ہم نے اس راہ سے اوروں کو گزرنے نہ دیا

زخمِ فرقت کو تری یاد نے بھرنے نہ دیا
غمِ تنہائی مگر رخ پہ ابھرنے نہ دیا

آج بھی نقش ہیں دل پر تری آہٹ کے نشاں
ہم نے اس راہ سے اوروں کو گزرنے نہ دیا

تونے جس روز سے چھوڑا اسے خالی رکّھا
میں نے خوشیوں کو بھی اس دل میں ٹھہرنے نہ دیا

ربط جو تجھ سے بنایا سو بنائے رکّھا
تو ہی کیا تیرا تصوّر بھی بکھرنے نہ دیا

تجھ کو دل میں رکھا بے عمر غموں کی مانند
اشک بن کر کبھی پلکوں پہ ابھرنے نہ دیا

ضبط اتنا کہ چراغوں سے ہوئے محوِ کلام
یاد اتنی کہ تجھے دل سے اترنے نہ دیا

آئینے توڑ دیئے جو بھی نظر سے گذرے
کسی مَہ رُو کو ترے بعد سنورنے نہ دیا

ہر گھڑ ی یاد تری ساتھ ہی رکھا ہمدم
تیرے سائے پہ بھی تنہائی پسرنے نہ دیا

مہ جبیں لاکھ حسیں ہو کوئی پر ابنِ چمنؔ
دیدنی شکل ترے جیسی نظر نے نہ دیا

تبصرے بند ہیں۔