ہندوستانی مسلمان  اور ہندوتوا  سیاست

پروفیسر ہلال احمد

 ترجمہ: ڈاکٹرسعد احمد

پچھلے چار سالوں سے ہمیں یہ بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے خورد نوش کے طریقے ہندو۔مخالف اور اور قوم مخالف ہیں ؛ اس لئے کہ مسلمان بیف  کھاتے ہٰیں ؛ مسلم مرد محبت نہیں کرتے ؛ وہ ہندو لڑکیوں سے لو جہاد کرتے ہیں ؛ مسلم جوڑے جان بوجھ کرجنسی تعلق اختیار کرتے ہیں تاکہ اپنی کمیونٹی کی تعداد بڑھائیں اور ہندووں  کی تعداد سے بازی مار لے جائیں ؛ مزید یہ کہ وہ سڑکوں میں نماز ادا کرتے ہیں تاکہ عوام کی (ہندو کی) زمین کو مزید مسجد کے احاطے میں تبدیل کرلیں !

یہ پروپیگینڈہ مسلمانوں کے خلاف اصل دہشت پھیلانے کا ضامن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لنچنگ، جنسی استحصال حتی کہ ریپ۔ اس جارح مسلم مخالف رویہ کے باوجود مسلم معاشرہ کسی بھی طرح کے ہندوتو مخالف تحریکات میں ملوث نہیں ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں اور پریشر گروپ حتی کہ مسلم سیاسی لیڈران  (بجز چند نا معلوم چہرے  کےجو پرائم ٹائم ٹی وی پہ ہررات نمودار ہوتے ہیں ) کسی بھی عوامی مسلم مظاہرہ کے لئے بحث نہیں کرتے۔

اس لئے ہمیں یہ لگنے لگا ہے کہ مسلمانوں نے خاموش رہنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ ہندوتوکے مقابلے میں نہ آئیں اور یہ کہ وہ ۲۰۱۹ میں اپنے ووٹ کارڈ بھی نہ کھول لیں۔ یہ سادہ سا نتیجہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اضطراب جسے ہم  ـمسلم خاموشی ــــــــ کہتے ہیں اسے ہمیں ضرورواشگاف کرنا چاہیے تاکہ مضبوط شواہد پہ مبنی ایک گہرا تجزیہ کیا جاسکے۔

جواب دہی کے لئےم، سوالات پوچھے جا سکتے ہیں : (الف)کیا مسلمانوں کا سیاسی رجحان بدل گیا ہے، بالخصوص ان مسائل کو لیکر جو تشخص پہ مبنی ہیں ؟ (ب) کیا مسلمان ہندوستان کی دوسری کمیونٹیز سے الگ سوچتے ہیں ؟

یہ بات قابل غور ہے کہ بی جے پی مسلم تشخص کوـ غیر کی حیثیت  سے استعمال کر رہی ہے تاکہ ہندوتو ووٹ بینک کی کاشت کی جاسکے۔ اس تعلق سے ۲۰۱۴ کے بعد کی بی جے پی کی سیاست ایک فیصلہ کن معاملے کی نشاندہی کرتی ہے۔

پچھلی حکومت کے برعکس، مودی کی رہنمائی میں بی جے پی نے مسلم مسائل کو جان بوجھ کرکھلم کھلا   طور سےختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انتہا پسندانہ مسلم  رد عمل حکومت کو موقعہ دےگا کہ وہ اپنی سیاسی تصور کوایک سچے قوم پرست  کے روپ میں پرموٹ کریں۔

بہرحال مسلم رد عمل بہت مختلف رہا، تین طلاق کا مسلہ  شاہ بانوقسم کا شور پیدا نہ کر سکا، اس کی اولین وجہ  اتری ہندوستان میں حنفی مسلمانوں کے درمیان اس عمل کے تیئں ایک مضبوط معاشرتی مخالفت تھی۔ حتی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اس کی موافقت میں رائےزنی کا اہتمام کرنےمیں ناکام رہی۔ اسی طرح، حج سبسڈی کی منسوخی بھی ایک لاتعلق سا مسئلہ رہا، جیسا کہ ہمیشہ لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ  سفر حج کو  لبرائلز کیا جانا چاہئے۔ گائے والی تشدد آمیز سیاست بھی ناکام رہی اسلئے بھی کہ گوشت کھاناہندوستان کی مسلم برادریوں کے لئے حد درجہ غیر اہم معاملہ تھا۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے جس کے لئے مسلم افراد کو لنچنگ کے ذریعے سے تشدد کا نشانہ بنانا  پہلی ترجیحبنا۔

اسے سمجھنے کے لئے ہم بابری مسجد کو ایک مثال کے طور سے لے سکتے ہٰیں۔

سورس: این ای ایس ۲۰۰۹، سی ایس ڈی ایس۔لوک۔نیتی ڈیٹا یونٹ، سروے برائے مذہبی رجحان ۲۰۱۵، سی ایس ڈی ایس۔لوک۔نیتی ڈیٹا یونٹ

سورس: این ای ایس ۲۰۰۹، سی ایس ڈی ایس۔لوک۔نیتی ڈیٹا یونٹ، سروے برائے مذہبی رجحان ۲۰۱۵، سی ایس ڈی ایس۔لوک۔نیتی ڈیٹا یونٹ

  موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دکھائی دینے والے سکوت کو سمجھنے کے لئے ہمیں مسلمانوں کی رائے پر بھی قومی جذبات کے تعلق سے ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔

سی ایس ڈی ایس۔ لوک نیتی کا حالیہ موڈ آف نیشن نامی سروے ہمیں دوسرے اہم نتائج فراہم کرتا ہے۔ سروے کے مطابق بی جے پی کی رہنمائی میں این ڈی اے حکومت کی شہرت کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ سروے کےمسلم جواب دہندگان بھی اسی کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مودی حکومت کو دوسرا موقعہ نہیں دیا جانا چاہئے۔ موجودہ حکومت کے تیئں یہ مسلم مخالفت اس قومی جذبہ سے انحراف نہیں کر رہی جسمیں خاص طور سے اکثریت کا بھی یہ جواب (۴۷پرسنٹ) ہے کہ مودی حکومت ملک کے لئے بالکل بھی مناسب نہیں۔

اسی طرح موجودہ معاملے کو لیکر مسلمانوں کا جواب بھی دوسری برادریوں سے مختلف نہیں ہے۔مسلمان اس بات کوسختی سے بتانا چاہتے ہیں، بلکہ، ہندوستان کو بطور ملک ایک ایسی حکومت چاہیے جو پوری قوم کو ایک مثبت سمت میں لگا سکے۔ مودی حکومت کے خلاف مسلم دعوی بھی ملک کے تمام کمتر طبقوں کے خلاف نفرت کے ماحول سے جڑا ہے۔

ہندوستان کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقے کے خلاف کئے گئے ظلم کو حکومت معقول طریقےسے نپٹنے میں ناکام رہی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جو نفرت اور دہشت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی ریاست کا کوئی واضح رویہ سامنے نہیں آتا۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد کےمعاملے میں بھی  یہی بات ہے۔ تقریبا آدھے سے زیادہ سروے کے جواب دہندگان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جس طرح سے بدمعاشوں کے ساتھ بالخصوص گائے رکشھکوں کے ساتھ حکومت کا سلوک رہا ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔

یہ اعداد و شمار  اس حقیقت کو واضح کر رہیں ہیں جس میں ہندوستانی مسلمان ان بنیادی مسائل پہ اپنی قومی رائے رکھتے ہیں جسکا ہندوستان بطور ایک قومی شہری برادری کے سامنا کر رہا ہے۔

 ہندوتو سیاست کا مرکزی شکار ہونے کے ساتھ مسلمان موجودہ حکومت سے بداطمینانی اور فکر مندی کے اظہار کے ساتھ سامنےآ رہے ہیں۔ اس نقطہء نظر سے اگر دیکھیں تو مسلم سکوت سیاسی بے توجہی کا ایک عکس ہے جو کہ پچھلے کئی سالوں سے غیر۔ ہندوتو سیاست کے قاعدے کے طور سےہمارے سامنے آیا ہے۔

مسلم رد عمل کے امکانات کو ہندوستانی مسلمان کی آبادیاتی کثرت کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔جیسا میرے نقطہ نظر سے مسلم برادری مختلف اور متعدد اسلامی برادریوں پہ مشتمل ہےجو کہ مختلف زبان بولتے ہیں، ملک کے مختلف علاقوں مٰیں رہتے ہیں حتی کہ اسلام کے مختلف شکلوں کو بطورایک مذہب کے مانتے ہیں۔

ظاہرا اس مختلف النوعیت کے پس منظر میں ہندوتو  سے مقابلہ آرائی کی واضح تدبیرغیرعقلی اور گنجلک معلوم ہوتی ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں کی خاموشی اس کے سیاسی طبقہ کی فکری کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ موجودہ بی جےپی۔ہندتو  مسلمانوں کوانہیں برادریوں میں سے ایک برادری کے طور سےـ کوئی بھی مثبت اور تعمیری کاروائی کا پروگرام  دینے سے بھی قاصر ہے۔

ہندوتو اسلام اور مسلمان کے تعلق سے اپنی رجعت پسندی کی پوزیشن کی وجہ سے جی رہاہے۔ غیر بی جے پی پارٹیاں پرانے تشخص پہ مبنی مسائل کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کے تعلق سے کوئی نقطہ نظر دینے میں ناکام ہیں جس میں مسلمان خود بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ماحصل کے طور سے میں ایک ملاحظہپیش کرنا چاہوں گا۔ سیاسی طبقہ کویہ جان لینا چاہیے کہ مسلم امیدوں کصرف مزعومہ مسلم مسائل تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔

مسلمان دوسرے معاشرتی۔مذہبی برادریوں کی طرح، غریبی، نوکری اور تعلیم کے لئے زیادہ فکر مند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کو مذہبی تشخص کی دھمکی ان کی نفسیات پہ اثر انداز ہوتی ہے، لیکن انہیں دئیے گئے سیاسی مسلم کے عام تصورات  بطور شہری کے ان کی آرزووں کا تعیین مکمل طور سےنہیں کر سکتے۔

نوٹ: یہ مضمون پروفیسر ہلال احمد، سی ایس ڈی ایس، نئی دہلی کے انگریزی مضمونWhy Indian Muslims don’t react to aggressive Hindutva politics  کا  ترجمہ ہے جسے Qz.com  نے آن لائن پبلش کیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔