لیکن اس کا فدیہ دینا ضروری ہے۔
(2) حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت:جس عورت کو یہ اندیشہ ہو کہ روزہ رکھنے سے اسے یا اس کے بچے کو نقصان پہنچے گا تو اس کے لیے رخصت ہے لیکن بعد میں قضا واجب ہے۔انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے مسافر کو حالتِ سفر میں روزہ نہ رکھنے اور نصف نماز اد اکرنے کی رخصت دی ہے ۔حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے‘‘۔(ابن ماجہ:1667)
(3)حیض اور نفاس والی عورت:ان حالتوں میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت ہے لیکن پاک ہونے کے بعد ان کی قضا واجب ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم حیض کی حالت میں ہوتے تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھااور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(1)روزے کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے ۔ٹوتھ پیسٹ یا پوڈر کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مسواک کا استعمال کیا جائے کیوں کہ اگر ٹوتھ پیسٹ یا پوڈر حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(2)روزے کی حالت میں پیاس کی شدت کو کم کرنے اور جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے سرپر پانی ڈالنا ،کپڑا پانی میں تر کر کے جسم پر لپیٹنا اور کلی کرنا جائز ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے۔
(3)روزے کی حالت میں کلی کرنے اور ناک میں پانی سے ناک صاف کرنے کی اجازت ہے، البتہ اس میں مبالغہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
(4)روزے دار آنکھ میں سرمہ اور دوا کے قطرے ڈال سکتا ہے یا ناک اور دانت میں بھی لگا سکتا ہے بشرط کہ اس کا اثر حلق تک نہ پہنچے،ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(5)انجکشن اگر بطور علاج لگایاجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیوں کہ اس کے ذریعہ دوا رگوں میں خون کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے ، دماغ یا معدہ تک قدرتی راستوں سے نہیں پہنچتی ہے۔البتہ جسم کو طاقت یا غذا پہنچانے والے انجکشن لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گااس لیے کہ اس سے روزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
(6)بوقتِ ضرورت معائنہ کے لیے روزے دار کا خون نکالا جا سکتا ہے۔حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے حالاں کہ آپؐ احرام میں تھے ،اسی طرح آپؐ نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ (ابن ماجہ:1682)
(7) عورت کا شوہر سخت مزاج ہو یا کوئی شخص ریسٹورینٹ میں باورچی ہو تو اسے نمک وغیرہ چکھنے کی اجازت ہے لیکن پھر اس کو تھوک دیا جائے۔
(8)خوشبو سونگھنا،لگانااورسرمہ یاتیل کا استعمال جائز ہے۔
(9) Vention Inhalerکا استعمال کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لیے کہ اس سے کوئی چیز معدہ میں نہیں داخل ہوتی ہے۔اسی طرح سے آکسیجن لینے سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
(10)اگر قے خود بخود آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ،خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن اگر لوٹا دی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح سے قصدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(11)کسی انسان کابھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیوں کہ اللہ تعالی نے اسے کھلایا پلایا ہے۔
(12)احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیوں کہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی قضا واجب ہوگی۔
روزے کی قضا، کفارہ اور فدیہ
قضا: ہر مسلمان عاقل و بالغ پر جو کسی عذر یا بغیر عذر روزہ نہ رکھ سکے جیسے حائضہ، بیمار یا مسافر پر روزے کی قضا واجب ہوگی اور اس میں تسلسل شرط نہیں ہے۔
کفارہ: یہ صرف روزے کی حالت میں جماع کرنے سے واجب ہوتا ہے۔کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے اور یہ نہ ممکن ہو تودو مہینہ مسلسل روزے رکھے (اگر بیچ میں ایک بھی روزہ چھوڑا تو پھر نئے سرے سے رکھنا ہوگا۔عورت اپنے مخصوص ایام میں چھوڑ سکتی ہے لیکن پاک ہونے کے فورا بعد اس کو رکھنا ہوگا)یہ بھی نہ ممکن ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے(صدقہ فطر کے برابر)،کھانا کھلانے میں تسلسل ضروری نہیں ہے۔ہر مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا چاہیے اور کھانا بھی اس معیار کا ہو جو وہ اپنے اہل و عیال کو کھلاتا ہو۔کفارہ مسلمانوں کو دینا چاہیے۔کافروں کو دینا جائز نہیں ہے۔
فدیہ:یہ حاملہ ،مرضعہ اور بوڑھے لوگوں کے لیے ہے جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں اور اس کی مقدار بھی صدقہ فطر کے برابر ہے یعنی(ایک مُد)۔
روزے کے طبی فوائد
انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے ۔ مشین اسی وقت صحیح کام کرتی ہے جب اس کے تمام پرزے اچھی حالت میں ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہوں۔اسی لیے مشین کو اس کی صحیح حالت میں برقرار رکھنے کے لیے سرویسنگ(Servicing)،اور ہالنگ(Overhauling)کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ مشین خراب ہو جائے گی۔ٹھیک اسی طرح سے انسانی جسم کے تمام اعضاء کو صحیح حالت میں رکھنے کے لیے سرویسنگ ،ہالنگ اور ٹیوننگ (Tuning)کی ضرورت ہوتی ہے۔روزہ جسم کی سرویسنگ کرتا ہے ۔اس سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
(1)روزے سے مٹاپے کا خاتمہ ہوتا ہے ۔یہ ایک خطرناک مرض ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں ۔ اس میں انسان کے جسم میں چربی اور روغنی خلیات (Adipose Cells) بڑھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کے خون میں فیٹی ایسڈFatty Acids) (یاکولسٹرول (Cholersterol) زیادہ ہو جاتا ہے جس سے شوگر،بلڈپریشر،امراضِ قلب اور بانجھ پن وغیرہ جیسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔یہ بیماریاں ایک بار ہو جائیں تو ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجاتا ہے۔اس کے لیے مارکیٹ میں ہزاروں روپئے کی دوائیں اور اشتہارات آتے ہیں۔جب کہ روزہ اس کا بہترین علاج ہے اور اس سے ثواب بھی مل جاتا ہے۔
(2)انسان جب لگاتار کھاتا رہتا ہے اوراس کے معدہ کو آرام نہیں مل پاتا تو معدہ مسلسل ہائیڈروکلورک ایسڈ (Hydrochloric Acid) خارج کرتا رہتا ہے جس سے زخمِ معدہ (Peptic Ulcer) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن روزہ رکھنے سے معدہ کو آرام مل جاتا ہے،جس کی وجہ سے اس کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
(3)روزہ رکھنے سے انسان کے جسم میں مختلف طرح کے ہارمون مثلاًCortisol,Noradrenaline,Adrenaline And Liportophine وغیرہ بڑھ جاتے ہیں جس کا اثر انسان کی قوتِ مدافعت ،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ،مزاج اوراخلاق پر پڑتا ہے۔
(4)روزہ رکھنے سے انسان کی جنسی خواہش میں کمی آتی ہے اور اس کو ذہنی سکون ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص تم میں سے گھر کا بوجھ اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو ،اسے نکاح کر لینا چاہیے کیوں کہ وہ نگاہوں کو نیچی اور شرمگاہوں کو بچانے والا ہے اور جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیوں کہ روزہ اس کے حق میں شہوت کو کم کرنے والا ہے‘‘۔(بخاری:5066)
(5)روزے سے انسان کو خود پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔یہ خاص کر سگریٹ،بیڑی،پان گٹکھا اور تمباکو نوشی کرنے والوں کی عادت چھڑانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
(6)روزہ جسم کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ بیماری زدہ اور غیر طبعی بڑھوتری کو جذب کرے ،اس لیے کہ جسم کی قوتِ مدافعت کو اس کا موقع مل جاتا ہے۔
(7) روزے سے بخار،جوڑوں کے درد،سردی،قبض،اسہال،دردِ شکم،ماہواری کی بے ترتیبی اور پیشاب وغیرہ کی جلن میں آرام ملتا ہے(Dr Gala)
(8) روزہ ہمارے جسم کے لیے ایک قسم کی کیمیائی توانائی مہیا کرتا ہے جس کوBio-Chemical Metabolic Exercise کہتے ہیں، جو غذا ہضم کرانے اور اسے بدن کا جز بنانے میں بہت کام آتی ہے۔
(9) روزے سے انسان کے جسم کو غذا کی کمی میں بھی کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔
(10)روزہ انسان کے جسم کے کسی بھی حصہ کو نقصان پہنچانے اورکم زوری یا بیماری کا سبب نہیں بنتا ہے کیوں کہ یہ اعضاء و جوارح اور باطنی قوت کی حفاظت کرتا ہے اور فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے۔
ان ساری باتوں سے ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ روزہ ہمارے جسم کے لیے اللہ تعالی کادیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے جس کے لیے ہمیں اس کا شکرگذار ہونا چاہیے۔
****

تبصرے بند ہیں۔