کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

آبیناز جان علی

علامہ اقبال کی شاعری میں عقاب کو بہت اہمت دی گئی ہے۔ یہ عظیم پرندہ بے نیازی شان سے آسمان میں بادلوں کو چیرتا ہوا اونچائی پر پرواز کرتا ہے۔ قابیل نے جب اپنے بھائی ہابیل کا قتل کیا، اس وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس لاش کے ساتھ کیا کیا جائے کیونکہ یہ دنیا کا پہلا قتل تھا اور اس سے پہلے کسی کی موت بھی نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ کئی دنوں تک اس لاش کو لئے پھر تارہا۔ اس وقت خدا نے قابیل کے سامنے دو کوے بھیجے جو آپس میں لرے اور ایک نے دوسرے کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کے بعد زندہ کوے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھودا اور اس مرے ہوئے کوے کو سپردِ خاک کردیا۔ چنانچہ ایک پرندے کی معرفت خدا نے قابیل کو سکھایا کہ ایک لاش کو کس طرح دفنایا جاتا ہے۔ اسی طرح باز کی زندگی سے کئی اسباق اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کے نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرئہ افتاد

عقاب ہمیں قیادت کی بہترین مثال دیتا ہے۔ وہ اکیلاتین سو کلومیٹر فی گھنٹہ آسمان میں اونچی سطح پرپروقار اوربارعب اڑان بھرتا ہے۔ وہ سہارا نہیں ڈھونڈھتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ تنگ نظر والوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنے میں ہی ذہانت ہے۔  ایسے لوگوں سے ملنے جلنے کا کیا فائدہ جو ہمیں قدم قدم پر احساس دلاتے ہوں کہ ہم پست ہیں اور وہ ہمیں پستی کی طرف لے جانے کی بارہا کوششیں کرتے رہتے ہیں۔  لحاظہ اپنے آس پاس کے لوگوں کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح صحبت میں رہنا ضروری ہے۔ جھنڈ میں کبوتر رہتے ہیں۔

عقاب کی نظریں انسان کی نگاہوں سے پانچ گنا زیادہ ہوتی ہیں۔  وہ دو میل کی دوری سے چیزوں کو دیکھ پاتا ہے۔ اس طرح ہم سیکھتے ہیں کہ زندگی میں اپنا مقصد اوراپنا نصب العین پہچاننا اشد ضروری ہے اور ہر حال میں اپنا دھیان اپنے مصرف سے نہیں ہٹا نا ہے۔ کوئی بھی مشکل یا پریشانی راستہ روکے ہمیں منزل کی طرف نظریں رکھنی ہیں۔  کامیابی اسی طرح حاصل ہوتی ہے۔ قیافہ شناسی اور چیزوں اور حالات نیز انسانوں کو بہتر سمجھنے کی بصیرت حاصل کرنے سے آگے جانے کا راستہ عیاں ہوتا جاتا ہے۔ مسلسل اونچی پرواز کرنے والا تھک کر بیٹھ نہیں جاتا۔ ہمت جوان رہتی ہے تو سامنے نئی راہیں کھلیں گی اور نئے میدانِ عمل بھی ہونگے۔

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں

کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

عقاب مردارنہیں کھاتا بلکہ صرف تازہ خوراک پر اکتفا کرتا ہے۔ یہ بہترین شکاری خود اپنا شکار کرتا ہے۔ اپنے مضبوط پنجوں، طاقتور ٹانگوں اور مضوط چونچ سے لومڑیوں، بکریوں اور ہرنوں کو بھی نہیں بخشتا جن کا وزن عقاب سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ عقاب کچھوئوں کا بھی شکار کرتا ہے  اور انہیں بلند ترین چٹانوں سے نیچے پھینکتا ہے تاکہ ان کا خول توٹ جائے۔ انسان بھی اگر اونچے خواب دیکھے تو وہ ان کو یقیناحاصل کر سکتا ہے۔ جب عقاب کو بھوک لگتی ہے تو وہ اور اونچائی میں کھانے کی تلاش کے لئے جاتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں جکڑا ہوا نہیں ہے۔

نگاہِ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے

شکار مردہ سزا وار شہباز نہیں

شکراکوہ و بیابان میں رہتا ہے اور اپنا گھونسلہ نہیں بناتا۔ وہ خلوت پسند ہے اور جب کبھی دوسروں کے ساتھ پرواز کرنا پڑے تو وہ صرف دیگر عقابوں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ زندگی میں ان لوگوں کی ہی صحبت سے فیض ملتی ہے جن کے ساتھ فکر وعمل میں مماثلتیں ہوں۔  اس طرح ہم راستے سے بہک نہیں جاتے۔

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

 اس طرح ہم سیکھتے ہیں کہ ماضی کی کامیابیوں پر فخر کرتے رہنا یا گذشتہ زمانے کی شان اور فتوحات کے سہارے زندگی بسر نہیں کی جاتی بلکہ نئی سرحدوں پر اپنا پرچھم جمانا ضروری ہے۔ رکنے کا مترادف موت ہے۔ ہر حال میں آگے بڑھتے جانا ہے۔ عقاب تند و تیز ہوائوں میں بھی بے خوف و خطر آگے جاتا ہے۔ طوفان کی آمد اسے مسرور کرتی ہے۔

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

کامیاب انسان چیلنج سے نہیں گھبراتا بلکہ نامسائد حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ تکلیفوں کو زندگی کے نئے موڑ پر لے جانے کا نیا موقع سمجھ کر اپنی زندگی کو نیا رخ دیتے ہیں اور اس طرح اپنی نئی پگڈنڈی بناتے ہیں۔

جب ایک مادہ عقاب ایک نر عقاب سے ملتی ہے تو وہ اس کی وفاداری کا امتحان لیتی ہے۔ وہ اونچائی پر ایک تنکے کو نیچے پھینکتی ہے اور نر اسے پکڑتا ہے۔  اس کے بعد وہ پھر اسے نیچے پھینکتی ہے اور وہ پھر اسے پکڑتا ہے۔ اس طرح وہ کئی بار ایسا کرتی رہتی ہے جب تک اسے اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ اس نر عقاب کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے۔ چنانچہ ذاتی زندگی اور پیشہ وارانہ زندگی میں لوگوں کی وفاداری اور دیانت داری کا امتحان لینا ہے تاکہ وقت آنے پردھوکے کا احساس نہ ہو۔ ان جذبات سے ابھرنے میں قیمتی وقت ضائع ہوتاہے۔ مرہم تلاش کرنے کی جگہ اور بلا وجہ کی مصیبت کو گلے لانے کے بجائے بہتر ہے کہ غلط لوگوں پر بھروسہ کرنایا توقعات وابستہ نہ رکھے جائیں۔

عقاب اپنے بچوں کو تیار کرتے ہیں۔  وہ انہیں دس ہزار فٹ سے نیچے پھینکتے ہیں تاکہ بچے اپنے پر پھیلائیں اور اڑ سکیں۔  اگر وہ نیچے گریں گے تو انہیں پکڑ لیں گے۔ اور دوبارہ اونچائی سے گراتے جائیں گے جب تک وہ اڑنے کے قابل نہ ہو جائیں۔  شکرا اپنی اقامت گاہ میں مطمئن بیٹھانہیں رہتا۔ ایک جگہ قیام کرنے میں یا یکساں روز و شب میں زندگی جینے میں شخصیت کی تشکیل نہیں ہوپاتی۔ انسان کا کردار نہیں نکھرتا اور وہ اپنی صلاحیتوں کو نہیں پہنچان پاتا۔ اس اثنا میں شدید غیر تسلی سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ہم سب میں قوتِ پرواز ہے۔ اپنے پروں سے اڑنا سب کے لئے ممکن ہے۔ دوسروں کا محتاج ہونا آدمی کی شان کے خلاف ہے۔ اس سے آپ بھی قید میں ہونگے اور دوسرا شخص بھی آزاد نہیں ہوگا۔

جب عقاب چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو اس کے پنجے تند ہوجاتے ہیں اور اس کی چونچ ٹیڑھی ہوجاتی ہے اور اس کے پربھاری ہوجاتے ہیں اور سینے سے چپک جاتے ہیں۔  وہ پہاڑ پر چڑھ کر پتھر سے اپنی چونچ کو توڑتا ہے اور جب نئی چونچ آجاتی ہے تو وہ اپنے ناخن اکھاڑتا ہے اور اس کے بعد اپنے پروں کو کریدتا ہے تاکہ ان میں نئے پر آجائیں۔  یہ تکلیف دہ مرحلہ پانچ مہینوں تک جاری و ساری رہتا ہے اور اس کے بعد عقاب میں نئے بال و پر، پنجے اور چونچ آجاتے ہیں جن کے سہارے وہ مزید تیس سالوں تک زندہ رہتا ہے۔ ہمیں بھی گاہے گاہے اپنی پرانی عادتوں کو ترک کر کے نئی عادتوں کو گلے لگانا ہے۔ جو چیزیں بوجھ بن جائیں یا جن سے کوئی فائدہ نہ پہنچے انہیں چھوڑ دیا جائے جس طرح غبارے کے ساتھ جڑے دھاگے کو ہوا میں چھوڑتے وقت تسلی اور خودسپردگی کے عالم سے روبرو ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم خود کو یاد دلاسکتے ہیں کہ ہم اپنے زمان و مکان میں خود کو مقید نہیں کرسکتے۔ ہمارے خارجی حالات ہمارے پائوں کی زنجیریں نہیں ہوسکتیں۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

عقاب  ایک بے باک پرندہ ہے جس نے کئی معتبر شاعروں کو متاثر کیا ہے۔ یہ پرندہ شاید انسانوں کو اپنی صلاحیتیں یاد دلانے کے

 لئے خدا کی طرف سے زمین پر آیا ہے۔ ایک بار ہندوستان میں قیام کے دوران میری بالکنی کے نیچے ایک چھوٹی بھوری رنگ کی گلہری نظر آئی۔  اچانک ایک عقاب اس پر حملہ آور ہوا۔ میں نے آواز لگائی اور وہ عقاب اڑ گیا اور گلہری نالی میں چھپ گئی۔ میں مطمئن ہو کر اندر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد جب واپس آئی تو وہ عقاب دوبارہ آگیا اور اس بار گلہری کو اپنے پنجے میں دبا کہ اڑا لے گیا اور میرے چلانے کے باوجود وہ اپنے شکاری کے ہمراہ ہوا ہوا۔ اس وقت مجھے عقاب وہ سبق سکھا گیا کہ کوئی اپنی تقدیر سے نہیں بچ سکتا  اور جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے اس سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

یہ ذہین ترین پرندہ بہت جلد سکھانے سے سیکھ جاتا ہے اور اپنے مالک سے مکمل وفاداری بھی نبھاتا ہے۔ عقاب کی عمودی اڑان کی کوئی ثانی نہیں۔ یہ مردِ مومن اپنی خوداری، غیرت مندی اور جہدِ مسلسل سے انسانیت کو اپنے عروج تک پہنچنے کے لئے اکساتا رہتا ہے۔  اس کی تیزی، وسعتِ نظری اور دوربینی اور جلال پسندی خدا کی بہترین تخلیق کی دلیل ہے۔ اسی طرح وہ انسان کو یاد دلاتا ہے:

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔