نبی کریم ﷺ کی تشریعی اور تشریحی حیثیت

محمد ریاض علیمی

اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالیہ جامع کمالات و صفات کا مظہر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے  خصائل، خصائص اور شمائل لا تعداد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جامع المعجزات اور جوامع الکلم جیسے عظیم کمالات کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ سردارِانبیاء، خاتم النبیین اورافضل البشر جیسی اعلیٰ صفات کے حامل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور سیرت کو ہر لحاظ سے جامع او ر ہمہ گیر بنایا گیا تاکہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کے لیے ہدایت اور کامل نمونہ میسر آسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے ساتھ ساتھ اطاعت کا حکم دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو دیں وہ لے لواور جس سے منع کریں اسے چھوڑدو۔ یہ حکم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیارات دیے گئے تھے ورنہ بیان کردیا جاتا کہ صرف وہی بات مانو جو اللہ نے قرآن میں بیان کردی ہے۔ اس کے برعکس اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:وہ (رسول) انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ (سورۃ الاعراف: ۱۵۷) شریعتِ اسلامیہ میں حلال و حرام کی تعیین کا انحصار محض قرآن پر نہیں ہے بلکہ بعض امور کی حلت و حرمت کی تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔

 یہ بھی یادرہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض شارح کی نہیں بلکہ آپ شارع بھی ہیں۔ آپ جو امور حلال یا حرام فرمادیں تو ان کی بھی وہی حیثیت ہوتی ہے جو قرآن میں بیان کردہ حلال وحرام امور کی ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو حرام کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے اللہ کا حرام کیا ہوا۔ (ترمذی: ۲۶۶۴)اسی طرح حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سن لو! میں نے نصیحت کرتے ہوئے اورحکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کہا وہ بھی قرآ ن کی طرح ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی بات کے متعلق ارشاد فرمادیتے کہ اس کام کو انجام دینا لازم ہے تو وہ کام مسلمانوں پر لازم ہوجاتا، اگر چہ اس کا حکم قرآن میں نہ ملتاہو۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑجانے کا خیال نہ ہوتا تو میں ان پر ہر نماز کے وقت مسواک کو لازم قرار دیتا۔ (بخاری: ۸۴۷)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حلال کردہ امور یا واجب کردہ احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کا حکم ارشاد فرمادیتے تو ہر وضو میں مسواک کرنا لازم ہوتا۔ اسی طرح حج کے متعلق واضح ہے کہ ہر صاحب استطاعت شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ لیکن جب ایک صحابی نے ہر سال حج فرض ہونے یا نہ ہونے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہوجاتا۔۔ ۔ آگے فرمایا: جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو اور جب میں کسی بات سے منع کردوں تو اسے چھوڑدیا کر۔ (مسلم: ۱۳۳۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ سے روگردانی کرنا اور صرف قرآن کے حلال کو حلال سمجھنا اور صرف قرآن کے حرام کردہ امور کو حرام سمجھنا دین نہیں بلکہ دین سے انحراف ہے۔ دینی امور میں حلال و حرام کی تعیین اسی وقت ممکن ہے جب تعیین کرنے والے پاس اختیار ات ہو ں۔ بغیر اختیار ات کے کسی بھی شرعی امر کو حلال یا حرام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیارات عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے جس امر کو چاہیں مومنین پر حرام فرمادیں اور جسے چاہیں اس حکم سے مستثنیٰ کردیں۔ جیسے بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو خارش کے باعث ریشمی کپڑا پہننے کی خصو صی اجازت فرمائی جبکہ عام طور پر ریشمی کپڑا پہننا مردوں پر حرام ہے۔ (بخاری: ۲۷۶۲)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم مکہ کی تعظیم بیان کرتے ہوئے ارشا د فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم بنایا ہے۔ یہاں کا کوئی بھی کانٹا نہیں توڑا جائے، نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ ہی یہاں کی گھاس اکھیڑی جائے۔ یہ سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! [اِذْخَرْ ]گھاس کاٹنے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ ہمارے گھروں کے چھپرے بنانے اور قبروں پر رکھنے اور دیگر امور میں کام آتی ہے۔ یہ سن کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھاس کو کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شیخ ابن تیمیہ الصارم المسلول میں انتہائی وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں : اللہ رب العزت نے اپنے اوامر و نواہی اور اخبار و بیان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہی مقام پر فائز فرمادیا ہے۔، لہٰذا ان مور میں سے کسی ایک میں بھی اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم درمیان تفریق کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات محض شرعی امور کے حرام یا حلال کرنے تک محدود نہیں تھے بلکہ زمین و آسمان کی ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف و اختیار میں ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکوینی امور کے اختیارات بھی عطا فرمائے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اس وقت تک اسلام قبول نہیں کروں گا جب تک آپ میری فوت شدہ بچی کو زندہ نہ کردیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اسے آواز دی۔ وہ بچی قبر میں بول اٹھی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں حاضر ہوں اور سب سعادتیں آپ کے لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچی سے پوچھا کہ کیا تو دنیا میں واپس آنا چاہتی ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا کی قسم میں نے اللہ کو اپنے حق میں اپنے والدین سے بہتر اور آخرت کو دنیا سے بہتر پایا۔ (المواہب اللدنیہ)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دعوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے اپنے گھر میں موجود ایک بکری کو ذبح کیا۔ جب کھانا مہمانوں کے سامنے آگیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: کھاؤ مگر ہڈیاں مت توڑو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ہڈیوں کو برتن میں جمع کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ اس پر رکھ کر آہستگی سے کچھ پڑھا۔ پھر اچانک بکری کان جھاڑتی ہوئی اٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنی بکری لے لو۔ وہ صحابی بکری لے کر چلے گئے۔ (المواہب اللدنیہ) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حکم بن العاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا تھا اور جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو درس دیا کرتے تھے تووہ اپنا چہرہ بگاڑتا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتارتاتھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فر مایا: ایسا ہی ہوجا، تو مرتے دم تک اس کا چہرہ بگڑا رہا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

 درج بالا احادیث کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات لامحدود ہیں کیونکہ اگر نبی کے پاس اختیارات نہ ہو ں تو منصب نبوت محدود ہوکر رہ جائے گا، نبی کی حیثیت محض ایک قاصد کی ہوکر رہ جائے گی اور نبوت و رسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت پر حرف آئے گا۔ اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔