سالک ادؔیب بونتی
اپنا رستہ بنا رہاہوں میں
خودکو چلنا سکھا رہاہوں میں
…
لوگ کہتےہیں جو کہیں لیکن
فرض اپنا نبھا رہاہوں میں
…
ایک کا غذپہ روشنائی سے
نقشہ کَل کابنا رہاہوں میں
…
کوئی آیاہے اب تصور میں
حال دل کا سنا رہا ہوں
…
ایک دنیا ہے روٹھ جاتی ہے
اور پاگل منارہا ہوں میں
…
چھوٹےقدموں سےاپنی منزل سے
روز دوری مٹا رہاہوں میں
…
وہ سفر پر ادؔیب نکلے ہیں
ہاتھ ہوا میں ہلا رہاہوں میں
تبصرے بند ہیں۔