ہر درد و غم مٹائے گی اکّیسویں صدی

افتخار راغبؔ

ہر درد و غم مٹائے گی اکّیسویں صدی

لگتا تھا دل کو بھائے گی اکّیسویں صدی

کس شب چہار سمت جلیں گے خوشی کے دیپ

کس روز مسکرائے گی اکّیسویں صدی

کیا یوں ہی اہلِ درد رہیں گے خراب حال

کیا یوں ہی بیت جائے گی اکّیسویں صدی

یوں لگ رہا ہے اب کبھی امن و اماں کی شکل

شاید نہ دیکھ پائے گی اکّیسویں صدی

نا قدریاں ہماری کرے گی اگر شمار

روئے گی گڑگڑائے گی اکّیسویں صدی

کذّابِ وقت خود کو بتاتا ہے حق پرست

اب اور کیا دکھائے گی اکّیسویں صدی

شاید ابھی ظہور میں آئی نہیں ہے وہ

جس آگ میں جلائے گی اکّیسویں صدی

پانی زمیں کی تہہ میں اترتا گیا اگر

خشکی میں ڈوب جائے گی اکّیسویں صدی

گر اُٹھ گیا زمین سے انسانیت کا درد

"شاعر کہاں سے لائے گی اکّیسویں صدی”

راغبؔ ہم اُتنے اور جلا کر دکھائیں گے

جتنے دیے بجھائے گی اکّیسویں صدی

تبصرے بند ہیں۔