اردو قارئین کی تعداد میں اضافہ: اردوزبان کے لیے نیک شگون

جاوید جمال الدین

ہندوستان میں میڈیایوزرس کاو ¿نسل نے ایک ملک گیر جائزہ یاسروے میں روزنامہ اردو ٹائمز کو ملک کے پانچ اردو اخبارات میں شامل کیا ہے، اخبار کے لیے یہ ایک اعزاز سے کم نہیں ہے، دوسرے اخبارات میں روزنامہ انقلاب، روزنامہ سہارا، سیاست اور روزنامہ مشرق شامل ہیں، یہ خبر ہر ایک اردووالے کے لیے خوشی کی بات ہے، لیکن میرے لیے اس لیے کافی اہمیت کی حامل ہے کہ ان پانچ اخبارات میں سے تین اخبارات اردوٹائمز، انقلاب اور سہارا سے میری وابستگی رہی ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب تعلیمی میدان سے کسی سبب دوری کے بعد اچانک مجھے ایک ناقابل یقین کامیابی حاصل ہوئی اور اس کے لیے میرے بڑے بھائی جیسے اور انجمن اسلام فورٹ سی ایس ٹی کے معلم(سبکدوش) محمد عبدالقادرایم ڈی نے نیک نیتی اورصدق دل سے بھر پور تعاون کیا، اور میں بلاجھجھک کہہ سکتا ہوں کہ مذکورہ کامیابی میری زندگی کا ’ٹرینگ پوائنٹ ‘رہا، مطالعہ کا شوق بچپن سے ہی رہاتھا، بڑے بھائی صابر جمال الدین کی مقفل الماری سے کتابیں چراکرپڑھنا اور اخبارات کا مطالعہ میرے شوق میں شامل رہا۔ اخبار کی ایک ایک خبر نہ پڑھ لیتا، یعنی ممبئی کی زبان میں چاٹ نہ لیتا تو سکون نہیں ملتا تھا۔ پھر جامع مسجد ممبئی کی محمدیہ کتب خانہ اور سینٹرل لائبریری میں اخبارات اور رسائل وجرائد کا مطالعہ میرے شوق میں شامل رہا۔

مجھے بھی مسلمانوں کی طرح اسلامی، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ، خصوصی طورپر فلسطین کے مسائل سے کافی دلچسپی رہی، ہوش سنبھالا تو انہیں جرا ¿ت اور جوانمردی سے لڑتے اور بے رحم اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں سے مرتے دیکھا، سوایک دن غالباً1987میںفلسطینی مسائل پر ایک مضمون لکھ کر فورٹ میں واقع کاﺅس جی پٹیل اسٹریٹ، میں ہفتہ روزہ اردوبلٹز کے دفتر جادھمکا، اُس زمانہ میں بلٹز کی طوطی بولتی تھی، بنگلورکے نشیمن اور ممبئی کے بلٹز کے عروج کا زمانہ تھا، ان کی تحریریں قارئین کے لیے پتھر کی لکیریںہوتی تھیں، خیر وہاں دفتر میں مرحوم محمودایوبی صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوںنے مضمون پر سرسری نظرڈالی اور چار پانچ دن بعد آنے کے لیے کہا۔ میں پانچوںروز پھر پہنچ گیا، انہوںنے کہاکہ ”بلٹز میں اگر نہیں چھپتا ہے تو کیا ہوا، آپ اردوٹائمز کے دفتر چلے جائیں، جہاں فیچر ایڈیٹرساجد رشید سے ملاقات کرلیں۔ “انہوںنے میرے مضمون کے ساتھ ہی ایک سادہ کاغذ پرساجد رشید کو مخاطب کرتے ہوئے ایک سطرمیں میرا تعارف لکھ دیا، اور چائے پینے کے بعدمیں نے ذرابھی تاخیر نہیں کی اورسیدھا گجریا منزل، مولانا آزادروڈ، مدنپورہ ممبئی نمبر 8پہنچ گیا، پھر وہیں کا ہوگیا، اور تقریباًدوسال کا عرصہ اردوٹائمز میںبطورپروف ریڈر، نامہ نگار اور مترجم وسب ایڈیٹر گزارے، بلکہ اُن دوبرس میں میںنے ایک اخبار میں اور صحافتی سطح پر ہونے والے کام کاج کو بخوبی سیکھ لیا، ایک روزنیوز روم میں میں اورنیوز ایڈیٹر حنیف اعجاز مرحوم ہی موجود تھے کہ پی ٹی آئی کی مشین پر ایک بڑے حادثے کی خبر ریلیز کی گئی، حنیف اعجاز صاحب فروغ انصاری کے ساتھ صفحہ اوّل کی خبریں پیسٹ کرارہے تھے، میں نے خبر پڑھ کر انہیں اطلاع دی، انہوںنے کچھ دیر بعد مشین کے قریب پہنچ کر خبر پر نظردوڑائی ہے اور کہاکہ ”جاوید !یہ حادثہ کی بڑی خبر ہے، اچھا ایسا کرو، خبر کا ترجمہ کردو، اور مجھے دکھاﺅ، نیکی اور پوچھ پوچھ، میں نے فوراً قلم سنبھالا اور اس خبر کا ترجمہ کرکے حنیف صاحب کے حوالے کردیا، انہوںنے خبر پڑھنے کے بعد صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ” جاوید، پروف ریڈنگ میں کیا کررہے ہو، کل سے تم میرے ساتھ بیٹھو اور اس کام کے لیے تنخواہ دلانامیری ذمہ داری ہے۔ دوسرے دن جب میں دوپہر اردوٹائمز کے دفتر پہنچا تو حنیف بھائی نے ساجد رشید اور انجم رومانی مرحوم سے کہا کہ ارے بھائی جاوید کو میں نے اپنی ٹیم میں شامل کرلیا ہے، اور آج سے وہ رات 8بجے تا10بجے خبروںکا کام کریں گے، بس یہ بھی کرئیرکا رُخ بدلنے کا دن تھا، تقریباً ایک سال نیوز ڈسک پر کام کرنے کی وجہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور کرنے کا موقعہ ملا، جس نے روزنامہ انقلاب میں داخل ہونے کی راہ ہموار کردی۔

روزنامہ اردوٹائمزمیں بحیثیت ٹرینی رپورٹر اور سب ایڈیٹرکی حیثیت سے کام کے دوران وسط جون 1989میں روزنامہ انقلاب میں’ ٹرینی رپورٹر کی ضرورت ہے‘ کا ایک اشتہار صفحہ اوّل پر شائع ہوا، اس اشتہارکی جانب نہ صرف عبدالرحمن صدیقی نے توجہ مبذول کرائی بلکہ اس بات پر بھی اکسایا کہ میں روزنامہ انقلاب میں اس پوسٹ کے لیے درخواست روانہ کروں۔ کیونکہ انقلاب ایک بڑا اخبار کہلایا جاتا تھا، اور دل میں طرح طرح کی باتیں تھیں، ان کے زوردینے پرمیں نے مشورے پر عمل کیا اور بسم اللہ کہہ کر اپنی ’سی وی ‘روانہ کردی، چند روز بعد ہی کال لیٹر موصول ہوا اوردودن کے انٹرویو کے بعد مجھے 35امیدواروں میںسے منتخب کرلیا گیا، ترجمہ کا شوق بچپن سے رہا تھااور رپورٹنگ اور سبینگ ایک سال میں اردوٹائمز میں سیکھ لی تھی، اور ایک دوسال کے تجربے نے مجھے انقلاب کا رپورٹر اور پھرایک عشرہ بعد اس کے بانی مرحوم عبدالحمید انصاری کا ’بائیو گرافر ‘بنادیا، جب میں نے انقلاب جوائن کیا تھا، اسی سال1989میں، میںنے12 ویں کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ میں نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، پہلے گریجویشن اور پھرکے سی کالج کے ماس کمیونکیشن شعبہ سے 1994میں جرنلزم کیا، میرے ساتھ جہانگیرکاظمی نے بھی داخلہ لیا تھا۔ معروف بزرگ کالم نویس اور ایکٹویکٹ فیروز اشرف کے صاحبزادے فرودس اشرف بھی ہمارے ساتھ تھے، جو ریدف ڈاٹ کام میں اعلیٰ عہدہ پر فائزہیں، جرنلزم میں ڈپلومہ اور پھر پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے میں روزنامہ انقلاب یعنی مڈڈے ملٹی میڈیا کے انتظامیہ کی مالی اعانت کی پالیسی کے تحت کیا تھا۔ جو کہ پوسٹ گریجویٹ کورس کرنے کے لیے اپنے ملازمین کی مالی اعانت کرتے رہے ہیں، میں نے 17سال انقلاب میں گزارے اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مرحوم ہارون رشید کا دورانقلاب کے لیے ایک سنہری دوررہا مجھے سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا اردوترجمہ کرنے کا موقعہ ملا اورپھر مرحوم انصاری صاحب کی سوانح عمری لکھی، شہرت وعزت بھی ملی، تعلقات وسیع ہوئے، منفی سوچ ختم کردی اور مثبت سوچ پیداکرنے کی حتمی االمکان کوشش کی ہے، ہارون رشید کے دورمیں کتابت سے ڈی ٹی پی ان پیج اردونصب کردیا گیا، اور قارئین سے جو رابطہ بنا، وہ صرف بانی انقلاب عبدالحمید انصاری کے دورمیں رہا نہ فضیل صاحب کے دورمیں رہا اور نہ اب ہے۔ ایک اخبار کے لیے پی آراوشپ کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، ویسے سوشل میڈیا نے اس کام کوآج آسان بنا دیا ہے۔ نیٹ اور موبائیل سے اخبارات کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، اردوٹائمز سے وابستگی کے ساتھ ساتھ چند مہینے روزنامہ ہندوستان یں بھی کام کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ سرفراز صاحب سب کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔

روزنامہ انقلاب میں 2005میں میری ملازمت کے 17سال مکمل ہوچکے تھے، اس درمیان امریکہ کے شعبہ اطلاعات ورابطہ عامہ کے تحت میں اسٹڈی ٹورپر امریکہ بھی گیا اورجہاں ”ریلجس اسٹڈی “کا کورس مکمل کیا، لیکن اسی سال ترقی اور اخبارکے توسیعی منصوبے پر عمل کرنے کے بہانے میرا نئی دہلی تبادلہ کردیا گیا، چند ماہ بعد ہی غالباًمارچ 2006میں ممبئی سے روزنامہ راشٹریہ سہارا، بزرگ صحافی عزیز برنی کی سربراہی نکلنا شروع ہوااور دہلی میں ایک دن انہوں نے دفتر بلا کر مجھے ممبئی کا بیوروچیف مقررکرنے کی پیشکش کی، میں نے انقلاب سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی واپس لوٹ آیا۔ عزیز برنی کا اندازہ سب جدا ہے، ٹھاٹ سے رہتے ہیں، لیکن ساتھ لیکر چلتے ہیں، سہارا میںمیرے دس سالہ دورمیں محنت ولگن سے کام کیا، حیدرآباد اور بنگلور میں خصوصی طورپر ذمہ داریاں سنبھالی، 2010میں برنی صاحب کی سفارش پر سہارا کے روح رواں جناب سبرت رائے نے مجھے نائب صدرجمہوریہ جناب حامد انصاری کے انتہائی اہم وی وی آئی پی بیرونی ملک کے دورہ پر یورپ جانے کی اجازت دے دی، میں سابق نائب صدرکے خصوصی میڈیا ڈیلیگیٹ میں شامل رہا، ہم نے چیک ری پبلک اور کروشیا کاد ورہ کیا، جہاں کی خوبصورتی اور پُرفضاءمقامات اور بہترین لوگوں سے میں کافی متاثر ہوا، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے، یورپ اورامریکہ کے باشندوں نے ہم اسلام کی اخلاقیات، آداب واحترام کی تعلیمات کو چھین لیا ہے، خیر یہ مختلف موضوع ہے، ان تینوں اخبارات کے قارئین کی تعدادمیں اضافہ کی خبرپُرمسرت ہے، اور میں فخر محسوس کرتا ہوںکہ ان تینوں کاحصہ بنارہاہوں، انقلاب میں کچھ تلخ تجربات بھی ہوئے ہیں، لیکن میں اب سب کچھ بھول چکا ہوں اور درگزراور معاف کرنے کی پالیسی پر عمل کررہا ہوں، میںخصوصی طورپراردوٹائمز کی اس ترقی پر بہت خوش ہوں، کیونکہ یہیں سے میں نے صحافت کی الف بے سیکھی ہے، انقلاب میں پروان چڑھا اور سہارا نے مزید سنورنے میں مددکی۔

یہ کیسے ہوا ہے کہ قارئین کی تعداد معلوم کرنے کے لیے دراصل ایک مستندادارہ میڈیا ریسرچ یوزرس کاونسل نے سروے کرتا ہے اوراپنے انڈین ریڈرشپ سروے میں ادارہ نے پانچ اردواخبارت کی ریڈرشپ میں زبردست اضافہ کی اطلاع دی ہے، جن میں کئی شہروں سے اشاعت والا روزنامہ انقلاب، روزنامہ سہارا، اخبار مشرق اور سیاست شامل ہیں، لیکن ممبئی کے تقریباً ساٹھ سالہ پرانے روزنامہ اردوٹائمز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی ریڈرشپ میںمحض ایک سال میں 33ہزار کا اضافہ ہوا، واضح رہے کہ اخبار ہذاکی اشاعت صرف ممبئی سے ہوتی ہے اور قارئین کی تعدادڈھائی لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ جبکہ انقلاب اور سہارا کے کئی کئی ایڈیشن ہیں، ہندوستان میں سیکڑوںکی تعداد میں اردوروزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہنامہ شائع ہوتے ہیں۔ اور روزنامہ اردوٹائمز کے قارئین کی تعدادڈھائی لاکھ سے تجاوز کرنا اور ایک سال میں 33ہزار قارئین بڑھنا کافی اہم بات ہے۔ اس سروے کا مقصدیہ بھی ہے کہ جوادارے، کمپنیاں یا دیگر مشتہرین اخبارات میں اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے مقصد سے اشتہارات شائع کرانے کے متمنی ہوتے ہیں، ان مذکورہ سروے سے پتہ چل جاتا ہے کہ اخبارکے اصل قارئین کی تعداد کتنی ہے اور کہاں کہاں پڑھا جاتا ہے۔ اس کام میں میڈیا ریسرچ یوزرس کاونسل مددگار ثابت ہوتی ہے۔ سبھی اردواخبارات مبارکباد سے مستحق ہیں، خصوصی طورپر روزنامہ اردوٹائمز جوکہ ایک بحرانی دورسے ابھرکر ترقی وکامرانی کی سمت میں بڑھ رہا ہے۔ اللہ مزید کامیابی عطافرمائے گا۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔