بلقیس بانو! پھر تیری یاد آئی

مرز ا عادل بیگ

ہندوستانی مسلمان صدیوں سے ملک کو سنوارنے کا کام کرتا آرہا ہے بغیر مسلمانوں کے وجود سے یہ ملک ادھورا نظر آتا ہے، ملک کو فرقہ پرست طاقتیں ہمیشہ بانٹنے کا کام کرتے آرہی ہے، ہندوں، مسلم ، سکھ، عسائی، کے بیچ میں طویل دیوار کھڑی کر دی گئی ہے جس سے یکجہتی، اتحاد، بھائی چارگی، خطرے میں نظر آتی ہے، فرقہ پرست طاقتیں اپنے اپنے سیاسی فائدے کے لیے، اپنی کرسی بچانے کے لیے، ووٹ بینک بڑھانے کے لیے، اقتدار حاصل کرنے کے لیے، ملک میں فسادات کرواتی ہے، آزادی سے لے کر آج تک 63 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے فسادات ہوچکے ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو اپنی جانیں گوانی پڑھی، کروڑوں عربوں روپیوں کا نقصان اٹھانا پڑا فسادات سے ملک کی معشیت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، فسادات سے ملک اپنی سالمیت کھو بیٹھتا ہے، ملک کی ترقی رک جاتی ہے، تجارت کو نقصان پہنچتا ہے، عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے، عوام ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوجاتی ہے، مرنے اور مارنے کو تیار ہوجاتی ہے، ملک میں ہوئے فسادات ملک کی جمہوریت پر بد نما داغ ہے، ہمارے ملک کے فسادات کا جائزہ لینا انتہائی مشکل ہے، مگر کچھ فسادات میں انسانیت کو شرمسار کیا ہے، آج انسان حیوان سے بدتر ہوچکا ہے، آج کا فسادی انسان حیوان سے دو قدم آگے نظر آتا ہے، جس کی حیوانیت کا ثبوت تقسیم وطن 1947، 1992 بابری مسجد کے شہادت کے بعد ہونے والے فسادات، 2002 گجرات کا دنگا، ان تینوں فسادات سے ملک میں  لاکھوں افراد کی جانیں گوانی پڑی ہیں، کئی معصوم بچیوں کی عصمتوں سے کھیلا گیا، عورتوں کا دامن داغ دار کیا گیا، خاندانوں کو زندہ جلا دیا گیا، کروڑوں عربوں روپیوں کی ملکیت کو  نست و نابود کردیا گیا، مظلوموں کی فریادیں، مظلوموں پر ہونے والے ظلم و ستم، مظلوموں کی آہیں، مظلوموں کا تڑپنا، چیخنا، چلانا، رات کے اندھیروں میں اشتیال انگیز، مجموعہ کا کسی خاص اقلیت کی بستی میں حملہ کرنا، وہاں کی عبادت گاہوں کو مسمعار کرنا، کسی دخاص مذہب والوں کے گھروں کو آگ لگانا، جان بچانے کے خاطر گھروں سے جنگل کی طرف بھاگنے والی عورتوں کا پیچھا کرنا، ان کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرنا، نونہال بچیوں کو پتھروں سے ٹھیچ کر مار ڈالنا، بوڑھے افراد کو اندھیرے میں کنوؤں میں پھینک دینا، ایسی قیامت صغیرہ ملک میں دیکھنے کو ملی ہے۔

                گجرات 2002 فروری مارچ کے دوران ہونے والا دنگا، جس میں 3 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے، 2500 کے قریب افراد زخمی ہوئے، کروڑوں عربوں روپیوں کی اقلیتوں کی جائدادیں، نست و نابود کردی گئی تھی، گجرات دنگا ایک معمولی ٹرین میں ہوئے حادثے سے شروع ہوا تھا، جسے گودھرا کانڈ کہا جاتا ہے، کچھ صحافیوں، رپوٹروں کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے، گجرات دنگا منظم طریقے سے کیا گیا تھا، اس وقت کی ریاستی حکومت کے نگرانی میں سب کچھ کیا گیا تھا، جہاں مشعتل عوام کوکھلی چھوٹ دی گئی تھی کہ خاص اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جائے، انہیں ہلاک کیا جائے، ان کی بچیوں کو پکڑا جائے، گھروں کو آگ لگادی جائے، گجرات ریاست میں جہاں جہاں بھی، دور دراز کے مقامات ہے  وہاں کے اقلیتوں کو بہت ظلم و ستم برداشت کرنا پڑا ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ بلقیس بانوکا ہے۔ بلقیس بانو کو پتہ  چلا کہ شہر میں دنگا شروع ہوچکا ہے، اور ہمارے علاقے کے اثار ٹھیک نہیں ہے، تو 3 مارچ 2002 ٹرک میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی دوسرے مقام پر جانے والے تھے، انہیں Randhikpur  ضلع  Dahod   کے پاس فسادیوں نے روک لیا، ٹرک میں موجود 17 افراد میں سے 14 افراد کوبے رحمی سے ہلاک کر دیا گیا، جس میں بلقیس بانوں کی والدہ حلیمہ، اور بہن شمیم موجود تھی۔ 3 سال کی صالحہ (بلقیس بانوں کی بیٹی) کو پتھر پر پٹک دیا، 3 سال کی معصوم نے وہی دم توڑ دیا، بلقیس بانوں پانچ مہینہ کی حاملہ تھی اس وقت بڑے ہی بے دردی سے اجتماعی عصمت ریزی کی گئی، جس کے مجرم گوند نائی، جسونت نائی، اور سیلیش بھٹ  اور ان کے ساتھی تھے۔

بلقیس بانوکی قانونی لڑائی :

                جب بلقیس بانو کو ہوش آیا تو ار د گرد خاندان کے 14 افراد کی لاشیں بچھی ہوئی تھی، وہ نزدیکی گاؤں پہنچ کر مدد کی گو ہار لگائی، اور پولس اسٹیشن پہنچ کر معاملہ درج کیا، اور کاروائی شروع ہوئی، بلقیس بانو نے  National Human Right Commission کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سپریم کورٹ  میں کیس کی سنوائی ہونے لگی، بلقیس بانو نے کیس کو گجرات ریاست کے باہر کرانے کی گوہار لگائی، جس پر سپریم کورٹ ممبئی کو ذمہ داری سونپی گئی، بلقیس بانو، کو کئی تنظیموں کی مدد فراہم کی گئی، جس معاشی سماجی، اقتصادی مدد کی جاسکے، بلقیس بانو کی طرف سے عمدہ اور غیر جانب دار ووکلاء کا تقرر عمل میں لایا گیا، سپریم کورٹ نے 13 افراد کو ثبوت کے بنا پر عمر قید کی سزا سنائی۔

بلقیس بانو کو معاوضہ:

                ممبئی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی دکھ بھری داستان، اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، افراد خاندان کی موت، اور آنے والے مستقبل کے لیے 50 لاکھ روپئے کا، معاوضہ گجرات کی حکومت کو دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ سرکار کی طرف سے گھر اور ایک فرد کو سرکاری نوکری دی جائے سفارش کی ہے۔ بلقیس بانو جن کی بیٹی پانچ مہینے کی تھی، آج وہ 16 سال کی ہو چکی ہے، جسے وہ ایک لیڈر، بہادر  وکیل بنانا چاہتی ہے تاکہ غریب مظلوم، پریشان حال مصیبت زدہ بے قصور افراد کا کیس لڑ سکے، انھیں عدالت سے انصاف دلا سکے، بلقیس بانو نے کہا جو معاوضہ انھیں دیا جارہا ہے، وہ غریب، بے بس، افراد خانہ پر خرچ ہونگا، 2002 گجرات دنگا کے متاثرین پر خرچ ہونگا، بلقیس بانو نے صالحہ فاونڈیشن نامی سماجی تنظیم بنائی ہے، جو غریبوں، مسکینوں، پریشان حال، مصیبت زدہ افراد کی مدد کرتی ہے،

بلقیس بانو کے حوصلے کو سلام :

                بلقیس بانو نے جس مستعدی اور یکسوئی سے عدالت کی لڑائی لڑی ہے، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے، ایک مسلم متاثرہ خاتون نے جس طریقے سے خاطیوں کو سزا سنائے جاے تک حوصلہ رکھا وہ قابل ستائش عمل ہے، وہ کسی سے نہیں ڈری، بار بار جان سے مارنے کی دھمکی د ی جاتی تھی پریشان کیا گیا، ستایا گیا، بلیک میل کیا گیا، ذہنی توازن بگاڑنے کی کوشش کی گئی، مگر بلقیس بانوں ثابت قدم رہی، بلقیس بانو کو، بلقیس بانو کی مدد کرنے والی تنظیموں کو اور سپریم کورٹ ممبئی کے دیے گئے فیصلے کو دل سے سلام۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ آنے والے دنو ں میں ملک کی فضا ء امن و سکون والی رہیں۔ جہاں پر ہندوں مسلم سکھ عسائی، آپس میں بھائی بھائی بن زندگی گزارے۔ اب ہمیں کسی بھی صورت میں دنگا فساد منظور نہیں ہے، ہم نہیں چاہتے بلقیس بانو جیسا کسی کےساتھ کوئی حادثہ ہو کوئی حادثہ کا شکار ہو، دلوں میں بسی نفرت کو مٹانا ہونگا، مذہب کے نام پر کسی انسان کا کوئی دشمن نہ بنے، ورنا بار بار بلقیس بانو تیری یاد آئینگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔