رمضان المبارک: روحانی و جسمانی گناھوں سے نجات کا ذریعہ 

حکیم سید عمران فیاض

اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک کے نزدیک روزہ دار کا بڑا رتبہ ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے محض اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور خالصتاً ثواب حاصل کرنے کے لیے تو خدائے بزرگ و برتر اس کے تمام گناہ بخش دیں گے۔ ا نہوں نے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہے اور قیامت کے دن روزہ دار کو بے حد ثواب ملے گا۔ تا کہ تم پرہیز گار بن سکو۔ وہ روزے گنتی کے دن ہیں تو تم سے جوکوئی بیماری ہو یا سفر میں ہو وہ اتنے روزے اور دنوں میں رکھ کر تعداد پوری کرے اور جنہیں روزہ رکھنے کی بالکل طاقت ہی نہ ہو تو وہ روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کھانا کھلائیں اور جو اپنی طرف سے زیادہ نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ روزے اہل ایمان پر فرض ہیں۔ جس طرح نماز کا فریضہ ایمان لانے کے بعد عائد ہوتا ہے ایسے ہی روزہ پر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے۔ یہ بہت قدیم ترین عبادت ہے۔ جس کی ابتدا حضرعت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اسی بنا پر حضرت آدم علیہ السام کے زمانہ سے لے کر آخری کتاب قرآن حکیم تک ہر آسمانی کتب میں اور شریعت میں روزہ کو ایک امتیازی اور بنیادی عبادت کا مقام حاصل ہے۔ رمضان المبارک روحانی و جسمانی گناھوں سے نجات کا بہترین ذریعہ ھے۔

رمضان المبارک کے روزے بے پناہ فضیلت اور عظمت کے حامل ہیں۔ کیونکہ روزہ کے بیشمار دینی فوائد اور حکمتیں ہیں اور بے شمار موزوں اسرار روزہ دار کو حاصل ہیں۔ حضور ﷺ نے روزہ کی برکات و فیوضی کے پیش نظر روزہ رکھنے کی بہت ترغیب دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کی آمد پر ماہ شعبان کے آخری دن وعظ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! تمہارے پاس یاک نہایت، پر عظمت اور بابرکت مہینہ تشریف لا رہا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رم پر فرض کیے ہین اور اس کی راتوں میں نماز (تراویح ) پڑھنا سنت قرار دیا ہے۔ جس نے اس میں ایک (نفل ) نیکی کی (تو اس کا ثواب اتنا ہے ) گویا اس نے کسی دوسرے مہینہ میں ایک فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا (تو اس کا اجر اتنا ہے ) جیسے اس نے کسی دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کیے۔

روزہ داروں کے واسطے قیامت کے دن عرش کے نیچے دستر خواں بچھایا جائے گا اور وہ لوگ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور دیگر لوگ ابھی حساب ہی میں ہوں گے۔ اس پر وہ کہیں گے کہ یہ لوگ کس کا کھانا کھا پی رہے ہیں اور ہم حساب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو جواب ملے گا یہ لوگ دنیا میں روزہ رکھا کرتے تھے اور تم لوگ روزے نہیں رکھتے تھے۔ روزہ دین اسلا کا ایک بڑا اہم رکن ہے اور رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرض ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ رمضان المبارک آ گیا ہے۔ یہ برکت والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمان رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ دوز خ کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ سرکشی شیطانوں کو طوق ڈال دیے جاتے ہیں اور اس میں ایک راتی ایسی ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔

حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروزوں میں سے ایک دروازے کا نام الریان ہے۔ اس دروازے میں سے روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ جب وہ داخل ہو چکیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا۔

حضرت ابو معد غفاری سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں چار کام بہت لازمی ہیں وہ کام تو ایسے ہیں جس سے تمہارا پروردگار راضی ہوتا ہے اور دو کام ایسے ہیں جن کے بغیر تم کو چارہ نہیں۔ ان چار میں سے ایک کو کلمہ شہادت کا ورد ہے اور دوسرا کثرت سے استغفار کرنا یہ دونوں عمل اللہ کو بہت پسند ہیں۔ تیسرا جنت کو طلب کرنا اور چوتھا دوزخ سے پناہ مانگنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں روزے فرض کرنے کا مقصد تقویٰ، پرہیز گاری اور خدا ترسی بیان فرمایا ہے۔

صوفیائے اکرام فرماتے ہیں کہ روزہ تین طرح کا ہے۔ اول عوام کا روزہ، دوسرا خواس کا روزہ، تیسرا لخواص کا روزہ۔

۱۔ عوام کا روزہ :

طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور حجامت سے پرہیز کرنا۔ یہ روزہ کا معمولی اور ادنیٰ درجہ ہے۔

۲۔ خواص کا روزہ :

کھانے پینے اور جماع سے باز رہنے کے ساتھ ساتھ کان، آنکھ، ناک، زبان الغرض سر تا یا تمام عضاء جسم کا ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھنا۔

۳۔اخص الخواص:

مذکورہ تمام خواص کے ساتھ دل و دماغ، تصور و خیال وک بھی ہر طرح کے مذموم اور برے خیالات سے پاک رکھنا حتیٰ کہ دل میں اللہ کے ماسوائے اور کوئی نہ آئے ایسا روزہ اختیار اکرام صدقین اور مقربین کا ہے۔

روزے کا انسانی صحت پر اثر:

رمضان المبارک در حقیقت جہاں ہم سب کے لیے بہت زیادہ رحمتوں و برکتوں کا مہینہ ہے وہاں انسانی صحت پر بھی اس کے برے مثبت اثرات پڑتے ہیں اور یہ ماہ مبارک ہم سب کے لیے صحت، تندرسی کا سرچشمہ ہے۔

اس ماہ میں اگر ہم غذا پرہیز پر پوری طرح عمل کریں گے تو ہم اپنے جسم میں موجود بہت سی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ رعوزہ جسمانی نشو و نما، تبندرستی کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اگر ہم سحری و افطاری میں سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوں تو ہم صحت و توانوائی کا بیش بہا خزانہ حاصل کر سکتے ہیں۔

ماہ الصیام میں پرھیز 

اس ماہ مقدس کو آپ اگر تندرست اور صحت مند رھتے ھوٸے گزارنا چاھتے ھیں تو اس کے لیٸے لازم ھے کہ آپ اپنے جسم کی ضرورت کو سامنے رکھتے ھوٸے سحری و افطاری کے دوران غذا کا استعمال کریں۔ اس لیٸے تمام قسم کے فاسٹ فوڈز۔ جنک فوڈز۔ کولا مشروبات۔ کو یا تو بالکل استعمال نہ کیا جاٸے یا انتہاٸی کم مقدار میں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ھوٸے استعمال کیا جاٸے۔

ماہ الصیام میں غذا کا استعمال

اس ماہ مقدس کے دوران ھمیں اپنی خوراک کا ایک باقاعدہ شیڈول بنانا چاھیے۔ جس میں سحری کے دوران خشک روٹی۔ دھی۔ دودھ۔ سبزی۔ گوشت۔ دالیں۔ پراٹھا۔ آملیٹ۔ فراٸی انڈا۔ چاٸے۔ قہوہ۔ وغیرہ کو اپنی طبعیت کے مطابق بدل بدل کر استعمال کریں زیادہ تر ہلکی پھلکی اور کیلوریز سے بھرپور غذاٶں کا استعمال کریں۔ اسی طرح دوران افطاری بھی پکوڑے۔ سموسے۔ کچوری۔ شربت۔ دودھ سوڈا۔ دھی بھلے۔ فروٹ چاٹ۔ چکن۔ بیف۔ ویجی ٹیبل رولز۔ کولامشروبات۔ فاسٹ و جنک فوڈز کے بہت زیادہ استعمال سے اجتناب کیا جاٸے ورنہ بیسار خوری کی بدولت فوڈپواٸیزننگ سمیت کٸی دیگ امراض سے بھی واسطہ پڑ سکتا ھے۔

احتیاطی تدابیر:

روزہ بہت زیادہ فیوض و برکات کا حامل ہے۔ اس ماہ کے دوران اگر ہم کھانے پینے کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو یقینا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صرف غذا میں احتیاط برتنے سے ہی ہم بہت سی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ مرغنی اور بھاری  غذاؤں سے مکمل اجتناب برتیں اور ہلکی پھلکی غذا سے سحری و افطاری کو اپنا وطیرہ بنا لیں تا کہ ہماری صحت رمضان کے مہینہ میں ہی نہیں بلکہ باقی ایام میں بھی بہتر رہے

تبصرے بند ہیں۔