ہر درد و غم مٹائے گی اکّیسویں صدی
افتخار راغبؔ
ہر درد و غم مٹائے گی اکّیسویں صدی
لگتا تھا دل کو بھائے گی اکّیسویں صدی
…
کس شب چہار سمت جلیں گے خوشی کے دیپ
کس روز مسکرائے گی اکّیسویں صدی
…
کیا یوں ہی اہلِ درد رہیں گے خراب حال
کیا یوں ہی بیت جائے گی اکّیسویں صدی
…
یوں لگ رہا ہے اب کبھی امن و اماں کی شکل
شاید نہ دیکھ پائے گی اکّیسویں صدی
…
نا قدریاں ہماری کرے گی اگر شمار
روئے گی گڑگڑائے گی اکّیسویں صدی
…
کذّابِ وقت خود کو بتاتا ہے حق پرست
اب اور کیا دکھائے گی اکّیسویں صدی
…
شاید ابھی ظہور میں آئی نہیں ہے وہ
جس آگ میں جلائے گی اکّیسویں صدی
…
پانی زمیں کی تہہ میں اترتا گیا اگر
خشکی میں ڈوب جائے گی اکّیسویں صدی
…
گر اُٹھ گیا زمین سے انسانیت کا درد
"شاعر کہاں سے لائے گی اکّیسویں صدی”
…
راغبؔ ہم اُتنے اور جلا کر دکھائیں گے
جتنے دیے بجھائے گی اکّیسویں صدی
تبصرے بند ہیں۔